انوار اسلام |
س کتاب ک |
معاشی مسائل پارٹنرشپ اورسرمایہ کاری متعین کردہ فیصد نفع ونقصان کی بنیاد پر ‘‘شرکت’’ کا حکم پندرہ فیصد نفع، نقصان کی بنیاد پر شرکت کا حکم متعین فیصد نفع نقصان کی بنیاد پرتجارت، جیسے کوئی شخص اپنے شرکت والے ساتھی سے کہے کہ جب بھی تجارت میں منافع آیا تواس میں سے پندرہ فیصد تمہارا ہے؛ اسی طرح اگرنقصان ہوتو تب بھی پندرہ فیصد نقصان برداشت کرنا ہوگا؛ یہ شرکت فاسد ہے، اس لیے کہ اصول یہ ہے کہ نفع کاتناسب توشرکاء باہم رضامندی سے جوچاہیں مقرر کرسکتے ہیں؛ لیکن نقصان ہمیشہ سرمائے کے تناسب کے مطابق ہونا ضروری ہے، یعنی جس نے جتنا فیصد سرمایہ لگایا اتنا ہی فیصد نقصان بھی اُٹھائے؛ لہٰذا گذشتہ مثال میں اگرشریک کا لگایا ہوا سرمایہ پندرہ فیصد ہوتومذکورہ صورت صحیح ہوگی اور اگرپندرہ فیصد سے کم یازیادہ ہوتو صحیح نہ ہوگا۔ (مفہوم فتاویٰ عثمانی:۳/۳۵) تجارت میں شیئر کی ایک خاص صورت بعض عرب ممالک میں یہ قانون بنادیا گیا ہے کہ دوسرے ممالک کے لوگ وہاں کے کسی مقامی باشندہ کی شرکت سے ہی تجارت کرسکتے ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ مکمل تجارت تنہا انھیں کی ہو، اس قانونی طریقہ کی تکمیل کے لیے جب بیرونی باشندے تجارت کرتے ہیں تووہ برائے نام اپنے کاروبار میں کسی مقامی باشندہ کا نام بھی شریک کار کی حیثیت سے دیتے ہیں تاکہ قانونی طور پران کو اس کی اجازت حاصل ہوجائے اور معاوضہ کے طور پرسالانہ یاماہانہ ان کوکوئی متعینہ رقم دے دیا کرتے ہیں، یہ صورت درست نہیں ہے، اصل تاجر اس طرح رشوت دیتا ہے اور یہ کوئی ایسی مجبوری اور ضرورت نہیں ہے جس کی وجہ سے رشوت کی اجازت دی جائے اور دوسرے فریق (جوبرائے نام شریک ہے )کے حق میں بھی یہ رشوت اور غصب کا مال ہے، صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس مقامی باشندے کوبھی باضابطہ شریک کیا جائے؛ اگروہ اس کے لیے آمادہ نہ ہو تو اصل تاجر اپنے سرمایہ کا کچھ حصہ اس کوقرض دے اور معاملہ میں شریک بنالے؛ پھرنفع میں جوتناسب سمجھے مقرر کرلے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۳۷۸) یونٹ ٹرسٹ آف انڈیا میں شرکت حکومتِ ہند کی طرف سے ایک ادارہ بنام: یونٹ ٹرسٹ آف انڈیا، قائم ہے جوعوام سے سرمایہ حاصل کرکے اسے کاروبار میں لگاتا ہے، اس کے ایک حصہ کی قیمت دس روپئے ہے اور بازار میں دس روپئے بیس پیسے یاپچیس پیسے ہے؛ اس طرح کمی بیشی کے ساتھ ملتے ہیں، اس میں لگائے ہوئے سرمایہ کے تحفظ کی ضامن حکومت ہے اور ہم جب چاہیں اسے بازار میں بیچ سکتے ہیں یاحکومت کوواپس کرسکتے ہیں، اس کے منافع کا اعلان منجانب حکومت بذریعہ اخبارات کیا جاتا ہے، جوکم وبیش ہوتا ہے؛ تحقیق کے بعد معلوم ہوا ہے کہ اس میں بعض ایسی باتیں بھی شامل ہوگئی ہیں جن کی وجہ سے اب اس کوجائز نہیں کہا جاسکتا...... اسلام میں شرکت کے معاملات اسی وقت درست ہوسکتے ہیں جب وہ نفع ونقصان دونوں میں شرکت کی اساس پرہو، نفع ہو توبھی تمام فریق شریک ہوں، نقصان ہوتب بھی سب ملکرگوارا کریں؛ لیکن یونٹ ٹرسٹ میں حصص کا خریدار نقصان میں شریک نہیں ہوتا؛ بلکہ اس کا اصل سرمایہ بھی بہرحال محفوظ رہے گا اور اس پرحاصل ہونے والا کم سے کم نفع بھی؛ اس طرح اس کاروبار میں بھی ربوا پیدا ہوجاتا ہے جواسلام کی نظر میں بدترین جرم ہے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۴۲۷)