انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** کوفہ کا دار الخلافہ بننا جنگ جمل سے فارغ ہوکر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لئے سب سے بڑا کام ملکِ شام کا قابو میں لانا اورحضرت امیر معاویہؓ سے بیعت لینا تھا، اس کام کے لئے انہوں نے کوفہ کو اپنا قیام گاہ بنانا مناسب سمجھا،حضرت علیؓ کے لشکر میں سب سے بڑی طاقت کوفیوں کی تھی،اس لئے بھی کوفہ کا دارالخلافہ بنانا مناسب تھا،نیز یہ کہ مدینہ کے مقابلہ میں کوفہ دمشق سے قریب تھا،کوفہ کا اثر ایرانی صوبوں پر بھی زیادہ پڑتا تھا،حضرت عثمان غنیؓ کے عہدِ خلافت میں مدینہ کے شرفاء یعنی صحابہ کرام میں سے اکثر صوبوں کی حکومت پر مامور ہوکر باہر چلے گئے تھے اورہر ایک شخص جو کسی صوبہ کا عامل ہوکر مدینہ سے روانہ ہوتا تھا وہ اپنے ہمرہ ایک جمعیت اپنے عزیزوں اور دوستوں کی بھی ضرور لے کر جاتا تھا ،کہ وہاں رعب قائم رہے اورانتظام ملکی میں سہولت ہو لہذا مدینہ منورہ کی جمعیت عہد عثمانی میں منتشر ہوکر کمزور ہوچکی تھی، فاروق اعظمؓ نے اپنے زمانے میں مدینہ کو سب بڑی اورمرکزی طاقت بنا رکھا تھا اور اسی کی خلافتِ اسلامیہ کو ضرورت بھی تھی لیکن اب وہ حالت باقی نہ رہی تھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے پہلے خلفاء کو خود میدانِ جنگ میں جانے اور سپہ سالاری کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی تھی، حضرت علیؓ مجبور ہوگئے تھے کہ خود فوجیں لے کر میدان میں نکلیں اور ایک سپہ سالار کی حیثیت سے کام کریں (یہی مجبوری تھی جو آخر کار نظام خلافت کے لئے بے حد مضر ثابت ہوئی) لہذا اس حالت میں ان کے لئے بجائے مدینہ کے کوفہ قیام زیادہ مناسب اورضروری تھا؛چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ بصرہ میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو حاکم مقرر کے خودمعہ لشکر کوفہ کی طرف تشریف لےگئے۔ اس جگہ یہ بات بھی بتادینا ضروری ہے کہ قاتلین عثمانؓ اوربلوائیوں میں سے ایک حصہ عبداللہ بن سبا کی کوششوں سے ماؤف ہوکر اس کا معتقد بن چکا تھا اوراس کو عبداللہ بن سبا کی جماعت کہہ سکتے تھے،لیکن اس سبائی جماعت میں چونکہ بہت سے فریب خوردہ مسلمان اپنی سادہ لوحی سے شریک تھے، لہذا اصل سبائی جماعت جو بطور تخم کے کام کرتی تھی، وہ صرف چند افراد پر مشتمل تھی اور وہ جس وقت جیسی ضرورت سمجھتی تھی اپنے گروہ میں اس قسم کے لوگوں کو شامل کرکے انہیں میں سے کسی کو سردار بنالیتی تھی،اورجن لوگوں سے پہلے کام لے رہی تھی،اُن کو چھوڑ دیتی تھی،یہی سبب تھا کہ حضرت عثمان غنیؓ کے قتل میں سبائی جماعت نے تمام بلوائیوں سے کام لیا اورجنگ جمل تک ان کے بڑے حصے سے کام لیتی رہی،جنگ جمل کے بعد حضرت علیؓ کی مخالفت اورعیب چینی کا کام جب شروع کیا تو بلوائی لوگوں کا بڑا حصہ اس سبائی جماعت سے الگ تھا ،یہ لوگ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ رہے اوراپنی کار گذاریوں اور جاں فشانیوں کی بدولت اُن کو دربارِ خلافت میں کافی رسوخ بھی حاصل ہوگیا،کوفہ میں جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اقامت اختیار فرمائی تو کافی رسوخ بھی حاصل ہوگیا، کوفہ میں جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اقامت اختیار فرمائی تو کوفیوں کے اعتبار واعتماد نے اور بھی زیادہ ترقی کرلی،اس طرح قاتلین عثمانؓ کا حضرت علیؓ کے لشکر میں نہ صرف پناہ گزیں ؛بلکہ بااعتبار ہونا اور بھی باعث اس کا ہوا، کہ حضرت امیر معاویہؓ کو قوت وطاقت حاصل ہوئی،کیونکہ جو لوگ قاتلینِ عثمانؓ سے قصاص لینا ضروری سمجھتے تھے وہ جب ان قاتلین میں سے بعض کو حضرت علیؓ کے لشکر میں باعزت دیکھتے تھے تو باوجود اس کے کہ اُن کو امیر معاویہؓ کے مقابلہ میں حضرت علیؓ کی فضیلت تسلیم تھی،پھر بھی حضرت معاویہؓ کے ساتھ ساتھ شامل ہوجاتے تھے؛کیونکہ امیر معاویہؓ نے خونِ عثمانؓ کا بدلہ لینے کے لئے علم مخالفت بلند کیا تھا۔