انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مسلمہ بن عبدالملک سنہ۹۷ھ میں مسلمہ بن عبدالملک نے علاقہ رضاخیہ کوفتح کیا، سنہ۹۸ھ میں ایک رومی سردار القون نامی نے حاضردربار خلافت ہوکر قسطنطنیہ کے فتح کرنے کی ترغیب دی سلیمان نے اپنے بیٹے داؤد اور اپنے بھائی مسلمہ کوفوج دے کرقسطنطنیہ کی طرف روانہ کیا مسلمہ اس فوج کا سپہ سالار اعظم تھا، مسلمہ نے جاکر قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا، جب لشکر اسلام قسطنطنیہ کے قریب پہنچا تھا تومسلمہ نے لشکریوں کوحکم دیا تھا کہ ایک ایک مدغلہ ہرشخص اپنے ہمراہ لیتا چلے اور لشکر گاہ میں لے جاکر جمع کرے قسطنطنیہ کا محاصرہ کرنے کے بعد یہ غلہ جمع کیا گیا توغلہ کے انبار پہاڑوں کی طرح جمع ہوگئے مسلمہ نے قسطنطنیہ کا محاصرہ ڈال کرفوج والوں کے لیے مکانات مٹی پتھر کے بنوادیے اور میدانوں میں کھیتی کرنے کا حکم دیا گیا؛ چنانچہ کھیتی پک کرتیار ہوگئی، روزانہ اخراجات خوردونوش کے لیے غلہ لوٹ مار کے ذریعہ فراہم کیا جاتا تھا، غلہ کے انبار محفوظ تھے کھیتی پک کرتیار ہوگئی تھی، اہل قسطنطنیہ اس عزم وہمت اور استقلال کے ساتھ محاصرہ دیکھ کرسخت پریشان ہوئے، سال بھرگزرنے کے بعد انھوں نے خفیہ پیغاموں کے ذریعہ اسی رومی سردارالقون نامی کواپنی طرف متوجہ کرکے اس بات کالالچ دیا کہ اگرمسلمانوں کا محاصرہ اُٹھوا دو اور ان کویہاں سے رخصت کردو توہم آدھا ملک تم کودیدیں گے القون اس پررضامند ہوگیا، اس نے مسلمہ کومشورہ دیا کہ اگرتم اپنے غلہ کے انباروں اور کھیتوں کوآگ لگادوگے تورومی لوگ یہ سمجھیں گے کہ اب مسلمان سخت اور فیصلہ کن حملہ کرنے پرمستعد ہوگئے ہیں؛ لہٰذا امید ہے کہ وہ فوراً شہر آپ کے سپرد کردیں گے اور بغیر لوٹے ہوئے بہ آسانی شہرپرقبضہ ہوسکے گا، مسلمہ رومی سردار کے اس چکمے میں آگیا؛ حالانکہ اس سے پیشتر رومی مسلمہ کے پاس یہ پیغام بھیج چکے تھے کہ ہم سے فی کس ایک اشرفی کے حساب سے جزیہ لے لو اور محاصرہ اُٹھاکر چلے جاؤ؛ لیکن مسلمہ ان کی اس درخواست کورد کرچکا تھا، چند روز اور محاصرہ جاری رہتا توقسطنطنیہ کے فتح ہونے میں کوئی شبہ باقی نہ تھا؛ لیکن خدائے تعالیٰ کوابھی منظور نہ تھا کہ مسلمان قسطنطنیہ پرقابض ومتصرف ہوں؛ چنانچہ مسلمہ نے غلہ کے انباروں اور کھیتیوں میں آگ لگوادی۔ اس احمقانہ فعل کا اثر یہ ہوا کہ رومی بہت خوش ہوئے اور مدافعت پردلیر ہوگئے، مسلمانوں کوغلہ کی تکلیف ہونے لگی ادھر القون معہ اپنے ہمراہیوں کے لشکرِ اسلام سے جدا ہوکررومیوں میں جاملا، سلیمان بن عبدالملک مسلمہ کوروانہ کرنے کے بعد خود مقام وابق میں مقیم تھا اور یہیں سے ہرقسم کی امداد مسلمہ کوپہنچاتا رہتا تھا، ادھر کھیتی اور غلہ کوجلادیا گیا اُدھر موسم سرما کے آجانے کی وجہ سے سلیمان سامان رسد وغیرہ کی امداد مسلمہ تک نہ پہنچاسکا، نتیجہ یہ ہوا کہ لشکرِاسلام کوفاقے ہونے لگے اور بھوک کی وجہ سے لوگ مرنے شروع ہوئے؛ کیونکہ اب اردگرد کے علاقے سے بھی غَہ لوٹ مار کے ذریعے حاصل نہ ہوسکتا تھا۔ مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کرقیصر کے سردار برجان نامی نے جوشہر صقالیہ کا گورنر تھا ایک فوج عظیم کے ساتھ لشکرِاسلام پرحملہ کیا مسلمہ نے اس کا مقابلہ کرکے شکست دی اور شہر صقالیہ کوفتح کرکے اس پرقبضہ کرلیا اسی عرصہ میں خبر پہنچی کہ سلیمان بن عبدالملک کا انتقال ہوگیا۔