انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بلادِ خضر وآرمینیا جراح بن عبداللہ حکمی کو ہشام بن عبدالملک نے آرمینیا کی گورنری پرمامور کیا تھا، سنہ۱۱۱ھ میں جراح حکمی تفلیں کی جانب سے جہاد کرتا ہوا بلادِترکستان میں داخل ہوا اور ان کے مشہور بیضاء کوفتح کرکے کامیابی کے ساتھ واپس آیا، سنہ۱۱۲ھ میں ترکوں نے اپنی فوجیں مرتب کرکے متفق طور پربلادِ اسلامیہ پریورش کی جراح بن عبداللہ حکمی مقابلہ کے لیے نکلا مقام مرج اردبیل میں دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا، مسلمانوں کی تعداد بہت ہی قلیل تھی، جراح بن عبداللہ حکمی میدانِ جنگ میں لڑتا ہوا شہید ہوا اور اپنی شہادت سے ترکمانوں اور ترکوں کے حوصلے بہت بڑھ گئے اور اپنی کامیابی کی خوشی اور جوش میں وہ بڑھتے وہئے موصل کے قریب پہنچ گئے۔ یہ خبردارالخلافہ دمشق میں پہنچی توہشام بن عبدالملک نے سعید حریشی کوبلاکر کہا کہ دیکھو جراح ترکوں سے شکست کھا کربھاگ نکلا، سعید نے کہا کہ جراح کے دل میں خدا کا خوف شکست کھا کربھاگنے سے زیادہ ہے، وہ ترکوں سے شکست کھاکرفرار کی ندامت گوارا نہیں کرسکتا، میرا خیال یہ ہے کہ وہ شہید ہوگیا ہے، ہشام نے کہا اب کیا تدبیر کی جائے، سعید حریشی نے کہا کہ آپ مجھ کوصرف چالیس آدمیوں کے ساھ اس طرف روانہ کردیجئے اور روزانہ چالیس آدمی روانہ کرتے رہیے؛ نیز ایک حکم عام اس طرف کے تمام امیروں اور عالموں کے نام بھیج دیجئے کہ وہ بوقت ضرورت میری مدد کریں۔ ہشام نے اس تجویز کوپسند کیا اوور سعید چالیس آدمیوں کے ساتھ روانہ ہوگیا، راستے میں جراح کے ہمراہی ملے جوتباہ حال آرہے تھے ان کوبھی سعید نے اپنے ہمراہ لیا اور راستے میں جہاں، جہاں مسلمان قبیلوں پرسے اس کاگذرہوا جہاد کی ترغیب لوگوں کودیتا گیا، اس طرح اس کے ساتھ ہرجگہ کے لوگ شامل ہوتے رہے، مقام خلاط پرپہنچ کرسعید کا ترکوں سے مقابلہ ہوا، نہایت خوں ریز جنگ کے بعد ترکوں کوشکست دی، مسلمانوں کے ہاتھ خوب مالِ غنیمت آیا اس فتح کے بعد سعید نے مقامِ برزغہ میں قیام کیا، ترکوں نے مقام ورثان کا محاصرہ کررکھا تھا، سعید نے برزغہ سے اہلِ ورثان کے پاس اسلامی لشکر کے پہنچنے کی خبر بھیجی اور ترکوں کوپیغام دیا کہ ورثان کا محاصرہ اُٹھالو؛ ورنہ ہم حملہ آور ہوتے ہیں۔ ترک ڈرکے مارے خود ہی محاصرہ اُٹھا کرچل دیے، سعیدورثان میں داخل ہوا اس کے بعد وہ اردبیل تک بڑھتا چلاگیا وہاں جاکر مقام کیا، معلوم ہوا کہ وہاں سے چار کوس کے فاصلے پردس ہزار ترکوں کا لشکر پڑا ہے اور اُن کے پاس پانچ ہزار مسلمان قیدی گرفتار ہیں، سعید نے رات ہی کوحملہ کیا اور ان دس ہزار ترکوں کوقتل کرکے مسلمان قیدیوں کوآزاد کرالیا، اگلے روز باجروان کی طرف روانہ ہوا، ایک جاسوس نے اطلاع دی کہ ترکوں کا ایک لشکر قریب ہی خیمہ زن ہے، سعید نے اسی رات ان پربھی حملہ کیا اور سب کوقتل کرکے مسلمان قیدیوں کوچھڑایا؛ انھیں قیدیوں میں جراح کے لڑکے اوراہل وعیال بھی تھے