انوار اسلام |
س کتاب ک |
غیرعربی میں خطبہ جمعہ درست ہے؟ خطبہ عربی میں دینا چاہیے؛ یہی متوارث طریقہ رہا ہے، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے دَور میں بہت سے عجمی علاقے فتح ہوئے؛ لیکن وہاں بھی مقامی زبانوں میں خطبہ دینے کا کوئی ذکر نہیں ملتا؛ اس لیے بہتر ہے کہ خطبہ سے پہلے اُردو میں ضروری دینی باتیں بیان کی جائیں؛ پھرعربی میں خطبہ دے دیا جائے؛ تاہم اس مسئلہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک غیرعربی زبان میں بھی خطبہ دیا جاسکتا ہے اور ان کے دونوں ممتاز شاگرد امام ابویوسف، امام محمد رحمہم اللہ کے نزدیک جوشخص عربی زبان پرقادر ہو اس کے لیے عربی میں ہی خطبہ دینا ضروری ہے، ہاں! جوعربی زبان پرقادر نہ ہو وہ غیرعربی میں بھی خطبہ دے سکتا ہے: لَمْ يُقَيِّدْ الْخُطْبَةَ بِكَوْنِهَا بِالْعَرَبِيَّةِ اكْتِفَاءً بِمَا قَدَّمَهُ فِي بَابِ صِفَةِ الصَّلَاةِ مِنْ أَنَّهَا غَيْرُ شَرْطٍ وَلَوْمَعَ الْقُدْرَةِ عَلَى الْعَرَبِيَّةِ عِنْدَهُ خِلَافًا لَهُمَا۔ (ردالمحتار:۱/۷۵۷) ہندوستان میں اکثر اہلِ علم عربی زبان میں ہی خطبہ کوواجب قرار دیتے رہے ہیں؛ البتہ مولانا عبدالحی فرنگی محلی، مولانا محمد علی مونگیری رحمہم اللہ وغیرہ کا رحجان اس کے برخلاف تھا اور اسی کے مطابق رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کی فقہ اکیڈمی کا فیصلہ بھی ہے؛ اس لیے اس حقیر کا نقطۂ نظریہ ہے کہ خطبہ توعربی زبان ہی میں ہو؛ تاکہ اس کے دُرست ہونے میں کوئی اختلاف نہ رہے؛ لیکن اگرکسی مسجد میں پہلے سے اُردو زبان میں خطبہ مروج ہو، جس میں عربی میں حمدوصلاۃ کے کلمات بھی پڑھے جاتے ہیں اور اس میں تبدیلی لانے کی صورت میں اختلاف وانتشار کا اندیشہ ہو، تووہاں اس کوگوارہ کرلینے میں کوئی قباحت نہیں۔ (کتاب الفتاویٰ:۳/۳۹،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند۔ فتاویٰ رحیمیہ:۶/۱۳۷، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۵/۱۱۸، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی)