انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت یحیی بن معاذرازیؒ (م:۲۵۸ ھ) ۱۔تمام اختلافات کی اصل تین چیزیں ہیں اور ان تینوں کی تین ضدیں ہیں،جو شخص ایک اصل سے علیحدہ ہوتا ہے وہ اس کی ضد میں مبتلا ہوجاتا ہے،وہ تین اصل یہ ہیں ایک توحید اوراس کی ضد شرک ہے ،دوسرے سنت اوراس کی ضد بدعت ہے،تیسری اطاعت اور اس کی ضد معصیت ہے۔ (ثمرات الاوراق،ص:۹۹) ۲۔جس شخص میں ورع نہیں وہ زاہد کیسے ہوسکتا ہے؟جوچیز تمہاری نہیں اس سے پرہیز کرو،پھر جو چیز تمہاری ہے اس سے زہد اختیار کرو۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۳۵) ۳۔وقت کا فوت ہوجانا موت سے بھی زیادہ سخت ہے؛کیونکہ وقت کے فوت ہوجانے سے اللہ سے تعلق ٹوٹتا ہے اورموت سے مخلوق سے قطع تعلق ہوتا ہے۔ ۴۔زہد تین چیزوں کا نام ہے ۱۔قلت۔ ۲۔خلوت ۔ ۳۔بھوک۔ ۵۔برے لوگوں کا تمہیں یہ کہنا کہ توپاک وصاف ہے تمہارے لئے معیوب ہے اوران کا تم سے محبت کرنا تمہارے لئے عیب کا سبب ہے اور جو تمہارا محتاج ہو وہ تمہارے نزدیک حقیر ہے۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۳۶) ۶۔زہد،زاہد کے اندریہ کیفیت پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنی ملکیت کی اشیاء کی سخاوت کرتا ہے اورمحبت سے یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ محب اپنی جان کی سخاوت کرتا ہے۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۱۶۱) ۷۔جب تک کسی میں تین خصلتیں نہ پائی جائیں،اس وقت تک وہ زہد کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتا: (۱)عمل کرے تو اس کے دل میں اللہ کی خوشنودی کے سوا کوئی اور خواہش نہ ہو۔ (۲)بات کہے تو بغیر کسی لالچ کے۔ (۳)اوربغیر ریاست کے اپنے آپ کو ذی عزت بنائے رکھے۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۱۶۳) ۸۔ابن آدم بے چارہ اگر دوزخ سے اس طرح ڈرتا رہتا جس طرح وہ تنگ دستی سے ڈرتا ہے تو جنت میں چلا جاتا۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۱۷۵) ۹۔اگر بھوک ایسی چیز ہوتی جو بازار میں خریدی جاسکتی تو آخرت کے طالبین کے لئے جب بھی بازار میں داخل ہوتے یہ مناسب نہ ہوتا کہ کسی اور چیز کو خرید تے۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۱۹۵) ۱۰۔تواضع ہر شخص کے لئے اچھی چیز ہے مگر مالدار کے لئے اور بھی اچھی چیز ہے اور تکبر ہر شخص میں بد نما معلوم ہوتا ہے مگر محتاج میں اور بھی زیادہ برا لگتا ہے۔ ۱۱۔جو شخص تمہارے ساتھ اپنے مال و دولت کی وجہ سے تکبر کرے تو اس کے ساتھ تکبر کرنا تواضع ہے۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۲۰۳) ۱۲۔