انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جنگ فراض خالد بن ولیدؓ نے فراض میں پہنچ کر لڑائی کی تمہید ڈال دی،یہ مقام دریائے فرات کے کنارے تھا دوسری طرف رومی لشکر خیمہ زن تھا رومی لشکر نےپیغام بھیجا کہ یا تو تم دریائے فرات کے اس طرف آجاؤ یا ہم کو اس طرح عبور کرنے دو تاکہ ہمارے تمہارے دو دو ہاتھ ہوں،حضرت خالد بن ولیدؓ نے جواب دیا کہ تم ہی اس طرح آجاؤ؛چنانچہ رومی لشکر دریا کو عبور کرکے اسلامی لشکر کے مقابل ہوا ،اسلامی لشکر مسلسل سفر اورلڑائیوں سے چور چور ہورہا تھا،رومی بالکل تازہ دم تھے تعداد کے اعتبار سے بھی وہ آٹھ دس گناہ تھے،لڑائی شروع ہوئی،تمام دن ہنگامہ کارزار گرم رہا،بالآخر رومی لشکر کو شکست فاش نصیب ہوئی اور وہ میدان میں ایک لاکھ لاشیں چھوڑ کر مسلمانوں کے سامنے سے بھاگے،اس لڑائی سے فارغ ہوکر ۲۵ ذیقعدہ ۱۲ ھ کو خالد بن ولیدؓ نے شجرہ بن الاغر کے ہمراہ تمام لشکر کو حیرہ کی جانب واپس روانہ کیا اورخود چند ہمراہیوں کو لے کر چپکے سے مقام فراض سے روانہ ہوئے اورمکہ معظمہ میں پہنچ کر حج بیت اللہ میں شریک ہوئے۔ حج سے فارغ ہوکر فوراً حیرہ کی جانب چل دئے،حیرہ میں پہنچ کر جب آپ شریک لشکر ہوئے ہیں تو کسی شخص کو اس کا وہم وہ گمان بھی نہ ہوا کہ یہ حج کرکے آئے ہیں، اتفاقاً یہ خبر چھپی نہ رہ سکی اوررفتہ رفتہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کے کانوں تک پہنچی،انہوں نے خالدؓ کو آئندہ اس قسم کی حرکت سے منع کیا اورکسی قدر اظہار ناراضگی بھی کیا،اس سال حضرت ابوبکرصدیقؓ نے بھی حج بیت اللہ ادا فرمایا اوراپنی جگہ مدینہ منورہ میں حضرت عثمان بن عفانؓ کو مدینہ کا عامل بنایا، حضرت خالد بن ولیدؓ نے حیرہ میں واپس آکر وہاں کے چند چھوٹے چھوٹے مقامات پر جو باقی رہ گئے تھے قبضہ کیا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ ماہِ ربیع الاول ۱۳ ھ تک علاقہ حیرہ میں رہے،آخر محرم ۱۲ھ میں وہ اس علاقہ میں داخل ہوئے تھے،اس قلیل مدت میں ان کو قدم قدم پر دشمنوں کا مقابلہ پیش آیا اور بیسیوں خونریز عظیم لڑائیاں لڑنی پڑیں،ہر ایک لڑائی میں اُن کی فوج کم اور دشمن کی فوج کئی کئی گنا ہوتی تھی، ہر ایک لڑائی میں انہیں کو فتح نصیب ہوئی،کسی موقعہ پر بھی ان کو شکست وہزیمت حاصل نہیں ہوئی،ایرانیوں کی مغرور اوردشمن قوم کے دل پر اُن کے قوت بازو اور عزم واستقلال کی بدولت عربوں کی دھاک بیٹھ گئی، اس قلیل مدت میں انہوں نے جس قدر وسیع ملک اورمختلف زبردست قبائل کو تسخیر کیا،اس کی نظیر تاریخ عالم میں بہ آسانی دستیاب نہیں ہوسکے گی اس معاملہ میں ہم مجبور ہیں کہ خالدؓ بن ولید کی بے نظر شجاعت اورقابلیت سپہ سالاری پردرود وسلام بھیجیں،لیکن ان تمام خالدی کارناموں کی ایک روح ہے،اُس روح کو بھی ہمیں تلاش کرلینا چاہئے وہ روح انتخاب صدیقی تربیت صدیقی اورہدایات صدیقی ہیں،مدینہ منورہ اورلشکر اسلام کے درمیان برابر سلسلۂ خط وکتابت ہمیشہ جاری رہتا اور ہر ایک واقعہ کی خبر جلد از جلد خلیفۂ رسول تک پہنچ جاتی تھی،اسی طرح معمولی معمولی باتوں کے متعلق خلیفہۃ الرسول کی طرف سے ہدایات پہنچتی رہتی تھیں۔