انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تقریری حدیث کی ایک مثال حضور اکرمﷺ نے رمضان شریف میں تین رات تراویح کی نماز پڑھائی اور پھر تراویح کے لیے مسجد میں تشریف نہ لائے، آپﷺ نے اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ آپ کے دائمی عمل سے کہیں یہ نماز امت پر فرض نہ ہوجائے، ان تینوں راتوں کے بعد صحابہ کرام مسجد میں مختلف اور متفرق جماعتوں میں تراویح کی نماز پڑھتے رہے اور اس کی حضورﷺ کو اطلاع بھی ہوئی،آپ نے اس پر کوئی اعتراض نہ فرمایا؛ بلکہ اس کی تصویب فرمائی، مسجد میں حضرت ابی بن کعبؓ تراویح پڑھارہے تھے، آپ نے دیکھا تو فرمایا : "أَصَابُوا وَنِعْمَ مَا صَنَعُوا"۔ (ابو داؤد، بَاب فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ،حدیث نمبر:۱۱۶۹،شاملہ،موقع الاسلام) ترجمہ:صحیح بات کو پہنچے اور بہت اچھا ہےجو انہوں نے کیا۔ آپ کی اس تقریر وتوثیق سے مسجدوں کی تراویح با جماعت اب تک بطور سنت ادا ہورہی ہے،تراویح کی نسبت حضرت عمرؓ کی طرف بس اتنی ہے کہ آپ نے مسلمانوں کو متفرق جماعتوں سے ہٹا کر ایک بڑی جماعت کردیا تھا۔ (بخاری،بَاب فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ،حدیث نمبر:۱۸۷۱،شاملہ،موقع الاسلام) اور یہ بھی اس وقت کیا جب اس نماز کے فرض ہونے کا کوئی اندیشہ باقی نہ رہا تھا،مسلمانوں میں تراویح کی جماعت اس تقریر نبوی سے اب تک شائع ورائج ہے، اس قسم کے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ حضورﷺ کی قولی اور فعلی احادیث کے ساتھ ساتھ آپ کی تقریری احادیث بھی علم حدیث کا ایک بڑا سرمایہ سمجھی گئیں،آپ زبان مبارک سے تائید فرمادیں یہ تو ایک طرف رہا، آپ کی نظر مبارک پڑ جائے اور آپ خاموش رہیں تو اسے بھی آپ کی منظوری سمجھا جائے گا، جس کی نظراعمال میں یہ تاثیر بخشے اس قلب کا فیض کس قدر عام ہوگا، پھر یہ نہیں ہوسکتا کہ آپﷺ کے ہوتے ہوئے امت پر کوئی عذاب آئے: "وَمَاکَانَ اللہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِیْہِمْ"۔ (الانفال:۳۳) ترجمہ:اللہ ایسا نہیں ہے کہ ان کو اس حالت میں عذاب دے جب تم ان کے درمیان موجود ہو۔