انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** غزوۂ حنین فتح مکہ اوراکثر قریش کے داخلِ اسلام ہونے کی خبر سن کر عرب کے ان قبائل میں زیادہ کھلبلی اورپریشانی پیدا ہوئی جو مسلمانوں کے حلیف نہ تھے،انہیں میں ہوازن اورثقیف کے قبائل تھے جو طائف اورمکہ کے درمیان رہتے اور قریش کے حریف اورمد مقابل سمجھے جاتے تھے، یہ قبائل نہ مسلمانوں کے حلیف تھے نہ قریشِ مکہ کے ان کو یہ فکر پیدا ہوئی کہ مسلمان مکہ کے بعد اب ہمارے اوپر حملہ آور ہوں گے، بنو ہوازن کے سردار مالک بن عوف نے بنو ہوازن اوربنو ثقیف کے تمام قبائل کو جنگ کیلئے آمادہ کرکے اپنے گرد جمع کردیا،قبائل نصر، جشم، سعد وغیرہ بھی سب آمادہ ہوگئے اورجنگ میں شریک ہوگئے اور مقام اوطاس میں اس لشکرِ عظیم کا اجتماع ہوا، آپ کو جب مکہ میں اس لشکرِ عظیم کے جمع ہونے کی خبر پہنچی تو آپ نے عبداللہ بن ابی حدرواسلمی کو بطور جاسوس خبر لینے کے لئے روانہ کی، انہوں نے واپس آکر بیان کیا کہ دشمنوں کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں اور وہ جنگ کے لئے مستعد ہیں،آپ نے فوراً جنگ کی تیاری شروع کی ،دس ہزار مہاجر وانصار آپ کے ہمراہ مدینے سے آئے تھے،وہ سب اوردو ہزار اہل مکہ کُل بارہ ہزار کا لشکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مکہ سے روانہ ہوا،اہل مکہ کے دو ہزار آدمیوں میں کچھ نو مسلم تھے اورکچھ لوگ ایسے تھے جو ابھی تک مشرکانہ حقائق پر قائم تھے،پہلی شوال ۸ھ کو لشکرِ اسلام تہامہ کی وادیوں سے گزر کر وادی حنین میں پہنچا، دشمنوں نے لشکر اسلام کے قریب پہنچنے کی خبر سُنکر وادی حنین کے دونوں جانب کمین گاہوں میں چھپ کر لشکر کا انتظار کیا ۔ مسلمان وادی کی شاخ درشاخ اورپیچیدہ گزرگاہوں میں ہوکر نشیب کی طرف اُترنے لگے تھے اور صبح کا ذب کی تاریکی پھیلی ہوئی تھی کہ اچانک دشمنوں کی فوجوں نے کمین گاہوں سے نکل نکل کر تیر اندازی اور شدید حملے شروع کردیئے،اس اچانک آپڑنے والے مصیبت اوربالکل غیر متوقع حملے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان سراسمیہ ہوگئے اوراہل مکہ کے دوہزار آدمی سب سے پہلے حواس باختہ ہوکر بھاگے ان کو دیکھ کر مسلمان بھی جدھر جس کو موقع ملا منتشر ہونے لگے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وادی کے داہنی جانب تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حضرت ابوبکرصدیقؓ،حضرت عمر فاروقؓ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ،حضرت عباسؓ، حضرت فضلؓ بن حیان، ابو سفیانؓ بن الحرث اورایک مختصر سی جماعت صحابہ کرام کی رہ گئی، آپ اپنے سفید خچر دُلدُل نامی پر سوار تھے،حضرت عباسؓ اس کی لگام تھامے ہوئے تھے،اس سخت پریشانی اورافراتفری کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے فرماتے تھے کہ"اَنَا النَّبِیٌّ لاَ کَذِبْ اَنَا اِبْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ" آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس استقلال اورشجاعت نے کس قدر مسلمانوں کی ہمت بڑھائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد دشمن پوری طاقت سے حملہ آور تھے اور یہ مٹھی بھر آدمی اُن سے لڑرہے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباسؓ کو جو بلند آواز تھے حکم دیا کہ مسلمانوں کو اس طرف بلاؤ؛چنانچہ حضرت عباسؓ نے ہر قبیلہ کا نام لے لے کر آواز دینی شروع کی کہ اس طرف آؤ،اس آواز کو پہچان کر مسلمان اس طرح اس آواز کی طرف دوڑے جیسے گائے کے بچھڑے اپنی ماں کی آواز سُن کر اس کی طرف دوڑتے ہیں،مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب صرف سو ہی آدمی پہنچ سکے،باقی دشمنوں کے درمیان حائل ہوجانے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہ پہنچ سکے اور وہیں سےلڑنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہہ کر دُلدل کو دشمنوں کی طرف بڑھایا اوران سو آدمیوں کے مختصر دستے نے ایسا سخت حملہ کیا کہ اپنے سامنے سے دشمنوں کو بھگادیا اوران کے آدمیوں کو گرفتار کرنا شروع کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نعرہ تکبیر سُن کر اور دشمنوں پر حملہ آوری دیکھ کر مسلمانوں نے بھی ہر طرف سے سمٹ کر دشمنوں پر نعرہ تکبیر کے ساتھ حملہ کیا اورذراسی دیر میں لڑائی کا نقشہ بدل گیا، دشمنوں کو کامل ہزیمت ہوئی، اس لڑائی میں مسلمانوں کو مشرکینِ اہلِ مکہ کے سبب جو شریکِ لشکر تھے ابتداءً ہزیمت ہوئی تھی کیونکہ انہوں نے خود بھاگ کر دوسروں کے قدم بھی متزلزل کردیئے تھے،لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی شجاعت اوراستقلال نے تھوڑی ہی دیر میں مسلمانوں کو سنبھال لیا اور دشمنوں کو شکست فاش نصیب ہوئی جس وقت لڑائی کا عنوان بگڑا ہوا تھا اور مسلمانوں میں جنگ کی افرا تفری نمودار تھی تو ایک شخص مکہ والوں میں خوشی کے لہجے میں پکار اُٹھا کہ لو آج سحر کا خاتمہ ہوگیا،ایک شخص نے کہا کہ مسلمانوں کی ہزیمت اب رک نہیں سکتی یہ اسی طرح ساحلِ سمندر تک بھاگتے ہوئے چلے جائیں گے،ایک شخص شیبہ نامی نے کہا کہ آج میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بدلہ لونگا یہ کہہ کر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طر ف بُرے ارادے سے چلا،لیکن راستہ میں بیہوش ہوکر گر پڑا۔ ہوازن کے میدانِ جنگ میں بہت سے آدمی مارے گئے اور وہ بالآخر میدان چھوڑ کر بھاگے،ان کے بعد قبائل ثقیف کے لوگوں نے تھوڑی دیر میدان کار زار کو گرم رکھا، آخر وہ بھی فرار کی عار گوارہ کرنے پر مجبور ہوئے، اس لڑائی میں دشمنوں کے بڑے بڑے سردار اوربہادر لوگ مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے،لیکن ان کا سپہ سالارِ اعظم مالک بن عوف فرار ہوگیا اورطائف کی طرف چلا گیا اور مخالف والوں نے ان مفروروں کو اپنے یہاں پناہ دے کر شہر کے دروازے بند کرلئے ،مفرور ین کا ایک حصہ مقام اوطاس میں جمع ہوا اورایک حصے نے مقام نخلہ میں پناہ لی، اوطاس اورنخلہ کی طرف فوجی دستے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعاقب میں روانہ کئے اور دونوں جگہ مقابلہ و مقاتلہ ہوا، لیکن مسلمانوں نے ہر مقام پر دشمن کو شکست دے کر بھگا دیا اورمالِ غنیمت نیز قیدیوں کو لے کر واپس ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام اسیرانِ جنگ اورمالِ غنیمت کو مقام جعرانہ میں جمع کرنے کا حکم دیا اورحضرت مسعودؓ بن عمر غفاری کو حفاظت کے لئے مقرر فرما کر طائف کا قصد کیا،اس لڑائی میں چھ ہزار قیدی،۴۴ ہزار اونٹ،۴۴ ہزار سے زیادہ بھیڑ بکریاں،چار ہزار اوقیہ چاندی مسلمانوں کے ہاتھ آئی،یہ لڑائی جنگ حنین کے نام سے مشہور ہے،تمام قبائل ثقیف طائف میں جمع ہوچکے تھے اور اہل طائف ان کے ہمدرد بن چکے تھے۔