انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** قیامت کی بڑی نشانیاں بیک نظر حضرت امام مہدی مدینہ منورہ میں ہوں گے اور اس ڈر سے کہ کہیں حکومت میرے سر نہ کردی جائے مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کو چلے جائیں گے اور اس زمانہ کے ولی جو ابدال کا درجہ رکھتے ہیں سب حضرت امام کی تلاش میں ہوں گے اور بعضے لوگ جھوٹ موٹ بھی مہدی ہونے کا دعوی کرنا شروع کردیں گے،غرض امام خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوں گے اور حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان میں ہوں گے اور بعضے نیک لوگ ان کو پہچان لیں گے اور ان کوزبردستی گھیر گھار کر ان سے حاکم بنانے کی بیعت کرلیں گے اور اسی بیعت میں ایک آواز آسمان سے آئے گی جس کو سب لوگ جتنے وہاں موجود ہوں گے سنیں گے وہ آواز یہ ہوگی کہ یہ اللہ تعالی کا خلیفہ یعنی حاکم بنائے ہوئے امام مہدی ہیں اور حضرت امام کے ظہور سے قیامت کی بڑی نشانیاں شروع ہوتی ہیں غرض! جب آپ کی بیعت کا قصہ مشہور ہوگا تو مدینہ منورہ میں جو فوجیں مسلمانوں کی ہوں گی وہ مکہ چلی آئیں گی اور ملک شام اور عراق اور یمن کے ابدال اور اولیاء سب آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور بھی عرب کی بہت فوجیں اکھٹی ہوجائیں گی،جب یہ خبر مسلمانوں میں مشہور ہوگی ایک شخص خراسان سے حضرت امام کی مدد کے واسطے ایک بڑی فوج لے کر چلے گا،جس کے لشکر کے آگے چلنے والے حصہ کے سردار کا نام منصور ہوگا اور راہ میں بہت سے بددینوں کی صفائی کرتا جائے گا،اور جس شخص کا اوپر ذکر آیا ہے کہ ابوسفیان کی اولاد میں ہوگا اور سیدوں کا دشمن ہوگا؛ چونکہ حضرت امام بھی سید ہوں گے وہ شخص حضرت امام سے لڑنے کو ایک فوج بھیجے گاجب یہ فوج مکہ اور مدینہ کے درمیان کے جنگل کو پہنچے گی اور ایک پہاڑ کے تلے ٹہرے گی تو یہ سب کے سب زمین میں دھنس جائیں گے صرف دو آدمی بچ جائیں گا جن میں سے ایک تو حضرت امام کو جاکر خبر کردےگااور دوسرا اس سفیانی کو خبر پہنچائے گا اور نصاری سب طرف سے فوجیں جمع کریں گے اور مسلمانوں سے لڑنے کی تیاری کریں گے اس لشکر میں اس روز اسی جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈے کے ساتھ بارہ ہزار آدمی ہوں گے تو کل آدمی نو لاکھ ساٹھ ہزار ہوں گے،حضرت امام مکہ سے چل کر مدینہ تشریف لائیں گے اور وہاں رسول اللہ ﷺکی زیارت کرکےشام کے ملک کو روانہ ہوں گے اور شہر دمشق تک پہنچ پائیں گے کہ دوسری طرف سے نصاری کی فوج مقابلہ میں آجائے گی، حضرت امام کی فوج تین حصہ ہوجائے گی ایک حصہ تو بھاگ جائے گا، ایک حصہ شہید ہوجائے گا اور ایک حصہ کو فتح ہوگی اور اس شہادت اور فتح کا قصہ یہ ہوگا کہ حضرت امام نصاری سے لڑنے کو لشکر تیار کریں گے اور بہت سے مسلمان آپس میں قسم کھائیں