اس کے بعد پھرترکوں نے متفق ہوکر ایک بڑا لشکر مقابلہ کے لیے فراہم کیا، مقام زرند میں دونوں لشکر مقابلہ پرآئے، سخت خوں ریز لڑائی ہوئی اور مسلمانوں کے مقابلہ سے ترکوں کوپشت پھیرکربھاگنا پڑا، اس شکست کی تلافی کے لیے ایک مرتبہ پھرترکوں نے مقابلہ کی تیاریاں کیں اور انتقام لینے کی غرض سے بہت سے ترک قبائل مارنے مرنے پرتیار ہوکر نہربیقان کے کنارے مجتمع ہوئے، سعید حریشی نے پہنچ کرلڑائی شروع کردی، سخت لڑائی ہوئی، میدانِ جنگ میں بہت سے ترک مارے گئے جوبچ کرفرار ہوئے ان میں اکثرنہرمیں ڈوب کرمرگئے، اس فتح کے بعد حریشی مقام باجروان میں واپس آکر مقیم ہوا اور خلیفہ ہشام بن عبدالملک کوفتح وکامیابی کا بشارت نامہ روانہ کیا اور مالِ غنیمت کا خمس بھی خلیفہ کی خدمت میں بھیجا، ہشام بن عبدالملک نے اس کے بعد سعید حریشی کودمشق میں واپس بلوالیا اور اپنے بھائی مسلمہ بن عبدالملک کوآرمینیا وآذربائیجان کی سند گورنری عطا کرکے اس طرف روانہ کیا۔ سعید حریشی کے واسپ چلے جانے اور اس کی جگہ مسلمہ کے آنے سے ترکوں نے پھرمجتمع ہوکر بہت بڑی جمعیت اور بڑے سازوسامان کے ساتھ مقابلہ اور حملے کی تیاریاں کیں، مسلمہ بن عبدالملک ایک تجربہ کارسپہ سالار اور بہادر شخص تھا وہ اپنی بزدلی کے سبب نہیں بلکہ اسلامی فوج کی قلت تعداد اور غنیم کی قوت کا صحیح اندازہ کرنے کے بعد اس خطرناک علاقہ کوچھوڑ کرجہاں ترکوں کے ہاتھ میں مال ومتاع اور عورتوں بچوں کا گرفتار ہوجانا یقینی تھا، مقام دربند میں واپس چلاآیا، مسلمہ بن عبدالملک نے اپنی دوڈیرھ سال کی حکومت آرمینیا میں ترکوں کے ساتھ نرمی وملاطفت کا برتاؤ کیا تھا اس لیے اور بھی ترکوں کومسلمانوں کے مقابلے اور بغاوت پرآمادہ ہونے کی جرأت ہوئی مسلمہ کے دربند آجانے کے بعد مروان بن محمد بن مروان جومسلمہ کی فوج میں شامل تھا، چھپ کردمشق کی جانب بھاگ آیا اور ہشام بن عبدالملک سے مسلمہ کی شکایت کی کہ اس نے آرمینیا وآذربائیجان میں نہایت نرمی کا برتاؤ کیا، جس کی وجہ سے ترکوں نے بغاوت پرآمادگی کا اظہار کیا؛ پھرجب کہ مقابلہ اور معرکہ کا وقت آیا تووہاں سے پسپا ہوکر علاقے کوچھوڑ کردربند میں واپس چلاآیا، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگرآپ مجھ کوایک لاکھ بیس ہزار جنگ جولشکر کے ساتھ اس طرف بھیجیں تومیں ترکوں کواچھی طرح سیدھا کردوں۔ چنانچہ ہشام بن عبدالملک نے مروان بن محمد بن عبدالملک کوایک لاکھ بیس ہزار فوج دے کربنجر (بلادخزروآرمینیا) کی طرف روانہ کیا، اسی اثنا میں مسلمہ بن عبدالملک دربند میں بیمار ہوکر فوت ہوگیا، مروان کے ساتھ ایسی زبردست فوج کودیکھ کرترکوں کے چھکے چھوٹ گئے اور انھوں نے اطاعت قبول کرلی، مروان نے جیسا کہ اس نے کہا تھا بہت اچھی طرح ترکوں کوسیدھا کیا اور آرمینیا وسواحلِ بحرِخضر کے تمام علاقے میں امن وسکون قائم ہوگیا، مروان بن محمد کوہشام بن عبدالملک نے سنہ۱۱۴ھ میں فوج دے کرآرمینیا کی طرف روانہ کیا تھا۔