انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عثمانؓ چودہ سوسال قبل سارے عالم پر چھائی ہوئی کفر وشرک اور ظلم وعدوان کی تیرہ وتاریک سیاہ شب میں ، عرب کی پتھریلی زمین پر جب نبوت کا ماہِ کامل طلوع ہوا تو اس کے ہالۂ نو ر میں ہزاروں ستارے جگمگا اٹھے، نجوم ہدایت کی اسی کہکشاں میں ایک بے انتہاء چمکدار ستارے کانام ہے " عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ" جو شرم وحیا کے پیکر، عفت وپاکدامنی کے مظہر، علم وحکمت کے معدن، جودوسخاکے مخزن، فہم و فقاہت کے ہمراز، رقت و نرمی سے سرفراز، حلم وبردباری کے ساتھ جذبۂ ایمانی سے سرشار، جامع القرآن اور محبوب الرحمن تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شانِ فقاہت ومقام اجہتاد دین اسلام کا عالمگیر اور ابدی پیغامِ حق وصداقت، رشدو ہدایت جن عظیم وقویم بنیادوں پر قائم ہے وہ کلامِ الہٰی اور احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بے نظیر ولامثال، وسیع وعمیق اور محفوظ ومعتبر ترین ذخیرہ ہے، قرآن اپنے آپ کو اور حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھنے والوں کے سامنے بار بار ایک ایسے رہنما و رہبر کے طور پر پیش کرتا ہے جو قیامت تک پیش آنے والے تمام مسائل اور رونما ہونے والے تمام حالات وتغیرات کا بہترین حل قافلۂ انسانیت کے سامنے رکھنے کی اہلیت وصلاحیت سے مالا مال اور ہر زمان ومکان کے لیئے اسوۂ حسنہ ہو، قرآن و حدیث کے بعد اجماع امت بھی شریعت کی بنیادوں میں سے ایک مضبوط بنیاد اور اہم دلیل ہے جس کاانکار بسا اوقات انسان کو مذہب کے دائرے سے نکال دیتا ہے؛ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس رواں دواں سدا جوان زندگی میں ایسے بے شمار مسائل پیش آتے رہتے ہیں جن کاکوئی حل بظاہر قرآن وحدیث کے اوراق اور اجماع کے اخبار وآثار میں نظر نہیں آتا لیکن قرآن وحدیث کے رموز سے شناور اور علم وعمل کے ساتھ کتاب وسنت کی فہم خداداد سے بہرہ ور ایک فقیہ وحیٔ الہٰی کے اس بحرذخاّر سے ان مسائل کا قابل قبول حل نکال کر مخلوق خدا کے سامنے پیش کردیتاہے، فقہاء کرام کی انہیں عرق ریزیوں اور قابل قدرکوششوں کا نام علم فقہ ہے، علامہ سیوطی رحمہ اللہ فقہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:"ان الفقہ معقول من منقول"۔ (الاشباہ والنظائر، بحوالہ: تدوین فقہ:۲۹، مطبوعہ: اتحاد بک ڈپو، دیوبند) فقہ ایک عقلی علم ہے جو منقول (یعنی وحی نبوت کی معلومات) سے حاصل کیاگیا ہے ، علامہ ابن نجیم مصری رحمہ اللہ فقہ کی تعریف ان الفاظ میں فرماتے ہیں: جاننا چاہئے کہ علم شریعت میں فقہ خاص قسم کی واقفیت کا نام ہے اور وہ خاص قسم کی واقفیت یہ ہے کہ قرآن وحدیث کے معانی ومطالب، ان کے اشارات وکنایات، دلالات ومضمرات اور صحیح مراد کا علم وادراک ہو اور جس شخص کو یہ علم حاصل ہواسی کانام فقیہ ہے۔ (البحرالرائق:۱/۱۶، مطبوعہ: زکریا بک ڈپو، دیوبند) مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ" فقہ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ شریعت میں اپنی طرف سے کسی چیز کا اضافہ عقل کرتی ہے" بلکہ وہی بات یعنی نتائج واحکام کا جو روغن وحی ونبوت کی ان معلومات میں چھپا ہوا تھا عقل کی مشین ان ہی کو اپنی طاقت کی حدتک نچوڑنے کی کوشش کرتی ہے اسی کو شش کا نام اجتہاد ہے۔ (تدوین فقہ:۳۰) اس تشریح سے یہ معلوم ہوا کہ فقہ قرآن وحدیث کے پوشیدہ معانی کا ظہور اور کتاب وسنت کے ظاہری وخفی مسائل واحکام کے مجموعہ کانام ہے، یہ ایساشجرۂ طیبہ ہے جس کی جڑیں حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گہرائیوں میں پیوست ہیں تو شاخیں کلامِ الہٰی کی بلندیوں سے جاملتی ہیں؛ اسی وجہ سے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "قرآن وحدیث کے بعد اسلام کا مدار فقہ پر ہے"۔ (قرۃ العینین، بحوالۂ: قاموس الفقہ: ۱ /۳۴۲) اسی کے ساتھ جب ہم قرآن حکیم کامطالعہ کرتے ہیں تو وہ اہل اسلام کو فقہ کے حصول کی ترغیب دیتا نظر آتاہے (سورہ توبہ) پھر جب ہم احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف عقیدت ومحبت کی نظر دوڑاتے ہیں تو وہاں بھی علم فقہ کے حصول کا حکم اور فقیہ کی تعریف وتوصیف ملتی ہے۔ (بخاری:۱/ ۲۳، مطبع اہم المجمع الخیری، ممبئی، مہاراشٹرا) پھر جب اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک مقدس گروہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ان میں ایسے کئی افراد نظر آتے ہیں جن کے ساتھ "فقہائے صحابہ" کا معزز لقب پوری عظمت واحترام کے ساتھ لکھاجاتاہے اور یہ فقہاء صحابہ کی جھرمٹ میں ایسے نظر آتے ہیں جیسے تاروں کے جھرمٹ میں چاند، یہ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہ ایک طرف قرآن وحدیث کے الفاظ ومعنی کی تعلیم دیتے تھے وہیں ان کے اندر پوشیدہ حقائق ومعارف کے جواہر پارے طالبانِ علوم نبوت کے سامنے پیش کرتے؛ اگرکوئی نیا مسئلہ پیش آتا توقرآن وحدیث کی روشنی میں اپنی فہم خداداد کے ذریعہ اس کا حکم بیان کرنا بھی انہیں حضرات کا عظیم کام تھا، جس کی مثالوں سے تاریخ وسیر اور آثار واحادیث کی کتابیں بھری ہوئی ہیں اور آج امت مسلمہ ان حضرات علیہم الرضوان کے فقہی ورثہ کی روشنی میں کامیابی کے ساتھ اپنی کشتیٔ حیات کو آگے بڑھارہی ہے، جو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ فن فقہ کوئی بدعت نہیں بلکہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی علمی میراث اور ایک روشن راستہ ہے جس پر وہ تا حیات چلتے اور اپنے علم وفہم، فراست وفقاہت کے ذریعہ چمنستانِ اسلام کی آبیاری کرتے رہے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ انہی فقہائے صحابہ میں شمار کئے جاتے ہیں جن کی فقہی آراء کو ہر زمانہ میں بڑی وقعت واہمیت حاصل رہی ہے۔ ذیل میں بطور نمونہ کچھ مسائل پیش کئے جارہے ہیں جو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے اجتہاد وقیاس سے بیان فرمائے ہیں یا آپ رضی اللہ عنہ کاعمل تھا: (۱)ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں دن کے وقت شوال کا چاند نظر آگیا لوگ رمضان سمجھ کر تیسواں روزہ رکھ چکے تھے، جب چاند نظر آیا تو کچھ لوگوں نے روزہ افطارکرلیاحضرت عثمان رضی اللہ عنہ مسجد میں آئے اور لوگوں سے کہا کہ میں تو رات ہی میں افطار کرونگا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:۶ /۲۵۰، حدیث نمبر۹۵۴۵، مطبوعہ: ادارۃ القرآن دارالعلوم الاسلامیہ، کراچی، پاکستان) حضورﷺ کے دورِ مبارک میں کبھی اس طرح کا واقعہ رونما نہیں ہوا تھا آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے اجتہاد سے اس پر عمل فرمایا؛ شاید آپ رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کی اس آیت "وَلَاتُبْطِلُوْا أَعْمَالَکُمْ" (محمد:۳۳) کے پیش نظر یہ فیصلہ فرمایا۔ (۲)حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اپنے زمانۂ خلافت کے آخری سالوں میں حج کیلئے عرفات و منیٰ جاتے تو وہاں دو کے بجائے چاررکعت ادا فرماتے تھے جبکہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مسلک یہ تھا کہ وہاں قصر کیاجائیگا۔ (بخاری:۱ /۱۴۷، مطبوعہ: اشرفی بک ڈپو، دیوبند) ایک روایت کے مطابق خود حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے اس عملِ اتمام کی وجہ یہ بتائی کہ میں نے مکہ کی ایک خاتون سے نکاح کرلیا ہے؛ لہٰذا مکہ میرا وطن عزیز ہوگیا اور وطن میں اتمام فرض ہے نہ کہ قصر۔ (۳)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ وعمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کی ابتدا ء میں مسلمانوں سے زکوۃ کی وصولی سرکاری طور پر وصول کرتے اور حکومت کے نمائندہ کو بھیج کر زکوۃ کا مال جمع کیا کرتے تھے لیکن خلافت عثمانی کے دوران جب لوگوں کے پاس مال ودولت کی کثرت ہوگئی تو عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اندازہ ہوا کہ حکومت کی طرف سے زکوۃ کی وصولی کا اہتمام عوام کیلئے دشواری کا باعث بن رہاہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے زکوۃ کی ادائیگی کی ذمہ داری خود اصحاب مال پرڈالدی اور انہی کو ادائیگی زکوۃ کا ذمہ دار بنادیا۔ (بدائع الصنائع:۲ /۱۳۶، مطبوعہ: مکتبہ زکریا، دیوبند) (۴)حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حمل یعنی پیٹ کے بچہ کی طرف سے بھی صدقۂ فطر ادا کیا کرتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ: ۷/۶۲) (۵)حج کی تین قسمیں ہیں (۱)افراد (۲)تمتع (۳)قران، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہ حج تمتع اور قران کی اجازت دیتے تھے؛ لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ لوگوں کو حج تمتع سے منع فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری:۱ /۲۱۲، مطبوعہ اشرفی بک ڈپو، دیوبند) (۶)اگرکوئی محرم حالت احرام میں شکار کرلے تو محرم پر اس جیسا جانور بطور کفارہ حرم میں قربان کرنا ضروری ہے (المائدہ:۹۵) اس آیت کی روشنی میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے اجتہاد سے کچھ جانوروں کی تعیین فرمائی ہے مثلا: آپ رضی اللہ عنہ نے گرگٹ کے شکار میں بکری کا ایک سالہ بچہ بطور دم دینے کا فیصلہ دیا (سنن بیہقی ومصنف عبدالرزاق، بحوالہ: فقہ حضرت عثمانؓ: ۳۰) شُترمرغ کے شکار پر ایک فربہ اونٹ بطور دم قربان کرنے کا فتویٰ دیا (مصنف ابن ابی شیبہ:۸ /۴۵۰) بٹیر کے شکار میں ایک بکری دینے کا حکم فرمایا (مصنف عبدالرزاق، بحوالہ: فقہ حضرت عثمان رضی عنہ: ۳۰) کبوتر کے بارے میں بھی آپ رضی اللہ عنہ کا فیصلہ یہ ہے کہ ایک بکری بطور دم دی جائیگی (ابن ابی شیبہ: ۸/۱۵۱) اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ نے حالت احرام میں ٹڈی کو مارنے پر بھی فدیہ ادا کرنے کا حکم دیا، لیکن اس کی مقدار متعین نہیں فرمائی، غالباً ٹڈی کا فدیہ مٹھی بھر غلہ ہے۔ (فقہ حضرت عثمان رضی عنہ: ۳۱) (۷)اگر کوئی شخص حرم کے کسی جانور کی ہلاکت کا بلاارادہ سبب بنے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نزدیک اس پر بھی ایک دم دینا ضروری ہوگا، جیسا کہ ایک مشہور واقعہ میں حضرت صالح بن مہری رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان فرمایا: میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج میں شریک ہوا، جب ہم لوگ مکہ مکرمہ پہنچے تو میں نے ان کے لیے ایک مکان میں بستر بچھادیا، آپ رضی اللہ عنہ سوگئے اسی دوران ایک کبوتر آکر کمرے کی کھڑکی میں بیٹھ گیا اور اپنے پنجوں سے مٹی کریدنے لگا، مجھے ڈر ہواکہ کہیں آپ رضی اللہ عنہ کے بستر پر کچھ مٹی نہ گرجائے جس سے آپ کی نیند میں خلل آئے، یہ سوچ کر میں نے اسے وہاں سے اڑادیا، وہ کبوتر وہاں سے اڑکر دوسری کھڑکی میں جابیٹھا، اسی وقت وہاں ایک سانپ نکلا اور اسنے کبوتر کو ڈس لیا جس سے کبوتر کی موت واقع ہوگئی، جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نیند سے بیدار ہوئے تو میں نے آپ رضی اللہ عنہ کو پورا واقعہ سنایا، واقعہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس کبوتر کے بدلہ میں ایک بکری بطورِ دم دو، مہری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا، امیر المؤمنین میں نے اس کبوتر کو اس لئے اڑایاتاکہ آپ کی نیند میں خلل نہ آئے، یہ سن کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تب ایک بکری میری طرف سے بھی بطور دم دیدو (مصنف ابن ابی شیبہ: ۸/۱۵۱) تقریباً اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی آپ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں پیش آیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ مسئلہ پیش ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس وقت بھی دم دینے کا فتویٰ دیا؛ کیونکہ وہ اس کبوتر کو ایک محفوظ مقام سے غیرمحفوظ مقام میں پہنچانے کا باعث ہوئے تھے۔ (مسندشافعی، بحوالہ: سیرالصحابہ: ۱/۲۳۶) اس مسئلہ میں آپ رضی اللہ عنہ کا مستدل شاید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے حالت احرام میں نیز محرِم کے کئے ہوئے شکار کو کھانے کے متعلق دریافت کرنے پر فرمایا: "کیا تم نے اشارہ کیا یاکسی طرح کی مدد کی یاشکار کیا"۔ (مسلم، باب تحریم الصید الماکول البری: ۱/۳۸۱) اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکار کی طرف اشارہ کو بھی جنایات احرام میں شمار فرمایا، جوکہ شکار کا ادنیٰ سبب ہے (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، اعلاء السنن: ۶/۳۶۲) (۸)حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے ابتدائی برسوں میں محرم کیلئے ایسے شکار کا کھانا ناجائز سمجھتے تھے، جو غیر محرم نے کیا ہو، قطع نظر اس بات کے کہ وہ محرم کیلئے شکار کیاگیا ہو یا کسی اور کیلئے،لیکن بعد میں ان کی رائے تبدیل ہوگئی اور ان کا نقطہ نظر یہ بن گیا کہ اگر محرم کو پیش کرنے کی نیت سے شکار کیاگیا ہو تو محرم کیلئے اس کا کھانا جائز نہیں ہے؛ البتہ محرم کو پیش کرنے کی نیت سے شکار نہ کیا گیا ہو تو محرم کے لئے اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ اس سلسلے میں امام ابن حزم نے المحلی میں یسربن سعید رضی اللہ عنہ کی ایک روایت بھی بیان کی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ اپنی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا معمول یہ تھا کہ جب وہ حج یاعمرہ کی نیت سے احرام باندھ لیتے تھے تو راستہ میں جن منازل میں وہ قیام کرتے، وہاں ان کے لیے جنگلی جانوروں کاشکار کیا جاتا اور وہ ان کا گوشت کھالیا کرتے تھے، بعد میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے اس موضوع پر بات کی اور کہاکہ یہ جو شکارمحض ہمارے لئے کیاجاتاہے میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ کیسے جائز ہوسکتاہے، کیاہی اچھا ہوتا اگر ہم اس سلسلے کو ترک کردیتے، اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو ترک کردیا۔ (انسائیکلوپیڈیا: ۳۔ فقہِ حضرتِ عثمان رضی اللہ عنہ:۳۲، مصنف ڈاکٹر محمد رواس قلعہ جی، اردو ترجمہ الیف الدین ترابی، مطبوعہ ادارہ معارف اسلامی، منصورہ لاھور پاکستان۔ مؤطامالک:۱۳۷، مطبوعہ اشرفی بک ڈپو، دیوبند) ممکن ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کا رحجان اس حدیث کی وجہ سے تبدیل ہوگیا ہو جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت صعب بن جثامہ لیثی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شکار کا گوشت پیش کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس کو قبول نہیں فرمایا اور ارشاد فرمایا: "حالت احرام میں ہونے کی بناء پر ہم اس کو قبول نہیں کررہے ہیں" (مسلم، باب تحریم الصید الماکول البری:۱ /۳۷۹) (۹)حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نزدیک آقا کے لئے ایسی دو باندیوں سے جو آپس میں سگی بہنیں ہوں ہمبستری کرنا درست نہیں ہے؛ جیسا کہ قبیصہ بن ذؤیب سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ایسی دوبہنوں کے بارے میں سوال کیا جو کسی کی باندی ہوں کہ کیا ان کا آقا ان دونوں سے صحبت کرسکتاہے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ قرآن مجید کی ایک آیت تو ان کو حلال کرتی ہے اور ایک آیت ان کو حرام کرتی ہے، حلال کرنے والی آیت ہے "فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّتَعْدِلُواْ فَوَاحِدَۃً أَوْمَامَلَکَتْ أیْمَانُکُمْ" (النساء:۳) اور حرام کرنے والی آیت ہے "وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ" (النساء: ۲۳) پھرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا "میرا مسلک یہ ہے کہ مجھے ایسا کرنا ہرگز پسند نہیں"۔ (مؤطامالک مع أوجزالمسالک: ۰ا/۴۷۴، مطبوعہ: مرکزالشیخ ابی الحسن الندوی للبحوث، مظفر پور اعظم گڑھ، یوپی) شاید آپ رضی اللہ عنہ کے پیش نظر یہ حدیث مبارک تھی کہ "ہربادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی چراگا اس کے احکام ہیں جو شخص سرحد کے قریب جاتا ہے قریب ہے کہ وہ اس میں جاپڑے"۔ (بخاری، باب فضل من استبرأ لدینہ، حدیث نمبر:۵۰) (۱۰)اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو حق طلاق تفویض کردے یعنی اپنے آپ کو طلاق دینے کا اختیار دیدے تو اس صورت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نزدیک وہ حق طلاق کی مالک ہوجائیگی یعنی اگر وہ طلاق کو اختیار کرے تو طلاق پڑجائیگی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ۹/۵۸۱) (۱۱)اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے خلع حاصل کرلے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نزدیک اس عورت پر ایک طلاق بائن واقع ہو جائیگی لیکن اگر مرد نے ایک سے زائد طلاقوں کی صراحت کی تو پھر جتنی طلاقوں کی صراحت کی اتنی ہی واقع ہوجائینگی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ۱۰/۳۷) آپ رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کا مبدا شاید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً اور سعید بن مسیب سے موقوفاً مروی یہ روایت ہے: "اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خلع کو ایک طلاق بائن قرار دیا"۔ (اعلاء السنن: ۲۲۱۱) (۱۲)حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اذان اور اس نوعیت کی دینی خدمات پر معاوضہ لینے کو جائز سمجھتے تھے؛ چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مؤذنین کو باقاعدہ تنخواہ دیا کرتے تھے۔ (سنن بیہقی: ۱/۴۲۹، بحوالہ: انسائکلو پیڈیا:۳۔ فقہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ:۲۴) آپ رضی اللہ عنہ کا استدلال شاید ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے ڈسے ہوئے شخص پر سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا، جس سے وہ شخص اچھا ہوگیا، اس شخص نے اِن صحابی کوبطورِ اجرت چند بکریاں دیدیں، نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس اجرت کو جائز قرار دیا۔ (بخاری، باب مایعطی فی الرقیۃ علی أحیاء العرب بفاتحۃ الکتاب :۱ /۳۰۴) (۱۳)حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وضو کے ارکان میں ترتیب کو واجب سمجھتے تھے۔ (المجموع: ا/۴۸۲، بحوالہ: انسائیکلوپیڈیا: ۳۔ فقہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ: ۴۰۶) اس مسئلہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا استدلال شاید اس حدیث سے ہے جو خود آپ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ترتیب سے وضو کرکے فرمایا: "جو شخص میرے اس وضو جیسا وضو کرے؛ پھرخشوع وخضوع کے ساتھ دورکعت پڑھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں"۔ (بخاری: ۱/۲۷) (۱۴)اگرکوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دے پھر عدت کے بعد خاوندکا انتقال ہوجائے تو بیوی مرد کی وارث ہوگی یا نہیں اس بارے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یہ فیصلہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر مرد نے حالت صحت میں بیوی کو طلاق دی اور پھر عدت کے بعد مرد کا انتقال ہوا تو بیوی وارث نہیں ہوگی لیکن اگر اس نے حالتِ مرض میں طلاق دی اور عدت کے بعد مرد کا انتقال ہوا تو اس صورت میں آپ رضی اللہ عنہ عورت کو مرد کے مال میں سے حصہ دیتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ۱۰/۱۵۳) (۱۵)حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نزدیک دادی یا نانی میں سے اگر کوئی میراث کی حقدار ہورہی ہوتو اس کو ترکہ میں سے چھٹا حصہ دیا جا ئیگا، چاہے میراث کی مستحق ایک ہو یا زیادہ، زیادہ ہونے کی صورت میں چھٹا حصہ ان کے درمیان برابر تقسیم ہوگا؛ لیکن آپ رضی اللہ عنہ کے نزدیک ددی اور نانی کو وراثت میں حصہ ملنے کی شرط یہ ہے کہ جس واسطے سے یہ دونوں میت کی دادی یا نانی بن رہی ہیں وہ واسطہ زندہ نہ ہو اگر وہ واسطہ یعنی میت کا باپ یا ماں وغیرہ زندہ ہوگا تو وہ ان کو میراث سے محروم کردیگا؛ کیونکہ وہ خود رشتے میں ان دادی اور نانی کے مقابلے میں میت سے زیادہ قریب ہے، اس وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ میت کے باپ یعنی دادی کے بیٹے کی موجودگی کی صورت میں یا میت کی ماں یعنی نانی کی بیٹی کی موجودگی کی صورت میں مال وراثت میں دادی کو حصہ نہیں دیا کرتے تھے۔ (سنن دارمی: ۲/۲۷۹، مطبع دارالکتب العلمیہ، بیروت) (۱۶)اگرکوئی شخص ایسی غیر منقولہ شیٔ کو جس کا ناپنا تو لناممکن نہ ہو باقاعدہ قبضہ میں لینے سے پہلے ہی کسی دوسرے شخص کو فروخت کردے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کو جائز قرار دیتے تھے۔ (انسائیکلوپیڈیا:۲۔ فقہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ:۱۰۹) ایک حدیث میں نبی کریمﷺ نے ناپ کر یاتول کر بیچی جانے والی کھانے کی چیز کو قبضہ سے پہلے بیچنے سے منع فرمایا۔ (ابوداؤد، باب فی بیع الطعام قبل ان یستوفی: ۴۹۴۔ نسائی، باب النہی فی بیع مااشتری من الطعام بکیل حتی یستوفی: ۲/۱۹۵) ممکن ہے کہ حضرت ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے کَیل اور وزن کی قید کو علت نہی قرار دیا اور غیرمنقولہ اشیاء کو علت نہ پائے جانے کی بنیاد پر قبضہ سے پہلے بیچنے کو جائز قرار دیا ہو۔ استخراجِ مسائل کی ایک قسم،تقلیدمجتہد استخراج واستنباط مسائل کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ مجتہد کسی دوسرے مجتہد کے قول پر فتویٰ دے جیسا کہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، ہم کسی ایسے امام کو نہیں پاتے ہیں جس نے بعض احکام میں اپنے سے زیادہ علم والے کی تقلید نہ کی ہو، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی کوفہ والی زمین کے بدلہ میں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے ان کی مدینہ منورہ کی زمین یہ کہہ کر خرید فرمائی کہ میں وہ زمین بغیر دیکھے تم کو بیچ رہا ہوں، حضرت طلحہؓ نے فرمایا: میے لیے مہلت ہوگی کیونکہ میں بغیر دیکھی ہوئی چیز خرید رہا ہوں اور آپ دیکھی ہوئی خرید رہے ہیں، ان دونوں نے حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کیا تو حضرت جبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ کے خلاف فیصلہ کرتے ہوئے بیع کو جائز قرار دیا اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو بغیر دیکھی ہوئی چیز خرید نے کی بناء پر مہلت دی۔ (اعلام:۴/۱۶۲) ممکن ہے کہ اس مسئلہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے قول کو قبول کیا ہو جو ایسے ہی ایک مسئلہ میں انہوں نے فرمایا تھا۔ (اعلاء السنن: ۹/۲۳۸) (۱۷)اسی طرح اگر خریدار خریدی ہوئی چیز کے عیب کو نہیں جانتا ہے اور لاعلمی میں استعمال کرتارہتاہے تو اس سے اس کا اس چیز کو واپس کرنے کاحق ساقط نہیں ہوجاتا ہے اور اگر استعمال سے فروخت کردہ چیز میں کوئی نقص واقع ہوجاتاہے تو واپسی کی صورت میں اداکردہ قیمت میں سے نقصان کے مطابق کمی کردی جائے گی؛ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک ایسے کپڑے کو استعمال کے بعد بھی واپس کرنے کاحکم صادر فرمایا جس میں خریدار کو استعمال کے بعد نقص کا پتہ چلاتھا۔ (حوالہ سابق:۱۱۰) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت پر قیاس کیا ہوگا جس میں یہ واقعہ ذکر کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے غلام خرید کر اس سے مزدوری کروائی پھر اس غلام کے اندر عیب کا پتہ چلا تو انہوں نے وہ غلام واپس کردیا، غلام کے پہلے مولیٰ (بائع) نے اس کی کمائی کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمائی کو جرمانہ کا بدلہ قرار دیدیا۔ (ابوداؤد، باب فی من اشتری عبدا فاستعملہ ثم وجد بہ عیباً: ۴۹۵۔ ابن ماجہ، باب بیع الطعام قبل مالم یقبضہ: ۱/۱۶۱) (۱۸)اگر کسی نابینا شخص کے ہاتھوں اپنے رہبر یاکسی ایسے شخص کو جواس کے ساتھ بیٹھا ہو غلطی سے کوئی نقصان پہنچ جاتاہے تو اس سے قصاص یادیت نہیں لی جائیگی؛ چنانچہ حضرت عثمانؓ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص کسی نابینا شخص کے پاس بیٹھا ہے اور اسے اس نابینا شخص کے ہاتھ سے کو ئی گزند پہنچتاہے تو اس سے قصاص یادیت نہیں لیں گے۔ (۱۹)بیعتِ خلاف کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے ہر مزان کے قتل کا مقدمہ پیش ہوا حضرت عبید اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ مدعا علیہ تھے، اس مقدمہ میں جو فیصلہ ہوا وہ بھی درحقیقت ایک اجتہاد پر مبنی ہے یعنی مقتول کا اگر کوئی وارث نہ ہو تو حاکمِ وقت اس کا ولی ہوتا ہے؛ چونکہ ہرمزان کا کوئی وارث نہ تھا اس لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بحیثیتِ ولی کے قصاص کے بجائے دیت لینا قبول کیا اوروہ رقم بھی اپنے ذاتی مال سے دے کر بیت المال میں داخل کردی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے بعض اجتہاد سے بعض معاملات میں سہولت پیدا کردی، مثلاً دیت میں اونٹ دینے کا رواج تھا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کی قیمت بھی دینی جائز قراردی۔ (کتاب الخراج:۹۲، بحوالہ: سیرالصحابہ: ۱/۲۳۶) فقہِ عثمان کے رواں دریا میں سے بطور نمونہ مشتے از خروارے یہ چند مسائل یہاں درج کردئیے گئے جس سے عقل وخرد سے تھوڑا بھی حصہ پانے والے قاری کو یہ اندازہ لگانے اوراس بات کا یقین کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی کہ فقہ کوئی شجرِ خبیثہ نہیں بلکہ وہ شجرۂ طیبہ ہے جس کی جڑیں علم وفہم سے مالا مال، خداداد فقاہت وبصیرت سے بہرہ وہ ایک عبدِ صالح کے قلبِ صافی وذہن پارساکی زمین میں پیوست ہوتی ہیں تو اسکی شاخیں کتاب وسنت کے فلک بریں سے جاملتی ہیں علم فقہ کوئی چوتھی صدی کی ایجاد نہیں بلکہ حاملینِ قرآن، محافظینِ اسلام، قرآن وحدیث کے مخاطبینِ اولین، حضرات انصار مہاجرین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی یادگار ہے، جوشخص فقہ اسلامی کا انکار کرتاہے وہ گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پاک سیرت اور اسلام کے تئیں ان کے مخلصانہ جذبات کو عیب لگارہاہے اور اسلام کو ایک ایسے فرسودہ نظام کے طور پر پیش کررہاہے جو بدلتے حالات اور وقوع پذیر تغیرات کے سامنے انسانیت کا ساتھ دینے سے عاجز وقاصر ہے اور اس کی نظر میں امتِ محمدیہ ایک ایسی امت ہے جو عقائد وعبادات کے علاوہ اپنی زندگی کے کسی شعبہ میں احکاماتِ الہٰی کا مستند ذخیرہ رکھتے ہوئے بھی اس پر عمل نہیں کر سکتی کیونکہ دنیا اب چودہ سوسال آگے جاچکی ہے۔