گے کہ بے فتح کیے ہوئے نہ ہٹیں گے،پس سارے آدمی شہید ہوجائیں گے صرف تھوڑے سے آدمی بچیں گے جن کو لے کر حضرت امام اپنے لشکر میں چلے آئیں گے اگلے دن پھر اسی طرح کا قصہ ہوگا کہ قسم کھاکر جائیں گے اور تھوڑے سے بچیں گے اور تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوگا آخر چوتھے روز یہ تھوڑے سے آدمی مقابلہ کریں گے اور اللہ فتح دیں گے پھر کافروں کے دلوں میں حکومت کا حوصلہ نہ رہے گا،اب حضرت امام ملک کا بندوست کریں گے اور سب طرف فوجیں روانہ کریں گےاور خود ان سارے کاموں سے نمٹ کرقسطنطنیہ فتح کرنے کو چلیں گے،جب دریائے روم کے کنارے پر پہنچیں گے بنو اسحاق کے ستر ہزار آدمیوں کو کشتیوں پر سوار کرکے اس شہر کو فتح کرنے کے واسطے تجویز کریں گے جب یہ لوگ شہر کی فصیل کے مقابل پہنچیں گے اللہ اکبر اللہ اکبر بآواز بلند کہیں گے اس نام کی برکت سے شہر پناہ کے سامنے کی دیوار گر پڑے گی اور مسلمان حملہ کرکے شہر کے اندر گھس جائیں گے اور کفار کو قتل کریں گے اور خوب انصاف اور قاعدے سے ملک کا بندوبست کریں گے اور حضرت امام سے جب بیعت ہوئی تھی اس وقت سے اس فتح تک چھ سال یا سات سال کی مدت گزرے گی حضرت امام یہاں کے بندوبست میں لگے ہوں گے کہ ایک جھوٹی خبر مشہور ہوگی کہ یہاں کیا بیٹھے ہو وہاں شام میں دجال آگیا اور تمہارے خاندان میں فتنہ وفسار کررہا ہے اس خبر پر حضرت امام شام کی طرف سفر کریں گے اور تحقیق حال کے واسطے نو یا پانچ سواروں کو آگے بھیج دیں گےان میں سے ایک شخص آکر خبر دے گا کہ وہ خبر محض غلط تھی ابھی دجال نہیں نکلا، حضرت کو اطمینان ہوجائے گا اور پھر سفر میں جلدی نہ کریں گے، اطمینان کے ساتھ درمیان کے ملکوں کو دیکھتے بھالتے شام میں پہنچیں گے، وہاں پہنچ کر تھوڑے ہی دن گزریں کہ دجال بھی نکل پڑے گا اور دجال یہودیوں کی قوم میں سے ہوگا، اول شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا اور دعوی نبوت کا کرے گا ،پھر اصفہان میں پہنچیں گاوہاں کے ستر ہزار یہودی اس کے ساتھ ہوجائیں گے اور خدائی کا دعوی شروع کردے گااسی طرح بہت سے ملکوں پر گزرتا ہوا یمن کی سرحد تک پہنچے گا اور ہر جگہ سے بہت سے بددین ساتھ ہوتے جائیں گے؛ یہاں تک کہ مکہ معظمہ کے قریب آکر ٹھہرے گا ؛لیکن فرشتوں کی حفاظت کی وجہ سے اندرنہ جانےپائےگا پھر وہاں سے مدینہ کا ارادہ کرے گا اور وہاں بھی فرشتوں کا پہرہ ہوگا جس سے اندر نہ جانے پائے گامگر مدینہ کو تین بار زلزلہ آئے گا اور جتنے آدمی سست اور کمزور ہوں گے سب زلزلہ سے ڈرکر مدینہ سے باہر نکل کرکھڑے ہوں گے اور دجال کے پھندے میں پھنس جائیں گے ،اس وقت مدینہ میں کوئی بزرگ ہوں گے جو دجال سے خوب بحث کریں گے ،دجال جھنجلاکر ان کو قتل کردے گا اور پھر زندہ کرکے پوچھے گا اب تو میرے خدا ہونے کا قائل ہوتے ہو؟ وہ فرمائیں گے کہ اب تو اور یقین ہوگیا کہ تو دجال ہے پھر وہ ان کو مارنا چاہےگا ؛مگر اس کا کچھ بس نہ چلےگا اور ان پر کوئی چیز اثر نہ کرے گی، وہاں سے دجال ملک شام کو روانہ ہوگا ،جب دمشق کے قریب پہنچے گا اور حضرت امام وہاں پہلےسے پہنچ چکے ہوں گے اور لڑائی کے سامان میں مشغول ہوں گے کہ عصر کا وقت آجائے گا اور موذن اذان کہے گا اور لوگ نماز کی تیاری میں ہوں گے کہ اچانک حضرت عیسیؑ دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے آسمان سے اترتے نظر آئیں گے اور جامع مسجد کی مشرق کی طرف کے منارے پر آکر ٹھہریں گے اور وہاں سے زینہ لگا کر نیچے تشریف لائیں گے، حضرت امام سب لڑائی کا سامان ان کے سپرد کرنا چاہیں گے وہ فرمائیں گے لڑائی کا انتظام آپ ہی رکھیں میں خاص دجال کے قتل کرنے کو آیا ہوں، غرض !جب رات گزر کر صبح ہوگی حضرت امام لشکر کو آراستہ فرمائیں گے اور حضرت عیسی علیہ السلام ایک گھوڑا ایک نیزہ منگا کردجال کی طرف بڑھیں گے اور اہل اسلام دجال کے لشکر پر حملہ کریں گے اور بہت سخت لڑائی ہوگی اور اس وقت حضرت عیسیؑ کی سانس میں یہ تاثیر ہوگی کہ جہاں تک نگاہ جائے وہاں تک سانس پہنچ سکے اور جس کافر کو سانس کی ہوا لگادیں وہ فوراً ہلاک ہوجائے، دجال حضرت عیسی علیہ السلام کو دیکھ کر بھاگے گا،آپ اس کا پیچھا کریں گے؛ یہاں تک کہ باب لدا ایک مقام ہے وہاں پہنچ کر نیزے سے اس کا کام تمام کردیں گے اورمسلمان دجال کے لشکر کو قتل کرنا شروع کریں گے اور خدا تعالی کے فضل سے اس وقت کوئی کافر نہ رہے گا پھر حضرت امام کا انتقال ہوجائے گا اور سب بندوبست حضرت عیسی علیہ السلام کے ہاتھ میں آجائے گا پھر یاجوج ماجوج نکلیں گے ان کے رہنے کی جگہ جہاں شمال کی طرف آبادی ختم ہوئی ہے اس سے بھی آگے سات ولایت سے باہر ہے اور ادھر کا سمندر زیادہ سردی کی وجہ سے ایسا جمع ہوا ہے کہ اس میں جہاز بھی نہیں چل سکتا،حضرت عیسیؑ مسلمانوں کو خدا تعالی کے حکم کے موافق طور پہاڑ پر لے جائیں گے اور یاجوج ماجوج بڑا اودھم مچائیں گے ،آخر کو اللہ تعالی ان کو ہلاک کریں گے اور عیسی علیہ السلام پہاڑ سے اتر آئیں گے اور چالیس برس کے بعد حضرت عیسیؑ وفات فرمائیں گے اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے میں دفن ہوں گے اور آپ کی گدی پر ایک شخص ملک یمن کے رہنے والے بیٹھیں گے جن کا نام جحجاح ہوگا وہ قحطان کے قبیلے سے ہوں گے اور بہت دینداری اور انصاف کے ساتھ حکومت کریں گے، ان کے بعد آگے پیچھے اور کئی بادشاہ ہوں گے ،پھر رفتہ رفتہ نیک باتیں کم ہونا شروع ہوں گی اور بری باتیں بڑھنے لگیں گی، اس وقت آسمان پر ایک دھواں سا چھا جائے گا اور زمین پر برسے گا جس سے مسلمانوں کو زکام اور کافروں کو بیہوشی ہوگی ،چالیس روز کے بعد آسمان صاف ہوجائے گا اور اسی زمانہ کے قریب بقرعید کا