انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت زیادؓ بن لبید نام ونسب زیاد نام ،ابو عبداللہ کنیت،قبیلۂ خزرج کے خاندان بیاضہ سے ہیں،سلسلہ نسب یہ ہے،زیاد بن لبید بن ثعلبہ بن سنان بن عامر بن عدی بن امیہ بن بیاضہ بن عامر بن زریق بن عبد حارثہ بن مالک بن غضب بن جشم بن خزرج۔ اسلام بیعتِ عقبہ میں شریک تھے،جب مدینہ میں مہاجرین کی آمد شروع ہوئی تو انصار کی ایک جماعت کے چار آدمیوں سے مرکب تھی،مکہ پہنچی جس میں ایک حضرت زیادؓ تھے،وہاں سےبہت سے صحابہؓ کے ساتھ مدینہ واپس آئے،اس بنا پر یہ لوگ انصاری بھی تھے اور مہاجر بھی۔ غزوات ،بدر،احد،خندق،اورتمام غزوات میں شریک تھے۔ ۹ھ میں آنحضرتﷺ نے یمن کا حاکم بنایا، یہ ملک ۵ حصوں پر تقسیم تھا (استیعاب:۱/۲۴۶،حالات معاذ بن جبل) حضرت زیادؓ حضرت موت کے عامل تھے،صدقات کا محکمہ بھی ان کے زیر ریاست تھا ۔ آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد جب اہل یمن مرتد ہوگئے،اورزکوٰۃ بند کردی تو حضرت ابوبکرؓ نے زیاد کو اس بارہ میں لکھا، انہوں نے شاہان کندہ پر شبخون مار کر فتح حاصل کی،اشعث بن قیس کا محاصرہ کرکے شکست دی اور اس کو دارالخلافت روانہ کیا،حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: وکان لہ بلاء حسن فی قتال اھل الردۃ (تہذیب التہذیب :۳/۳۸۳) یعنی انہوں نے مرتدین کی جنگ میں بڑی جانبازی دکھائی۔ خلافت صدیقی (طبری:۴/۱۳۶) اورفاروقی میں بھی اسی خدمت پر ممتاز رہے، (یعقوبی:۲/۱۸۶) اس فرض سے سبکدوشی کے بعد کوفہ کی سکونت اختیار کی،بعض کا خیال ہے کہ شام میں قیام کیا تھا۔ وفات ۴۱ھ میں انتقال ہوا، یہ امیر معاویہؓ کی حکومت کا پہلا سال تھا۔ فضل وکمال زیادؓ فقہائے صحابہؓ میں تھے، (تہذیب :۳/۳۸۳) صحیح ترمذی میں ہےکہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺنے فعمایا کہ اب علم کے اٹھنے کا وقت آپہنچا،زیادؓ نے عرض کیا یہ کیسے ہوسکتا ہے،اب تو علم لوگوں کے رگ وپے میں سرایت کر چکا ارشاد ہوا: ثکلتک امک یا زیاد !ان کنت لا راک من افقہ رجل بالمدینۃ اولیس الیھود والنصاریٰ یقرؤن التوراۃ والانجیل ولا ینغعون بشئی یعنی اے زیاد تیری ماں تجھ کو روئے میں تجھ کو نہایت سمجھ دار شخص خیال کرتا تھا کیا دیکھتے نہیں کہ یہودو نصاریٰ تورات وانجیل پڑہتے ہیں ،لیکن ان سے کچھ نفع نہیں اٹھاتے۔ حضرت عبادہؓ نے اس حدیث کو سنا تو فرمایا سچ ہے، سب سے پہلے خشوع اٹھ رہا ہے۔ (اصابہ:۲/۳) آنحضرت ﷺ سے چند حدیثیں روایت کیں، حلقہ روایت میں عوف بن مالک، جبیر بن نفیر، سالم بن ابی الجعدان کی مسند فضل و کمال کے حاشیہ نشین ہیں۔