انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سلطان محمد نہم سلطان محمد نہم نے تختِ نشین ہوکر امراء کو اپنا طرف دار بنایا،مگر اس نے یہ غلطی کی کہ وزیر یوسف کو اپنا مخالف بنالیا اوراس کی تخریب کے درپے ہوا،وزیر یوسف غرناطہ سے پندرہ سو آدمیوں کو ہمراہ لے کر مرسیہ بھاگ آیا اوریہاں سے خط وکتابت کے ذریعہ بادشاہ قسطلہ سے اجازت لے کر اُس کے پاس چلاگیا اوربادشاہ قسطلہ مسمی جان کو محمد ہشتم کی امداد پر آمادہ کرنا چاہا، اس عیسائی بادشاہ نے مسلمانوں کو آپس میں لڑوانے کا بہت اچھا موقع پایا اورکہا کہ اپنے ہمراہیوں میں سے بااثر اشخاص کا ایک وفد بادشاہ تونس کے پاس بھیجو اوراس کو بھی امداد پر آمادہ کرو؛چنانچہ وفد گیا اورابوالفارس بادشاہ تونس نے پانچ سو سوار اورایک معقول رقم بطور امداد دیکر اپنے جہازوں میں سوار کراکر محمد ہشتم کو اندلس کی طرف روانہ کردیا، جب سلطان محمد ہشتم اندلس کے ساحل پر اُترا تو وزیر یوسف کی کوشش سے صوبہ المیریا کے باشندوں نے اس کی امداد کے لئے آمادگی ظاہر کی،محمد نہم نے محمد ہشتم کے آنے کی خبر سُن کر اس کے مقابلہ کو فوج بھیجی،مگرجب یہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے سامنے پہنچیں تو یوسف کی کوشش سے محمد نہم کی فوج کا بڑا حصہ محمد ہشتم کی فوج سے آملا، اس طرح باقی لوگ بھاگ کر غرناطہ آئے،محمد ہشتم غرناطہ کی طرف بڑھا اور۸۳۳ھ میں غرناطہ کو فتح کرکے محمد نہم کو گرفتار و قتل کیا اورخود تخت نشین ہوا۔ محمد ہشتم نے دوبارہ سلطنت حاصل کرنے کے بعد اپنے وزیر یوسف کی رائے کے موافق اپنے طرز عمل کو تبدیل کردیا اور رعایا کی دل جوئی میں مصروف ہوا،اب عیسائی بادشاہ قسطلہ کی طرف سے اطمینان حاصل کرنے کے لئے محمد ہشتم نے چاہا کہ اس سے دوامی صلح ہوجائے،لیکن عیسائی بادشاہ نے کہا کہ تم ہم کو خراج دینا قبول کرو تو دو امی صلح ہوسکتی ہے،اس کو محمد ہشتم نے نا منظور کیا، مگر چونکہشاہ قسطلہ کو بھی بعض اندرونی پیچیدگیوں کی وجہ سے اطمینان حاصل نہ تھا، لہذا کوئی فتنہ برپا نہ ہوا چند روز کے بعد شاہ قسطلہ نے حملہ کیا،متعددلڑائیاں ہوئیں،کبھی مسلمانوں کو کبھی عیسائیوں کو کامیابی ہوئی،ابھی یہ سلسلہ لڑائیوں کا جاری ہی تھا کہ محمد ہشتم کے ایک رشتہ دار یوسف ابن الاحمر نے علمِ بغاوت بلند کیا اوراپنے دوستوں کی مدد سے کبیرہ میں سلطنتِ غرناطہ کے تخت کا مدعی ہوکر شاہ قسطلہ سے خطوکتابت کرکے اس بات کا اقرار کیا کہ اگر آپ کی مدد سے میں سلطنتِ غرناطہ پر قابض ومتسلط ہوگیا تو سالانہ خراج بلاچون وچرا ادا کیا کروں گا اورضرورت کے وقت اپنی فوج سے آپ کا مدد گار رہوں گا،عیسائیوں نے اس کو تائیدی غیبی سمجھا، اورشاہ قسطلہ نے فوراً اپنی فوجیں مقام کبیرہ میں یوسف کی مدد کے لئے بھیج دیں،یہاں محمد ہشتم نے حملہ کیا اورجنگِ عظیم برپا ہوئی،بادشاہ قسطلہ بھی اس جنگ میں خود موجود تھا، آخر طرفین سے بہت سے آدمی کا م آئے اورغالب ومغلوب کا فیصلہ ہوئے بغیر شاہ قسطلہ یوسف ابن الاعمر کو لئے ہوئے قرطبہ کی جانب اورمحمد ہشتم غرناطہ کی جانب چلا گیا۔ شاہ قسطلہ نے قرطبہ میں دربارِ عام منعقد کرکے یوسف ابن الاعمر کو بادشاہ غرناطہ بنایا اوراس کو ہر قسم کی مدددینے کا وعدہ کیا،اس کے بعد یوسف کو فوج دے کر رخصت کیا کہ غرناطہ کی سلطنت پر قبضہ کرلے یوسف نے فرماں برداری کا اقرار کیا اورروانہ ہوکر حدودِ سلطنت غرناط میں عیسائیوں کی مدد سے لوٹ مار کا بازار گرم کیا،عیسائیوں کو اب ہر قسم کا اطمینان تھا کیوں کہ دونوں مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جنگ آزما ہوگئے تھے اور وہ دُور سے تماشا دیکھ رہے تھے،سلطان محمد ہشتم نے اپنے وزیر یوسف کو یوسف ابن الاحمر کی سرکوبی پر مامور کیا، ۸۳۹ھ میں وزیر یوسف ایک لڑائی میں یوسف ابن الاحمر کے ہاتھ سے مارا گیا،یہ خبر ب غرناطہ میں پہنچی تو وہاں کی رعایا میں سخت بے چینی پیدا ہوئی اور محمد ہشتم کے خلاف رائے زنی ہونے لگی،محمد ہشتم یہ رنگ دیکھ کر قصر حمراء کا تمام خزانہ ہمراہ لے کر غرناطہ سے مالقہ کی طرف چلاگیا۔