مہینہ ہوگا، دسویں تاریخ کے بعد دفعۃ ایک رات اتنی لمبی ہوگی کہ مسافروں کا دل گھبرا جائے گا اور بچے سوتے سوتے اکتا جائیں گے اور چوپائے جانور جنگل میں جانے کے لیے چلانے لگیں گے اور کسی طرح صبح نہ ہوگی؛ یہاں تک کہ تمام آدمی ہیبت اور گھبراہٹ سے بیقرار ہوجائیں گے، جب تین راتوں کے برابر وہ رات ہوچکے گی اس وقت سورج تھوڑے روشنی لیے ہوئے جیسے گہن لگنے کے وقت ہوتا ہے مغرب کی طرف نکلے گا اس وقت کسی کا ایمان یا توبہ قبول نہ ہوگی۔ جب سورج اتنا اونچا ہوجائے گا جتنا دوپہر سے پہلے ہوتا ہے پھر خدا تعالی کے حکم سے مغرب ہی کی طرف لوٹے گا اور دستور کے موافق غروب ہوگا، پھر ہمیشہ اپنے قدیم قاعدے کے موافق روشن اور رونق دار نکلتا رہےگا، اس کے تھوڑے ہی دن کے بعد صفا پہاڑ جو مکہ میں آکر پھٹ جائےگا اور اس جگہ سے ایک جانور بہت عجیب شکل وصورت کا نکل کرلوگوں سے باتیں کرےگا اور بڑی تیزی سے ساری زمین میں پھر جائے گا اور ایمان والوں کی پیشانی پر حضرت موسی علیہ السلام کے عصا سے نورانی لکیر کھینچ دےگاجس سے سارا چہرہ اس کا روشن ہوجائے گا اور بے ایمانوں کی ناک یا گردن پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگھوٹی سے سیاہ مہر کردے گا جس سے اس کا سارا چہرہ میلا ہوجائے گا اور یہ کام کرکے وہ غائب ہوجائے گا اس کے بعد جنوب کی طرف سے ایک ہوا نہایت فرحت دینے والی چلے گی اس سے سب ایمان والوں کی بغل میں کچھ نکل آئے گا جس سے وہ مرجائیں گے، جب سب مسلمان مرجائیں گے اس وقت کافر حبشیوں کا ساری دنیا میں عمل دخل ہوجائے گا اور وہ لوگ خانۂ کعبہ کو شہید کریں گے اور حج بند ہوجائے گا اور قرآن شریف دلوں سے اور کاغذوں سے اٹھ جائے گا اور خدا کا خوف اور خلقت کی شرم سب اٹھ جائے گی اور کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہ رہے گا، اس وقت ملک شام میں بہت ارزانی ہوگی لوگ اونٹوں اور سواریوں پر پیدل ادھر جھک پڑیں گے اور جو رہ جائیں گے ایک آگ پیدا ہوگی اور سب کو ہانکتی ہوئی شام پہنچادے گی اور حکمت اس میں یہ ہے کہ قیامت کے روز سب مخلوق اسی میں جمع ہوگی پھر وہ آگ غائب ہوجائے گی اور اس وقت دنیا کو بڑی ترقی ہوگی،تین چار سال اسی حال سے گزریں گے کہ دفعۃ جمعہ کے دن محرم کی دسویں تاریخ صبح کے وقت سب لوگ اپنے اپنے کام میں لگے ہوں گے کہ صور پھونکدیا جائے گا،اول ہلکی ہلکی آواز ہوگی پھر اس قدر بڑھے گی کہ اس کی ہیبت سے سب مرجائیں گے ،زمین وآسمان پھٹ جائیں گے اور دنیا فنا ہوجائے گی اور جب آفتاب مغرب سے نکلا تھا اس وقت سے صور کے پھونکنے تک ایک سو بیس برس کا زمانہ ہوگا اب یہاں سے قیامت کا دن شروع ہوگا۔ (بہشتی زیور،از قیامت نامہ شاہ رفیع الدینؒ،یہ مضامین احادیث میں مسلسل نہیں ہیں بلکہ شاہ رفیع الدین صاحب نے متفرق احادیث کو جمع کرکے ترتیب دیا ہے۔)