کسی مومن کے لئے تجھ سے تین قسم کا حصہ ہونا چاہئے: (۱)اگر تو اسے فائدہ نہیں پہنچا سکتا تو اسے نقصان بھی نہ پہنچا۔ (۲)اگر تو اسے خوش نہیں کرسکتا تو اس مغموم بھی نہ کر۔ (۳)اگر اس کی مدح نہیں کرسکتا تو مذمت بھی نہ کر (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۲۱۴) ۱۳۔ولی نہ تو ریا کار ہوتا ہے اورنہ منافق لہذا جس کا یہ خلق ہو، اس کے دوست کس قدر کم ہوں گے؟ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۳۵۹) (۱)شریف آدمی شرم و حیاء کی وجہ سے اللہ کی نافرمانی نہیں کرتا ، اور سمجھدار آدمی عقل و فہم کی برکت سے دنیا کو آخرت پر ترجیح نہیں دیتا ۔ (۲)مبارکبادی ہے اس شخص کے لئے جس نے دنیا کو چھوڑ دیا قبل اس کے کہ دنیا اس کو چھوڑدے ، اور قبر میں رہنے کی تیاری کرلی اس سے پہلے کہ اس میں جانے کا وقت آجائے ، اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرلیا قبل اس کے کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی گھڑی آجائے ۔ (۳)علم عمل کا رہبر ہے ، فہم علم کا محافظ ہے ، عقل خیر کی طرف لے جانے والی ہے ، خواہشات گناہوں کی سواری ہیں ، مال متکبرین کی چادر ہے اور دنیا آخرت کا بازار ہے ۔ (۴)بغیر کسی شرمندگی کے گناہ کرتے جانا ، بغیر کسی طاعت کے قربِِ الٰہی کی امید رکھنا ، دوزخ کے اندر جنت کی کھیتی کی امید رکھنا ، نافرمانیوں کے ساتھ مقاماتِ عالیہ کی طلب کرنا ، بغیر کسی عمل کے ثواب کی توقع رکھنا ، اور نافرمانیوں کی کثرت میں اللہ تعالیٰ سے محض تمنا رکھنا "بڑی پر فریب چیزیں ہیں "۔ (۵)اے عالم ! تمہارے محل قیصری ہیں ، تمہارے گھر کسروی ہیں ، تمہاری بیٹھکیں قارونی ہیں ، تمہارے دروازے طالوتی ہیں تمہارے کپڑے جالوتی ہیں ، تمہارے طور طریق شیطانی ہیں ، تمہارے ساز و سامان سرکشی ہیں ، تمہاری حکومت فرعونی ہے ، تمہارے کارندے دنیادار اور رشوتی ہیں ،او ر تمہاری موت جاہلی ہے ؛اب بتاؤ کہ تمہارے پاس کونسی چیز ہے جسے محمدی کہا جاسکے، یاد رکھو! علماء ایسے نہیں ہوتے ۔ (۶)عالم جب دنیا کا طالب ہوجاتا ہے تو اس کا رعب جاتا رہتا ہے ۔ (۷)دل مثلِ ہانڈی کے ہے اور زبان مثلِ چمچہ کے ، پس تم اپنے افعال سے بھی اسی طرح خدا تعالیٰ کے بندے بنو جیسا تم اپنے اقوال سے ۔ (۸)اللہ کا ولی زمین میں خوشبو ہے ، جب مرید سونگھتے ہیں اور ان کی خوشبو دلوں تک پہونچتی ہے تو اللہ کے مشتاق ہوجاتے ہیں ۔ (۹)مجھے لوگوں پر تعجب ہے کہ صالحین کے لئے مباح کو بھی عیب سمجھتے ہیں اور اپنے لئے بڑے گناہوں کو بھی معیوب خیال نہیں کرتے ؛ خود غیبت ، چغلی ، حسد ، کینہ ، دھوکہ بازی ، تکبر ، اور خود پسندی کرتے ہیں اور استغفار نہیں کرتے ، اور نیک لوگوں پر مباح شیریں شکر کھانے اور مباح لباس پہننے سے بھی معترض ہوتے ہیں ۔ (۱۰)اگر کسی عالم کو معیوب جگہ میں دیکھو تو جھٹ سے اسے بُرا نہ کہو کیونکہ عالم تم سے زیادہ محتاط ہے اور تم سے کم ملامت کا مستحق ہے ۔ (۱۱)انسان اگر چہ دنیا میں عرصۂ دراز تک رہے مگر جنت کی زندگی کے مقابلہ میں ایک سانس کے برابر ہے ، پس جو شخص ایک سانس جس کے ذریعہ وہ دائمی خوشگوار زندگی حاصل کرسکتا ہے اس کو ضائع و برباد کردے تو بخدا وہ بہت ہی خسارہ اور نقصان میں ہے ۔ (۱۲)ایک آدمی کے بارے میں آپ کو معلوم ہوا کہ وہ مال کا آرزومند ہے تو آپ نے اس سے دریافت کیا کہ تو مال کو کیا کرےگا ؟ اس نے کہا مساکین کو دوں گا ،آپ نے فرمایا کہ مفلسوں کا بوجھ تو خداپر ہی رہنے دے، تاکہ تو ان کو اچھا سمجھتا رہے ، ورنہ جب ان کا بوجھ تجھ پر ہو گا تو تو انہیں بُرا جاننے لگے گا ،اور وہ تجھے بھاری معلوم ہوں گے ۔ (۱۳)تیرا مسلمان بھائی کی تعظیم کرنا یہ ہے کہ جب دوسرے شہر میں اس کے وہاں غمی ہوجائے تو تو اس کی تعزیت کے لئے سفر کرے۔ (۱۴)مؤمن کو نہایت باحیا ، کم ضرر ، کثیر النفع ، بےشر، راست گو ، کم سخن ، کثرت سے کام کرنے والا ، کم چوکنے والا ، بوالفضولی سے دور رہنے والا ، برادر پرور ، صلہ رحمی کرنے والا ، باوقار ، شکر گزار ، تنگئ رزق کے وقت اللہ تعالیٰ سے راضی رہنے والا ، بردبار ، دوستوں پر مہر با نی اور شفقت کرنے والا، اور پاکدامن ہونا لازم ہے ؛ اور لعنت باز ، گالی گلوج کرنے والا ، عیب جو ، پس پشت غیبت کرنے والا ، چغلخور، جلد باز ، حاسد، کینہ ور ، متکبر ، خود پسند ، طالب دنیا ، طویل الامل ، اکثر سونے والا ، ریاکار ، منافق ، بخیل نہ ہو ؛ خوش باش ہو ، عیب جو نہ ہو ، اللہ ہی کے واسطے دوستی رکھے اور اسی کے لئے دشمنی ، اللہ ہی کی خاطر راضی ہو اور اسی کی خاطر خفا ہو ، اس کا زاد ِراہ تقویٰ ہو ، اس کی ہمت آخرت ہو ، اور اس کا مونس ذکر الٰہی ہو ، اور اس کا محبوب اس کا مولیٰ ہو، اور اس کی تمام کوشش آخرت کے لئے ہو۔ (۱۵)اے لوگو ! جان لو کہ دراہم بچھو ہیں ، جو ان کا منتر اچھی طرح نہیں پڑھےگا اس کو ان کا زہر قتل کرڈالے گا ؛ لوگوں نے پوچھا کہ اس کا منتر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ ان کو حلال طریقہ سے حاصل کرنااور بر محل خرچ کرنا ۔ (۱۶)دنیا زاہدوں کی مطلّقہ ہے، جس کی عدت کبھی ختم نہ ہوگی ، جو دنیا کو طلاق دیتا ہے آخرت اس سےفی الفور نکاح کرلیتی ہے ۔ (۱۷)دانائی آسمان سے اترتی ہے لیکن جس دل میں یہ چار خصائل ہوں اس دل میں گھر نہیں کرتی: دنیا کی طرف میلان ، کل کا غم کھانا ، بھائی پر حسد کرنا ، اور لوگوں پر بڑائی کا پسند کرنا ، جس میں یہ چار خصلتیں ہوں اس میں دانائی نہیں جاتی۔ (۱۸)محرمات سے باز رہنا اللہ تعالیٰ کی رضا کا باعث ہے ، مصیبت کے وقت صبر کی حقیقت کھلتی ہے ، دیرینہ فراق سے دوستوں کی دوستی معلوم ہوتی ہے ، ادب سے علم ذہن نشین ہوتا ہے ، ترک ِطمع سے دوستی مضبوط ہوتی ہے، اور نیک نیّتی سےنیکوں کی صحبت دائمی ہوتی ہے ۔ (۱۹)جس کی قید قرآنِ مجید ہے اس کی رہائی موت ہے ، جس کو عبادت نے ذبح کردیا اس کو کامیابی زندہ کردے گی ،اور جس نے دنیاوی خواہش بند کردی اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں ذکر الٰہی کی خواہش پیدا کرے گا ۔ (۲۰)جس نے نرمی کی وہ اپنے ہم عصروں پر سردار بنا ، اور جس کا غصہ بڑھا وہ ذلّت میں غرق ہوا ۔ مل کر رہنے میں اگر کچھ کدورت بھی ہو تو وہ اس صفائی سے بہتر ہے جو جدائی اور علٰحدگی سے حاصل ہو ۔ جب قریبی دشمن ہو تو وہ غیر ہے ، اور اگر غیر دوست ہو تو وہ قریبی ہے۔ (۲۱)عاقل کی عقلمندی یہ ہے کہ کسی کو گناہ کا طعنہ نہ دے کیونکہ میں نے اگر کسی کو گناہ کا طعنہ دیا ہے تو بیس سال کے بعد اس گناہ میں خود گرفتار کیا گیا ہوں ۔ (۲۲)خواہش نفس کی تابعداری کرنے والا دنیا اور آخرت دونوں میں گرفتار ِ عذاب رہتا ہے ، دنیا میں بوجہ اس کی تلاش کے اور آخرت میں بوجہ حساب و کتاب کے ۔ یاد رہے کہ جس کی خوراک زیادہ ہے اس کے پیٹ کا گوشت بھی زیادہ ہوگا اور جس کے پیٹ کا گوشت زیادہ ہے اس کی خواہشات بھی بہت ہیں اور جس کی شہوات زیادہ ہوں اس کے گناہ بھی زیادہ ہوں گے اور جس کے گناہ زیادہ ہوں گے اس کا دل سخت ہوگا اور جس کا دل سخت ہوگا وہ معاصی و آفات میں غرق ہوگا اور جو گناہ و آفات میں غرق ہو وہ آگ میں داخل ہوگا ۔ (۲۳)جسے یہ گمان ہو کہ اسے اللہ سے محبت ہے پھر وہ اپنے نفس کو محبوب جانے تو وہ جھوٹا ہے ۔ (۲۴)صدقہ کے دانہ کے علاوہ مجھے ایسا کوئی دانہ معلوم نہیں جو وزن میں پہاڑ کے برابر ہو۔ (۲۵)جو شخص اپنے شیخ کے افعال سے منتفع نہیں ہوتا تو وہ ان کے اقوال سے بھی منتفع نہیں ہوگا ۔ (۲۶)بندہ کا دین ناقص ہی رہے گا جب تک کہ اس کا قلب حبّ ِدنیا سے متعلق رہےگا ۔ (۲۷)علماء عاملین امت ِ محمدیہ کے ساتھ ماں باپ سے بھی زیادہ شفیق و مہربان ہوتے ہیں ، آپ سے دریافت کیا گیا کہ وہ کیسے ؟ تو فرمایا کہ ان کے ماں باپ تودنیوی آگ سے ان کی حفاظت کرتے ہیں ، مگر یہ حضراتِ علماء تو ان کو نارِ آخرت اور ان کے اہوال سے محفوظ رکھتے ہیں۔ (۲۸)آدمی حکیم وبردبار اس وقت ہوگا جب کہ عورتوں کو نظرِ شہوت کے بجائے نظرِ شفقت سے دیکھے ۔