انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امیر کی آخری تقریر ۵۹ھ میں امیر معاویہؓ مرض الموت میں مبتلا ہوئے،عرصہ سے ان کے قویٰ مضمحل ہوچکے تھے، طاقتِ جسمانی جواب دے چکی تھی، اس لئے مرض الموت سے پہلے وہ اکثر موت کے منتظر رہا کرتے تھے ؛چنانچہ بیماری سے کچھ دنوں پہلے انہوں نے حسب ذیل تقریر کی تھی: لوگو میں اس کھیتی کی طرح ہوں جو کٹنے کے لئے تیار ہو، میں نے تم لوگوں پر اتنی طویل مدت تک حکومت کی کہ میں بھی اس سے تھک گیا اورغالباً تم بھی تھک گئے ہوگے ،اب مجھے تم سے جدا ہونے کی تمنا ہے، اورغالبا ًتم کو بھی یہی آرزو ہوگی میرے بعد آنے والا مجھ سے بہتر نہ ہوگا، جیسا کہ میں اپنے پیشتر وں سے بہتر نہیں ہوں ،کہا جاتا ہے کہ جو شخص خدا سے ملنے کی تمنا کرتا ہے، خدا بھی اس سے ملنے کا متمنی رہتا ہے اس لئے خدایا! اب مجھ کو تجھ سے ملنے کی آرزو ہے، تو بھی آغوش پھیلادے، اورملاقات میں برکت عطا فرما، اس تقریر کے چند ہی دنوں کے بعد بیمار پڑے۔ (ابن اثیر:۴/۲) اس وقت عمر کی اٹہتر منزلیں طے کرچکے تھے،وقت آخر ہوچکا تھااس لئےعلاج و معالجہ سے کوئی فائدہ نہیں ہوا، روز بروز حالت گرتی گئی،اسی حالت میں ایک دن حمام کیا ،جسم زار پر نظر پڑی، تو بے اختیار آنسو نکل آئے اور یہ شعر زبان پر جاری ہوگیا۔ ای اللیالیٰ سرعت فی نفقبتی اخذن بعضی وترکن بعضی لیکن اس وقت بھی حاکمانہ تیور نہ بدلے، اور آن بان میں فرق نہ آنے دیا؛چنانچہ جب مرض زیادہ بڑھا اورلوگوں میں اس کا چرچا ہونے لگا تو ایک دن تیل اور سرمہ وغیرہ لگا کر سنبھل کے بیٹھے اور لوگوں کوطلب کیا، سب حاضر ہوئے اور کھڑے کھڑے مل کر واپس گئے لوگ اس آن بان میں دیکھ کر کہنے لگے کہ معاویہ تو بالکل صحیح و تندرست ہیں۔