انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فن حدیث اور تاریخ میں فرق دنیا کی اسی تاریخ کے ایک عظیم الشان، حیرت انگیز اور انقلابی حصہ کا نام سچ پوچھئے توحدیث ہے، مطلب یہ ہے کہ جن انقلابات وحوادث سے گزرکرنسلِ انسانی موجودہ حالت تک پہنچی ہے، ان میں ایک ایک واقعہ جس نے کسی خاص شعبہ حیات ہی میں نہیں؛ بلکہ مذہبی، سیاسی، معاشرتی، اخلاقی تمام شعبوں کا رخ پلٹ دیا، جس سے زمین کا کوئی خاص حصہ نہیں بلکہ بلامبالغہ مشرق ومغرب دونوں متاثر ہوئے؛ دراصل تاریخ جیسا کہ ایک مشہور مسلم الثبوت مؤرخ کا بیان ہے کہ: کسی زمانے کے حالات جب قلمبند کئے جاتے ہیں تویہ طریقہ کار اپنایا جاتا ہے کہ ہرقسم کی بازاری افواہیں قلمبند کرلی جاتی ہیں، جن کے راویوں کا کوئی نام ونشان نہیں ہوتا، ان افواہوں سے وہ واقعات منتخب کیے جاتے ہیں جوقرائن وقیاسات کے مطابق ہوتے ہیں، تھوڑے زمانے کے بعد یعنی جب یہ کتابی شکل اختیار کرجاتے ہیں توایک دلچسپ تاریخ بن جاتی ہے۔ چنانچہ اس وقت ہمارے پاس ماضی کی تاریخوں کا جوذخیرہ خواہ وہ روم ہویایونان، چین ہویاایران ان قدیم اقوام کی تاریخ جن ذرائع سے مرتب ہوتی ہے، اس میں بہت کم کوئی واقعہ ایسا مل سکتا ہے، جس کوخود اس کے شاھدوں نے مرتب کیا ہو، اتفاقاً اگراس بات کا پتہ چل بھی جائے تواس کا پتہ چلانا قطعاً دشوار؛ بلکہ شاید ناممکن ہے کہ ضبط واتقان، سیرت وکرکٹر کے لحاظ سے ان کا کیا درجہ تھا، اس حقیقت کوپیش کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ موجودہ تاریخی ذخیرے بالکلیہ غیرمعتبر اور ناقابل تسلیم ہیں؛ بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان کمزوریوں کے باوجود آج جب علمی دنیا میں فن تاریخ ہرقسم کے احترام واعزاز کا مستحق ہے توحدیث جوصرف مسلمانوں ہی کی تاریخ نہیں ہے؛ بلکہ انسانیت کے ایک عظیم انقلابی عہد آفریں دور کا ایک ایسا مکمل تاریخی مرقع ہے جسے ٹھیک حقیقی اور اصلی شکل وصورت؛ بلکہ ہرخط وخال کی حفاظت میں لاکھوں ہی نہیں؛ بلکہ کروڑوں انسانوں کی وہ ساری کوششیں اور تدبیریں صرف ہوئی ہیں جوکسی واقعے کے متعلق آدمی کا دماغ سوچ سکتا ہے۔ تاریخی ذخیروں سے حدیث کے امتیازات (۱)اس کوپہلا جوامتیاز حاصل ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت تاریخ کے جوعام ذخیرے ہیں عموماً ان کا تعلق کسی قوم کی حکومت، کسی عظیم الشان جنگ؛ الغرض اسی قسم کی پراگندہ گوناگوں اور منتشر چیزوں سے ہوتا ہے جن کا احاطہ ممکن نہیں، بخلاف اس کے حدیث اس تاریخ کا نام ہے جس کا تعلق براہِ راست ایک خاص شخصی وجود، یعنی سرورِکائناتﷺ کی ذاتِ اقدس سے ہے، ایک قوم، ایک ملک، ایک حکومت، ایک جنگ کے تمام اطراف وجوانب کوصحیح طور سے سمیٹ کربیان کرنا، ایک طرف اور ایک واحد شخص کی زندگی کے واقعات کو بیان کرنا ہے، خوداندازہ کیا جاسکتا ہے، احاطہ وتدوین کے اعتبار سے دونوں کی آسانی ودشواری میں کیا کوئی نسبت ہے، پہلی صورت میں کوتاہیوں، غلط فہمیوں کے جتنے قوی اندیشے ہیں، یقیناً دوسری صورت میں صحت وواقعیت کی اسی قدر عقلاً توقع کی جاسکتی ہے۔ (۲)دوسرا امتیاز جوپہلے سے بہت زیادہ اہم ہے وہ محمدرسول اللہﷺ اور ان کے مورخوں یعنی صحابہ کرامؓ کا باہم تعلق ہے؛ بلاشبہ اس وقت ہمارے سامنے مختلف اقوام وممالک، سلاطین اور حکومتوں کی تاریخیں ہیں؛ لیکن جن مورخوں کے ذریعہ سے یہ تاریخیں ہم تک پہنچی ہیں کہاں ان میں کسی تاریخ کااپنے مؤرخ یامؤرخین سے وہ تعلق تھا جوحضوراکرمﷺ کوصحابہ کرام کے ساتھ تھا؟ سب سے پہلی بات تویہ ہے مشکل ہی سے آج کوئی ایسا تاریخی حصہ ہمارے پاس نکل سکتا ہے جس کے مؤرخین خود ان واقعات کے عینی شاھد ہوں؛ بلکہ جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جاچکا ہے کہ عموماً ان تاریخوں کی تدوین یوں ہوتی ہے کہ ابتداء میں مبہم، مجہول الحال افواہوں کی صورت میں واقعات اِدھر اُدھر بکھرے رہے؛ پھرجب ان میں سے کسی کوشوق ہوا تواس نے ان ہی افواہوں کوقلمبند کرنا شروع کیا ہے، پھرخود اس مؤرخ ہی نے یااس کے بعد والوں نے قرائن وقیاسات سے جہاں تک ممکن ہوا جس حصہ کوچاہا باقی رکھا، جسے چاہا حذف کردیا؛ پھرجوں جوں ان قلمبند شدہ واقعات پرزمانہ گذرتا گیا اوراق میں زیادہ بوسیدگی پیدا ہوئی، کیڑوں کی خوراک سے بچ کر جوحصہ باقی رہا پچھلی نسلوں کے لیے وہی تاریخی وثیقہ بن گیا؛ اسی لیے آج مطبوعہ کتابوں سے زیادہ بھروسہ قلمی کتابوں پرکیا جاتا ہے اور سنگی، برنجی یاآہنی تختیوں کا کوئی ذخیرہ اگرکسی مورخ کومل گیا تووہی چیز جوہمارے جیسے انسانوں نے کسی زمانہ میں لکھ کر زمین میں گاڑی تھی؛ بلکہ ہم تواپنے معاصرین کوتوایک حد تک جانتے بھی ہیں؛ لیکن ان کے لکھنے والوں کا توکچھ پتہ نہیں ہوتا۔ مگروہ معصوم فرشتوں کے بیان کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں؛ لیکن تمام تاریخی وثیقوں کی یہ حالت نہیں خصوصاً بعض مسلمان وارث ہوں گے باضابطہ شاہی وسائل وذرائع کے ذریعہ سے مؤرخین کوواقعات اور اس کے جزئیات کے فراہم کرنے میں ہرطرح کی مددبہم پہونچاتی تھی اور تاریخ کے لکھنے میں ان کی ہرطرح سے مدد کی تھی ان کی نوعیت قدیم تاریخوں سے جداگانہ ہے، اس طرح مسلمان بادشاہوں کی اسی راہ کومغربی قومیں اختیار کررہی ہیں؛ لیکن کچھ بھی ہو کسی کی تاریخ ہو ان کے مؤرخوں کوان واقعات سے یاصاحب واقعات سے قطعاً وہ تعلق نہیں تھا اور نہ ہوسکتا ہے، جوصحابہ کرام کونبی کریمﷺ کے ساتھ تھا، نہ صرف انہوں نے آپ کے ہاتھ پراسلام کی بیعت کی تھی، آپ کی نبوت پروہ ایمان لائے تھے،آپ سے ان کووہ تعلق تھا جوایک امتی کواپنے پیغمبر سے ہونا چاہیے؛ بلکہ اس سے بڑھ کر جیسا کہ واقعات سے پتہ چلتا ہے وہ اپنے ماں باپ، بیوی، بچوں؛ بلکہ اپنی جانوں سے بھی زیادہ حضورِاکرمﷺ اور آپ کی زندگی کوعزیز رکھتے تھے، وہ سب کچھ آپ پرقربان کرنے کے لیے تیار تھے؛ گویا ایک قسم کے عشق وسرمستی کے نشہ میں مخمور تھے؛ یقیناً یہ ایسا امتیاز ہے جو کسی تاریخی واقعہ کواپنے مؤرخین کے ساتھ حاصل نہیں، آخر دنیا کی ایسی کونسی تاریخ ہے جس کے بیان کرنے والے مؤرخین اس تاریخ سے ایسا والہانہ تعلق رکھتے ہیں کہ بیان کرتے جاتے ہوں اور روتے بھی جاتے ہوں، کانپتےبھی جاتے ہوں، عبداللہ بن مسعودؓ کے متعلق ان کے دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ وہ حضوراکرمﷺ کی طرف منسوب کرکے بہت کم احادیث بیان کرتے؛ لیکن اگرکبھی زبان پرحضورِاکرمﷺ کا نام آگیا، راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد: فَرُعِدَ حَتَّى رُعِدَتْ ثِيَابُهُ تَنْفُخُ أَدْوَاجُہٗ اِغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ۔ (مسنداحمد:۷/۱۱۵، مؤسسۃ الرسالۃ بیرو، الطبعۃ الثانیۃ) ترجمہ:کانپنے لگتے اور ان کے کپڑوں میں تھرتھری پیدا ہوجاتی، گردن کی رگیں پھول جاتی تھیں، آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتیں۔ حضرت ابوذرؓ بھی کوئی حدیث بیان کرنا چاہتے مگر منہ سے اوصانی بی ابوالقاسم، اوصانی خلیلی کے الفاظ نکلتے اور چیخ مارکر بیہوش ہوجاتے تھے؛ اسی قسم کے واقعات حضرت ابوھریرہ کے ذکر میں بھی ملتے ہیں، اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جس تاریخ کواس کے مورخوں میں محبوبیت کا یہ مقام حاصل ہو وہ کس قدر محفوظ ومامون ہوسکتی ہے، صاحب تاریخ رسول اکرمﷺ کے ساتھ ان کے والہانہ تعلق، جانثاری وفداکاری کی مثال اس سے بڑھ کرکیا ہوسکتی ہے، حضور اکرمﷺ کے ساتھ ان جنونی تعلق ووارفتگی وفدائیت کی نظیر نہ پہلے دیکھی گئی اور نہ اس کے بعد دیکھی جاسکتی ہے، عروہ بن مسعود ثقفی جواس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش کوصحابہ کرامؓ کے حضورِاکرمﷺ کے ساتھ اس نشۂ محبت کی خبراپنے کفر کے زمانہ میں یوں دیتے ہیں: أَيْ قَوْمِ وَاللَّهِ لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَى الْمُلُوكِ وَوَفَدْتُ عَلَى قَيْصَرَ وَكِسْرَى وَالنَّجَاشِيِّ وَاللَّهِ إِنْ رَأَيْتُ مَلِكًا قَطُّ يُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَايُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ ﷺ مُحَمَّدًا وَاللَّهِ إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَةً إِلَّاوَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَدَلَكَ بِهَاوَجْهَهُ وَجِلْدَهُ وَإِذَاأَمَرَهُمْ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ وَإِذَاتَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ وَإِذَاتَكَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ وَمَايُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَهُ۔ (بخاری، كِتَاب الشُّرُوطِ،بَاب الشُّرُوطِ فِي الْجِهَادِ وَالْمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الْحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ،حدیث نمبر:۲۵۲۹، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:لوگو! خدا کی قسم! مجھے بادشاہوں کے دربار میں بھی بازیابی کا موقع ملا ہے، قیصر (روم) کسریٰ (ایران) نجاشی (ابی سینا) کے سامنے حاضر ہوا ہوں، قسم خدا کی! میں نے کسی بادشاہ کونہیں دیکھا جس کی لوگ اتنی عظمت کرتے ہوں جتنی محمد کے ساتھی محمد کی کرتے ہیں؛ قسم خدا کی! جب بلغم تھوکتے ہیں تونہیں گرتا ہے وہ لیکن ان کے ساتھیوں میں سے کسی آدمی کے ہاتھ میں؛ پھروہ اپنے چہرہ اور اپنے بدن پراسے مل لیتا ہے (محمد) جب کسی بات کا انہیں حکم دیتے ہیں، اس کی تعمیل کی طرف وہ جھپٹ پڑتے ہیں، جب محمدوضو کرتے ہیں تواس وقت ان کے وضو کے پانی پرآپس میں الجھ پڑتے ہیں، جب محمدبات کرتے ہیں توان کی آوازیں پست ہوجاتی ہیں، محمدکونگاہ بھرکر ان کی عظمت کی وجہ سے وہ نہیں دیکھ سکتے۔ (۳)تیسری خصوصیت اس تاریخ اور اس کے راویوں کی یہ ہے کہ علاوہ مذکورہ بالا تعلقات کے ان براہِ راست مؤرخوں یاچشم دیدراویوں اور گواہوں نے حضوراکرمﷺ کے دستِ مبارک پربیعت ہی اس بات پرکی تھی کہ تاریخ کے اس عجیب وغریب واقعہ کے ہرہرجزو، ایک ایک خط وخال کے زندہ نقوش اپنے اندر پیدا کریں گے؛ انہوں نے جس قرآن کو خدا کی شریعت اور قدرت کا قانون یقین کرکے مانا تھا اس میں بار بار مطالبہ کیا گیا تھا کہ تم میں سے ہرایک کی زندگی کا نصب العین صرف یہی ہونا چاہیے کہ جوکچھ محمدرسول اللہﷺ فرماتے ہیں اسے سنو، سن کریاد رکھو اوران پرایمان لاؤ، یقین کرو، محمدرسول اللہﷺ جوکچھ کرتے ہیں ان کی ہرہرادا پرنگاہ رکھو اور ٹھیک من وعن جس طرح ان کوجوکچھ کرتے ہوئے دیکھتے ہو تم بھی اس کام کواسی طرح انجام دینے کی کوشش کرو: وَمَاآَتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَانَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا۔ (الحشر:۷) ترجمہ:رسول نے جوکچھ تمھیں دیا ہے اسے پکڑے رہو اور جس سے انہوں نے روکا ہے اس سے رک جاؤ۔ وَمَاأَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّالِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ۔ (النساء:۶۴) ترجمہ:ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا؛ لیکن صرف اس لیے کہ اس کی پیروی اور اطاعت خدائی حکم سے کی جائے۔ قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ۔ (آل عمران:۳۱) ترجمہ:کہدو! اگرتم اللہ کوچاہتے ہوتومیری پیروی کرو اللہ بھی تمھیں چاہنے لگے گا۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ۔ (الاحزاب:۲۱) ترجمہ:تمہارے لیے اللہ کے رسول میں اچھا نمونہ ہے۔ اسی کے ساتھ صرف رسول اللہﷺ کے اقوال واعمال کی اطاعت واتباع ہی ان بزرگوں کے لیے ضروری نہ تھی؛ بلکہ جس قرآن اور جس فرمان نے ان پریہ فریضہ عائد کیا تھا اسی نے ان کواس کا بھی ذمہ دار بنایا تھا کہ حضوراکرمﷺ کو جوکچھ کہتے ہوئے انہوں نے سنا ہے اور جوکچھ انہوں نے دیکھا ہے وہ دوسروں تک مسلسل پہنچاتے چلے جائیں ہرحاضر،غائب اورہرپہلا پچھلوں کوان کی طرف بلاتا جائے: وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ۔ (آل عمران:۱۰۴) ترجمہ:چاہیے کہ تم میں سے ایک گروہ ہو، جونیکی اور بھلائی کی طرف لوگوں کوبلائے؛ اچھی باتوں کا حکم دے اور بری باتوں سے روکے۔ انہی قرآنی آیتوں ہی کی یہ تفسیر تھی جومختلف پیرایوں میں صحابہ کرام کومخاطب کرے حضوراکرمﷺ نے ارشاد فرمایا منی کا میدان ہے، خیف کی مسجد ہے، ایک لاکھ سے اوپرحضوراکرمﷺ پرایمان لانے والوں کا مجمع ہے، سب کومخاطب کرکے فرمایا جاتا ہے: نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاهَا ثُمَّ أَدَّاهَا إِلَى مَنْ لَمْ يَسْمَعْهَا۔ (مسنداحمدبن حنبل، حَدِيثُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ،حدیث نمبر:۱۶۷۸۴، شاملہ، الناشر:مؤسسۃ قرطبۃ، القاھرۃ) ترجمہ:تروتازہ رکھے اللہ اس بندے کوجس نے میری بات سنی؛ پھراسے یادرکھا اور جس نے نہیں سنا ہے اس تک انہیں پہنچایا۔ یہی منی کا میدان ہے، حجۃ الوداع کے تاریخی خطبہ میں اعلان فرمایا جاتا ہے: تَرَكْتُ فيكُمْ شَيْئَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُما كِتابَ الله وسُنَّتي وَلَنْ يَتَفَرَّقا حَتَّى يَرِدا عَلَيَّ الحَوْضَ۔ (مستدرک حاکم، کتاب العلم، حدیث نمبر:۳۱۹، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، الطبعۃ الاولی) ترجمہ:میں تم میں دوچیزیں چھوڑتا ہوں جن کے بعد تم پھرگمراہ نہیں ہوسکتے (ایک تو) اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت، یہ دونوں باہم ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے جب تک کہ حوضِ (کوثر) پرمیرے سامنے ہوجائیں۔ پھراس خطبہ کے اختتام پرفرمایا: أَلَالِيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ۔ (بخاری،كِتَاب الْمَغَازِي،بَاب حَجَّةِ الْوَدَاعِ،حدیث نمبر:۴۰۵۴،شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:چاہئے کہ جوحاضر ہے وہ غائب کو پہنچائے۔ اسی طرح ایک موقع سے صحابہ رضی اللہ عنہم کومخاطب کرکے بطورِ پیش گوئی آپ نے فرمایا: تَسْمَعُونَ، وَيُسْمَعُ مِنْكُمْ، وَيُسْمَعُ مِمَّنْ سَمِعَ مِنْكُمْ۔ (ابوداؤد،فضل نشرالعلم،حدیث نمبر:۳۱۷۴) ترجمہ:تم مجھ سے سن رہے ہو، تم سے بھی سنا جائیگا اور جن لوگوں نے تم سے سنا ہے ان سے بھی لوگ سنیں گے۔ نہ صرف آپﷺ عام مجامع میں یہ اعلان کرتے تھے؛ بلکہ ملک کے مختلف اطراف سے وقتا فوقتا جووفود دربارِ نبوت میں حاضر ہواکرتے تھے، عموماً ان کوایسی جگہ ٹھہرایا جاتا تھا جہاں سے اس واقعہ کے معائنہ اور مشاہدہ کا ان کوکافی موقع مل سکتا ہو جس کے وہ مؤرخ بنائے جاتے تھے؛ پھرجوکچھ سنانا اور دکھانا مقصود ہوتا وہ سنایا اور دکھایا جاتا تھا، آخر میں رخصت کرتے ہوئے حکم دیا جاتا؛ جیسا کہ بخاری میں ہے: احْفَظُوهُنَّ وَأَخْبِرُوا بِهِنَّ مَنْ وَرَاءَكُمْ۔ (بخاری، كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب أَدَاءُ الْخُمُسِ مِنْ الْإِيمَانِ،حدیث نمبر:۵۱، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:ان باتوں کویادرکھو اور جولوگ تمہارے پیچھے ہیں انہیں اس سے مطلع کرتے رہنا۔ یہ حکم صرف استحبابی نہیں تھا؛ بلکہ قرآن کی اس آیت: إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَاأَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَابَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ۔ (البقرۃ:۱۵۹) ترجمہ:جولوگ چھپاتے ہیں اس چیز کوجسے ہم نے اتارا ہے اور جوکھلی کھلی باتوں اور سوجھ بوجھ (ہدایت) کی باتوں پر مشتمل ہے اور اس کے بعد چھپاتے ہیں جب کہ انسانوں کے لیے کتاب میں ہم نے اسے بیان کردیا؛ یہی لوگ ہیں جن پرخدا بھی لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں۔ قرآن کی اس آیت کی بناء پرصحابہ کرام جس تاریخ کی نشرواشاعت کے ذمہ دار ٹھہرائے گئے تھے اس کا چھپانا گناہ خیال کرتے، خود حضوراکرمﷺ سے یہ حدیث بھی روایت کرتے تھے: مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهُ ثُمَّ كَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ۔ (ترمذی،كِتَاب الْعِلْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي كِتْمَانِ الْعِلْمِ،حدیث نمبر:۲۵۷۳، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جس کسی سے علم کی کوئی بات پوچھی جائے اور وہ اسے چھپائے توقیامت کے دن آگ کی لگام اسے پہنائی جائے گی۔ بعض صحابہ سے یہ مروی ہے کہ موت کے وقت بھی محض اس خیال سے کہ علم کے چھپانے کا الزام ان پر نہ رہ جاے، حدیث بیان کرتے جاتے تھے۔ ان تمام امور کے ساتھ اس کوبھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ جس ذاتِ گرامی کے ہرقول کووہ خدا کی بات اور خدا کا حکم سمجھتے تھے، اسی نے باربار بکثرت ان کی فطرت میں مشہور حدیث وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ (جو مجھ پر قصداً جھوٹ باندھے گا چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ آگ میں تیار کرلے) کا یہ تہدیدی خوف ان پراس قدرطاری تھا کہ جس قدر صحابیوں سے یہ روایت نقل کی گئی ہے بہت کم حدیثیں اس قدر کثیرتعداد صحابہ سے مروی ہوں گی، جس قسم کے ایمان وایقان سے وہ معمور تھے وہ اس کے ساتھ اس قسم کی غلط بیانی اور دروغ گوئی سے کیسے کام لے سکتے تھے، جب وہ یہ جانتے تھے کہ حضوراکرمﷺ کی طرف کسی چیز کی نسبت درحقیقت خدا کی جانب اس چیز کی نسبت کرنا ہے؛ یہی وجہ تھی کہ بعض صحابہ جب یہ حدیث بیان کرنے کے لیے بیٹھتے تھے تواس سے پہلے وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ والی حدیث ضرور پڑھ لیتے؛ تاکہ اپنی نازک تاریخی ذمہ داری کا احساس انھیں تازہ ہوجائے، ذخیرۂ حدیث کے سب سے بڑے راوی حضرت ابوھریرہؓ کا یہ دوامی معمول تھا کہ : قال رسول الله الصادق المصدوق أبوالقاسم صلى الله عليه وسلم : من كذب علي متعمداً فليتبوأ مقعده من النار۔ (الاصابہ، حرف الیاء، القسم لأول:۳/۴۲۱، شاملہ، موقع الوراق) ترجمہ:اپنی حدیث جس وقت بیان کرنی شروع کرتے توکہتے: فرمایا رسولِ صادق ومصدوق ابوالقاسمﷺ نے جس نے مجھ پرقصداً جھوٹ باندھا چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ آگ میں تیار کرے۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ آپﷺ جوکچھ صحابہ کوسناتے یاکرتے دکھاتے تھے اس کے متعلق صرف یہ حکم نہ تھاکہ تم بھی ان کویاد رکھنا یاکرنا؛ بلکہ اس کی باضابطہ نگرانی فرماتے تھے کہ اس حکم کی کس حد تک تعمیل کی جاتی ہے، اس تعلق سے حضوراکرمﷺ کی نگرانی کا کیا حال تھا، اس کا اندازہ آپ کواس سے ہوسکتا ہے کہ ایک معمولی بات یعنی ایک صحابی کویہ بتاتے ہوئے کہ جب سونے لگوتویہ دعا پڑھ کر سویا کرو، حضوراکرمﷺ نے خود سے بتانے کے بعد فرمایا: اچھا میں نے کہا، تم اسے دہراؤ، صحابی نے آخری فقرہ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ (ایمان لایا میں اس کتاب پرجو تونے اتاری اور اس نبی پر جسے تونے بھیجا) میں نَبِيِّكَ کے لفظ کو وَرَسُولِكَ کے لفظ سے بدل دیا۔ (بخاری،كِتَاب الْوُضُوءِ،بَاب فَضْلِ مَنْ بَاتَ عَلَى الْوُضُوءِ ،حدیث نمبر:۲۳۹، شاملہ، موقع الإسلام) تقریباً ہم معنی الفاظ ہیں؛ لیکن حضورﷺ نے ان کو وہی الفاظ کہنے کی تلقین فرمائی جوآپ نے کہا تھا؛ حالانکہ سونے کی دعا کی حیثیت ان شرعی حقائق وقوانین کی نہیں جوفرائض وواجبات کے ذیل میں آتے ہوں؛ لیکن ایک ایک لفظ کے بارے میں حضوراکرمﷺ کی یہ نگرانی تھی۔ حضوراکرمﷺ کی یہ دوامی عادات مبارکہ تھی کہ: أَنَّهُ كَانَ إِذَاتَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا۔ (بخاری،كِتَاب الْعِلْمِ،بَاب مَنْ أَعَادَ الْحَدِيثَ ثَلَاثًا لِيُفْهَمَ عَنْهُ،حدیث نمبر:۹۳، شاملہ، موقع الإسلام) جب حضورﷺ کوئی بات کرتے تواس کوتین دفعہ دہراتے۔ غالباً یہ اسی وجہ سے فرماتے تھے کہ الفاظ کے سننے میں کسی طرح کی کوئی کمی نہ ہو، آپ نے اپنے افعال کی جونگہبانی کی ہے اس حوالے سے حدیث مستی الصلوۃ کافی مشہور ہے کہ ایک صاحب نماز پڑھ رہے تھے نماز کے تمام ارکان یعنی قیام رکوع وسجود میں کوئی کمی نہیں کی تھی، صرف ذراعجلت اور جلد بازی سے کام لے رہے تھے؛ مگرجب نماز سے فارغ ہوئے تووہ یہ سن رہے تھے کہ حضوراکرمﷺ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ (پھرنماز پڑھ، تم نے نماز نہیں پڑھی) ارشاد فرمارہے ہیں؛ انھوں نے نماز دہرائی؛ پھربھی اس میں مطلوبہ طمانیت وسکون نہیں پایا جاتا، جس سے: صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِى أُصَلِّى۔ (سنن دارِقطنی، کتاب الصلاة،باب الاِجْتِهَادِ فِى الْقِبْلَةِ وَجَوَازِ التَّحَرِّى فِى ذَلِكَ،حدیث نمبر:۱۰۷۹، شاملہ،موقع وزارة الأوقاف المصرية) ترجمہ:ٹھیک اس طرح نماز پڑھو جس طرح نماز پڑھتے مجھے دیکھتے ہو۔ کے حکم کی تعمیل ہوئی؛ الغرض تیسری مرتبہ کے بعد انھوں نے پوری طمانیت وسکون کے ساتھ نماز ادا کی۔ (بخاری، كِتَاب الْأَذَانِ،بَاب وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا فِي الْحَضَرِ،، حدیث نمبر:۷۱۵،شاملہ، موقع الإسلام) آپﷺ نے اپنی حیات کی ہرہرخبر کی حفاظت کے لیے اپنے مورخین کی یوں نگرانی کی تھی، آپ نے ان کے ہرمعاملہ میں رہنمائی ورہبری کی، کیا دنیا کی کوئی تاریخ بھی موجود ہے جس نے اپنے مورخین کی اور راویوں کے بیان وادا کی خودنگرانی کی ہو اور اس قدر سخت نگرانی کی ہو۔ حدیث کے ابتدائی راویوں کی تعداد حدیث کے ان ابتدائی راویوں، چشم دیدگواہوں اور عینی شاھدوں کی تعداد کیا تھی؟ اس سلسلہ روایت کے بعد کے کڑیوں کی بات نہیں؛ بلکہ اس پہلے حلقے یعنی ان لوگوں کی تعداد جوخود اس واقعہ میں شریک تھے، انہوں نے اس واقعہ کودیکھا، صرف دیکھا ہی نہیں؛ بلکہ ایک امتی جس نظر سے اپنے پیغمبر کودیکھتا ہے وہ دیکھنے کے بھی ذمہ دار تھے اور بیان کرنے کے بھی، علی بن ابی زرعہ جوفن رجال کے بڑے مشہور ائمہ میں سے ہیں، ان سے یہی سوال پوچھا گیا توانہوں نے فرمایا: توفي النبي صلى الله عليه و سلم ومن رآه وسمع منه زيادة على مائة ألف إنسان من رجل أوامرأة ولك قد روى عنه سماعا أورؤية۔ (فتح المغیث،معرفة الصحابة:۳/۲۲۱، شاملہ،الناشر:دارالكتب العلمية،لبنان، الطبعۃ الاولی) ترجمہ:حضوراکرمﷺ کی وفات ہوئی، اس وقت ان لوگوں کی تعداد جنہوں نے حضور کودیکھا اور آپ سے سنا تھا ایک لاکھ سے زیادہ تھی، ان میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی، سب حضور سے سن کراور دیکھ کرروایت کرتے تھے۔ یہ مجموعی صحابہ کی تعداد نہیں، ان صحابہ کی تعداد ہے جنھوں نے حضوراکرمﷺ کودیکھا اور دیکھنے کے بعد آپ کے متعلق کوئی روایت کی، ایک طرف آپ کے سامنے تاریخ کا وہ ذخیرہ ہے جس کے ابتدائی راویوں کی تعداد اس قدر کم ہے کہ دس بارہ سے آگے بمشکل تجاوز کرسکتی ہے، بیچاری ایک تاریخ کیا بڑے بڑے مذہبی مستدلات جن کے بھروسہ پرآج کروڑہا کروڑ انسان ایمان رکھتے ہیں، زیادہ تران کی بھی یہی حالت ہے، خیال توکیجئے! کہاں ایک لوقا اور ایک مرقش (مختلف انجیلوں کے مختلف ابتدائی راویوں کے نام) اور ایک سنجے گاڑی بان (سنجے اس گاڑی بان کا نام ہے جوہندؤوں کی مشہور کتاب گیتا کا سری کرشن سے تنہا راوی ہے، محض اس کی روایت کی بنیاد پرہندو گیت کوایک آسمانی کتاب سمجھتے ہیں) کا بیان اور کہاں یہ ایک لاکھ سے اوپر چشم دیدگواہوں کی شہادتیں۔ احادیثِ رسول کومحفوظ کرنے میں صحابہ کا اہتمام کہاں تک تاریخ رسول کی وثاقت اور اس کے ابتدائی راویوں کے اس کی حفاظت وصیانت کے تعلق سے ان کی تگ ودو کوبیان کیا جائے، اس تاریخ کی حفاظت کی لگن وجستجو کا یہ حال تھا کہ وہ اگراپنے مختلف مشاغل کی وجہ سے حاضر مجلس رسول نہیں ہوسکتے تھے توانہوں نے آپس میں باری مقرر کرلی تھی، حاضر باش ساتھی غائب رفیق کومجلسِ رسول کے ہرقول وعمل کومن وعن سنادیتا؛ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: كُنْتُ أَنَاوَجَارٌ لِي مِنْ الْأَنْصَارِ فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ وَهِيَ مِنْ عَوَالِي الْمَدِينَةِ وَكُنَّانَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا فَإِذَانَزَلْتُ جِئْتُهُ بِخَبَرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مِنْ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ وَإِذَانَزَلَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ۔ (بخاری، كِتَاب الْعِلْمِ،بَاب التَّنَاوُبِ فِي الْعِلْمِ،حدیث نمبر:۸۷، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:میں اور میرا ایک انصاری پڑوسی، ہم دونوں امیہ بن زیدوالوں کی بستی میں رہتے تھے جومدینہ کے عوالی کی بستیوں میں سے ہے، ہم دونوں حضوراکرمﷺ کی خدمت میں باری باری حاضر ہوتے تھے، ایک دن وہ حاضر ہوتے، ایک دن میں حاضری دیتا، میں جس دن حاضر ہوتا اس دن کے حالات اور خبریں وحی وغیرہ ان کوسناتا اور جب وہ حاضر ہوتے وہ بھی یہی کرتے۔ بلکہ بعض نے اپنے آپ کودرِدولتِ اقدس پرڈال دیا تھا، ان کی صبح وشام اور رات ودن کی مشغولیت نبی کریمﷺ کے زبانی اس تاریخی ذخیرے کوسن کر اسکومحفوظ کرنا تھا، انھوں نے مسجد نبوی میں قائم صفہ نامی مدرسہ میں باضابطہ داخلہ لیا تھا، ان کے قیام و طعام کا نظم نبی کریمﷺ یامدینہ کے خوش باش لوگ کرتے، اس تاریخی ذخیرے کے سب سے بڑے راوی حضرت ابوھریرہؓ اسی مدرسہ صفہ کے فارغ تھے، وہ رسول اللہﷺ کے ساتھ اپنی ملازمت اور رفاقت کویوں بیان کرتے ہیں: إِنَّكُمْ تَزْعُمُونَ أَنَّ أَبَاهُرَيْرَةَ يُكْثِرُ الْحَدِيثَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهُ الْمَوْعِدُ إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مِسْكِينًا أَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مِلْءِ بَطْنِي۔ (بخاری، كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ،بَاب الْحُجَّةِ عَلَى مَنْ قَالَ إِنَّ أَحْكَامَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۶۸۰۷، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:تم لوگ خیال کرتے ہو کہ ابوھریرہ رسول اللہؐ سے زیادہ حدیثیں بیان کرتا ہے؛ مگرقسم ہے خدا کی میں ایک غریب مسکین آدمی تھا، رسول اللہﷺ کے پاس صرف پیٹ پرپڑا رہتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ جوصحابہ میں صاحب النعلین والوسارق کے نام سے موسوم تھے اور حضرت انسؓ جو خادم رسول کے نام سے جانے جاتے تھے؛ انہوں نے بھی حضور کی خدمت ورفاقت کواپنے لیے سرمایۂ حیات سمجھا؛ بلکہ یہ دونوں ابتدائی دیکھنے والوں کے لیے گھر کے فرد نظر آتے تھے، یہ رفاقت اپنی تشنگیٔ علم کوبجھانے کےلیے تھی۔ حدیثی ذخیرہ کی حفاظت کے لیے صحابہ کے اسفار ان لوگوں نے اسی پراکتفا نہیں کیا؛ بلکہ ان کے شوقِ علم کا یہ حال تھا کہ اگرکوئی حدیث کسی ایک صحابی کے پاس ہوتی جودوردراز کے علاقہ میں پناہ گزیں ہوجاتے توان سے حدیث معلوم کرنے کے لیے مستقل اسفار سے بھی نہیں چوکتے؛ یہاں پراس حوالے سے صرف ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے: یہ واقعہ حضرت ابوایوب انصاریؓ مدفون قسطنطنیہ کا ہے کہ انہوں نے آنحضرتﷺ سے براہِ راست ایک حدیث سنی تھی، ان کو کچھ شک ہوگیا، ان کے ساتھ اس حدیث کے سننے کے وقت عقبہ بن عاصمؓ بھی تھے جوملک مصر میں قیام پذیر ہوچکے تھے؛ الغرض اس شک وارتیاب کودورکرنے کے لیے مصر کا سفر کرگئے اور ان سے حدیث کی دریافت کی توانہوں نے یہ حدیث بتائی: وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔ (مسنداحمدبن حنبل، حديث عقبة بن عمار الجهني عن النبيﷺ ،حدیث نمبر:۱۷۴۲۹، صفحہ نمبر:۴/۱۵۳، شاملہ،الناشر:مؤسسة قرطبة،القاهرة) حضرت ابوایوب نے جب ان سے یہ حدیث سن لی توفوراً وہاں سے روانہ ہوگئے: فَأَتَى أَبُوأَيُّوبَ رَاحِلَتَهُ فَرَكِبَهَا وَانْصَرَفَ إِلَى الْمَدِينَةِ وَمَاحَل رَحْلَهُ۔ (مصنف عبدالرزاق، باب سترالمسلم، حدیث نمبر:۸۹۳۶، المکتب الاسلامی، بیروت، الطبعۃ الثانیۃ) ترجمہ:حضرت ابوایوب حدیث سنتے ہی اپنی سواری کی طرف سوار ہوئے اور مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے، آپ نے مصر میں اپنا کجاوا بھی نہیں کھولا۔ یہ توصحابہ کا اس حوالے سے معمول تھا تابعین میں سعید ابن المسیبؒ، مسروق وغیرہ کا بھی شوقِ حدیث میں طویل اسفارکرنے کا ذکر ہے، حضرت سعید بن المسیبؒ فرماتے ہیں: إن كنت لأسير الليالي والأيام في طلب الحديث۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد،سعيد بن المسيب:۲/۳۸۱، شاملہ، موقع الوراق) ترجمہ:میں حدیث کی تلاش میں کئی کئی دن اور کئی کئی راتیں مسلسل چلتا رہا ہوں۔ حضرت مسروق کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ رحل فی لفظ (یعنی صرف ایک لفظ کی تحقیق کے لیے کوچ کیا)۔ مذکورہ بالا عوامل ومؤثرات میں سے ہرایک حدیث یعنی تاریخ کے اس عجیب وغریب سرمایہ کی حفاظت کی کافی ضمانت ہے، اس کے ساتھ اس عام تاریخی دعوے کوبھی اپنے سامنے رکھ لیجئے: ذهب في ذلك مذهب العرب؛ لأنهم كانوامطبوعين على الحفظ مخصوصين بذلك۔ (جامع بیان العلم وفضلہ، باب ذكركراهية كتابة العلم وتخليده في الصحف،حدیث نمبر:۲۸۷، صفحہ نمبر:۱/۳۰۴،شاملہ، موقع جامع الحديث) ترجمہ:عرب کا عام طریقہ یہ تھا کہ زبانی یادرکھنے کی کچھ ان کی فطری سی عادت تھی، اس بات میں ان کوخاص خصوصیت حاصل تھی۔ ان تمام خصوصیات وامتیازات کے پیشِ نظر حدیث کا یہ تاریخی ذخیرہ عام تاریخ سے کیوں کرممتاز نہیں ہوسکتا۔ خلاصہ کلام الغرض یہ کہ رسول اللہﷺ کی احادیث یعنی آپ کے اقوال واعمال کوجس صحابی نے سنا، یادیکھاہے اس کو بحکم رسول اللہﷺ اس کوخدا کی ایک امانت قرار دیا ہے، جس کا امت تک پہنچانا ان کی ذمہ داری قرار دی گئی، رسول اللہ ﷺ کے ارشاد: بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً۔ (ترمذی،كِتَاب الْعِلْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْحَدِيثِ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ،حدیث نمبر:۲۵۰۳،شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:میری بات امت کوپہنچادو؛ اگرچہ وہ ایک آیت ہی ہو۔ یہاں آیت سے مراد آیتِ قرآنی بھی ہوسکتی ہے؛ مگرظاہر کلام یہ ہے کہ اس سے مراد آپ کی احادیث کی تبلیغ ہے وَلَوْ آيَةً سے مراد یہ ہے کہ اگرچہ وہ کوئی مختصر جملہ ہی ہو، حضوراکرمﷺ کے اس قسم کے ارشادات کے بعد کسی صحابی کی کیا مجال تھی کہ آپ کے کلماتِ طیبات یااپنی آنکھوں سے دیکھے ہوئے اعمال وافعال کی پوری پوری حفاظت نہ کرتا اور امت کوپہونچانے کا اہتمام نہ کرتا، اس کے علاوہ نبی کریمﷺ کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوجووالہانہ محبت تھی اس کوصرف مسلمان نہیں کفار بھی جانتے اور حیرت کے ساتھ اعتراف کرتے کہ وہ آپ کے وضو کا مستعمل پانی بھی زمین پرنہیں گرنے دیتےتھے، اپنے چہروں اور سینوں پرملتے تھے، اس لیے اگران کے واسطے حدیث کی حفاظت اور تبلیغ کے احکامِ مذکورہ نہ بھی آئے تب بھی اُن سے یہ کیسے تصور کیا جاسکتا تھا کہ یہ لوگ جوحضوراکرمﷺ ﷺ کے جسدِ مبارک سے علیحدہ ہونے والے بالوں کی آپ کے پرانے ملبوسات کی جان سے زیادہ حفاظت کریں اور جوآپ کے وضو کے مستعمل پانی کوضائع نہ ہونے دیں وہ تعلیماتِ رسول اور آپ کی احادیث کی حفاظت کا اہتمام نہ کرتے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اول توخود صحابہ کرام کی والہانہ محبت اس کی داعی تھی کہ آپ کے ایک ایک حدیث کی اپنی جان سے زیادہ حفاظت کریں، اس پرمزید آپ نے احکام مذکورہ جاری فرمادیئے؛ اس کےساتھ ایک لاکھ سے زائد کی یہ فرشتہ صفت مقدس جماعت صرف ایک ذاتِ رسول کے اقوال وافعال کی حفاظت اور اس کی تبلیغ کے لیے سرگرم عمل ہوگئی۔ ظاہر ہے کہ یہ بات نہ کسی دوسرے بڑے سے بڑے بادشاہ کونصیب ہوسکتی ہے نہ حضوراکرمﷺ کے سوا کسی اور شخصیت کوکہ اس کی ہربات کوغور سے سن کرہمیشہ یادرکھنے اور پھرلوگوں تک پہنچانے کی کسی کوفکر ہو، بادشاہوں کے واقعات، ملکوں اور خطوں کے حالات، زمانے کے انقلابات، دلچسپی کے ساتھ ضرور دیکھے اور سنے جاتے ہیں؛ مگرکس کوکیا پڑی ہے کہ ان کوپورا پورا یاد رکھنے کاا ہتمام کرے اور اس کے پہنچانے کا بھی۔ حدیثِ رسول کوچونکہ احکامِ شرعیہ میں عمل قرآن کا درجہ دینا اور حجت شرعیہ بنانا اللہ کومنظور تھا، اس لیے اس کا سب سے پہلا ذریعہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی اس ناقابل قیاس محبت واطاعت کوبنادیا، جوظاہر ہے کہ دنیا کی کسی دوسری شخصیت کوحاصل نہیں، اس لیے تاریخی واقعات وروایات کوکسی حال میں وہ درجہ حاصل نہیں ہوسکتا جوروایاتِ حدیث کوحاصل ہے۔ رسول اللہﷺ اس بات پرمامور تھے کہ قرآن اور تعلیماتِ رسالت کودنیا کے گوشے گوشے تک اور آنے والی نسلوں تک پہنچائیں اس کاایک قدرتی انتظام توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی والہانہ محبت کے ذریعہ ہوگیا، دوسرا قانونی انتظام نہایت حکیمانہ اسلوب پررسول اللہﷺ نے یہ فرمایا کہ جوکچھ دین کی بات آپ سے سنیں یاعمل کرتے دیکھیں وہ امت کوپہونچائیں، دوسری طرف اس خطرہ کا بھی سدباب کیا جوکسی قانون کے عام اور شائع کرنے میں عادۃ پیش آتا ہے کہ نقل درنقل میں بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے اور اصل حقیقت غائب ہوجاتی ہے، اس کا انتظام آپ نے یوں فرمایا کہ آپ نے ارشاد فرمایا: مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ۔ (بخاری، كِتَاب الْجَنَائِزِ، بَاب مَايُكْرَهُ مِنْ النِّيَاحَةِ عَلَى الْمَيِّتِ ،حدیث نمبر:۱۲۰۹، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:یعنی جوشخص جان بوجھ کرمیری طرف کوئی غلط بات منسوب کرے توسمجھ لینا چاہیے کہ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اس وعیدِ شدید نے صحابہ کرام اور مابعد کے علماء حدیث کونقل روایت میں ایسا محتاط بنادیا کہ جب تک نہایت کڑی تنقید وتحقیق کے ساتھ کسی حدیث کا ثبوت نہ ملے اس کوآپ کی طرف منسوب کرنے سے گریز کیا، بعد میں آنے والے وہ حضرات محدثین جنہوں نے حدیث کی ابواب وفصول کی صورت میں تدوین وتصنیف کا کام کیا ان سب حضرات نے اپنی لکھی ہوئی اور یاد کی ہوئی لاکھوں حدیثوں میں سے ایسی کڑی تنقید وتحقیق کے ساتھ صرف چند ہزار حدیثوں کواپنی اپنی کتابوں میں جگہ دی، تدریب الراوی میں علامہ سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ: امام بخاریؒ نے فرمایا کہ ایک لاکھ حدیث صحیح اور دولاکھ غیرصحیح احادیث مجھےحفظ یاد ہیں؛ انہی سے صحیح بخاری کا انتخاب کیا ہے؛ چنانچہ صحیح بخاری میں کل غیرمکرر احادیث چار ہزار ہیں۔ امام مسلمؒ نے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کی پانچ لاکھ احادیث لکھی ہیں، جن میں سے انتخاب کرکے سنن مرتب کی ہے، جس میں چارہزار احادیث ہیں۔ امام احمدؒ نے فرمایا کہ میں نے مسنداحمد کی احادیث کوسات لاکھ پچاس ہزار احادیث میں سے انتخاب کیا ہے۔ (تدریب الراوی، اوّل من صنف فی الصحیح:۱/۹۹، مکتبۃ الریاض الحدیثیۃ، الریاض) اس طرح قدرتی اسباب اور رسول اللہﷺ کے حکیمانہ انتظام کے زیرِسایہ احادیثِ رسول کی روایات ایک خاص شان کے ساتھ جمع ہوکر کتاب اللہ کے بعد دوسرے درجہ کی حجتِ شرعی بن گئی؟۔