انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مرویاتِ حدیث پر قرآن کے سائے محدثین کے ہاں مرویاتِ حدیث کا قرآن پاک سے اتصال قائم کرنا ایک بلند پایہ علمی ذوق سمجھا جاتا ہے،اس کی کوشش ہوتی تھی کہ جہاں تک ہوسکے اس کی قرآنی اصل کو ساتھ ساتھ ملحوظ رکھا جائے، محدثین حدیث کو روایت کرتے وقت اس مضمون کی قرآنی اصلیں بھی تلاش کرتےتھے،محی السنۃ ابو محمد الحسین بن مسعود الفرا البغوی (۵۱۶ھ) کی شرح السنۃ کا باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ملاحظہ کیجئے اور امام بغویؒ کا ذوقِ حدیث دیکھئے، امام بغویؒ اسے اس طرح شروع کرتے ہیں : "قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ، يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ"۔ (المائد:۱۶) ترجمہ: بے شک تمہارے پاس آئی ہے اللہ کی طرف سے روشنی اورکتاب ظاہر کرنے والی جس سے اللہ ہدایت کرتا ہے اس کو جو تابع ہوا اس کی رضا کا، سلامتی کی راہیں۔ "وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا"۔ (آل عمران:۱۰۳) ترجمہ:اور مضبوط پکڑو اللہ کی رسی کو سب مل کر اور پھوٹ نہ ڈالو۔ "حبل الله : عهده، وقال أبو عبيد : الاعتصام بحبل الله : هو اتباع القرآن،وترك الفرقة"۔ (شرح السنۃ للامام البغوی، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ:۱/۱۸۹) ترجمہ: اللہ کی رسی اللہ کا عہد ہے، ابو عبیدہؒ فرماتے ہیں: اعتصام بحبل اللہ کا مطلب قرآن کی اتباع کرنا اورتفرقہ کو چھوڑنا ہے۔ اورآگے بھی مختلف مواقع سے پندرہ کے قریب آیاتِ قرآنی ذکر کی گئی ہیں۔ صحیح بخاری کا کتاب الجمعہ یوں شروع ہوتا ہے: باب فرض الجمعہ لقولہ تعالی: "إِذَانُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ"۔ (الجمعۃ:۹) کتاب الزکوٰۃ یوں شروع ہے: "باب وجوب الزکوٰۃ وقول اللہ عزوجل: وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ"۔ (البقرۃ:۴۳) امام بخاریؒ کتاب المناسک (حج) کا آغاز یوں کرتے ہیں: "باب وجوب الحج وفضلہ وقول اللہ تعالی: وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا"۔ (آل عمران:۹۷) پھر کتاب البیوع یوں شروع ہوتا ہے: "وقولہ: وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا" (البقرۃ:۲۷۵) ہم کہاں تک ان ابواب کا استقصاء کریں، جگہ جگہ احادیث کو قرآنی آیات کے تاج پہنائے گئے ہیں،صحیح بخاری کا پورا سلسلہ اسی طرح قرآن کے سائے میں آگے تک پھیلتا گیا ہے، کتاب التفسیر تو اس کا ایک مستقل بڑا باب ہے، جس میں تقریبا ہر صورت کے تحت کچھ روایات پیش کی گئی ہیں۔ حضرت امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کے باب خود نہیں باندھے، اس لیے اب ہم سنن نسائی (۳۰۳ھ) کی طرف رجوع کرتے ہیں قرآن کریم میں ہے۔ "وَإِذَاقُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ"۔ (الاعراف:۲۰۴) ترجمہ: قرآن کریم جب پڑھا جائے تو اس کی طرف پوری طرح کان دھرو اورچپ رہو،تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ اس میں کافروں کو بھی متنبہ کیا گیا ہے جو قرآن پڑھے جانے پر شور کرتے تھے اورلغو کلامی کرتے تھے کہ چپ رہو! اور اسے سنو! ہوسکتا ہے تم رحمت خداوندی (دائرہ اسلام) میں آجاؤ،لیکن آیت چونکہ نماز کے بارے میں اتری تھی۔اس لیے مسلمانوں کو پابند کیا گیا کہ جب امام قرآن پڑھے (سورہ فاتحہ ہو یا اس کے بعد کی سورت) تو مقتدی امام کی طرف کان لگائے رہیں خود نہ پڑھیں چپ رہیں، امام نسائی اس آیت سے باب باندھتے ہیں اوراس کے تحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ جب امام پڑھے تو تم چپ رہو "اذاقرا فانصتوا"۔ امام نسائی کا ترجمۃ الباب ملاحظہ ہو: "تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ أَخْبَرَنَا الْجَارُودُ بْنُ مُعَاذٍ التِّرْمِذِيُّ.... عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا"۔ (سنن النسائی،باب تاویل قولہ عزوجل واذاقری،حدیث نمبر:۹۱۲) کتاب الحج میں ایک باب ملاحظہ ہو: "قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ"۔ (سنن النسائی،باب قولہ عزوجل خذوازینتکم عندکل:۴۲۶/۹) کتاب النکاح میں دیکھیں: "تَأْوِيلُ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ"۔ (سنن النسائی،باب تاویل قول اللہ عزوجل:۴۷۹/۱۰) (تفصیل کے لیے دیکھیے،اٰثارالحدیث:۲۷۸) یہ شہادتیں بہ بانگ دہل کہتی ہیں کہ محدثین نے حدیث کو ہمیشہ قرآن کے ماتحت جگہ دی ہے اسے قرآن کے مقابل نہیں رکھا اورنہ حدیث کا مقصد لوگوں کو معاذ اللہ قرآن سے دور کرنا تھا، اگر حدیث لوگوں کو قرآن سے دور کرنے کی کوئی سازش ہوتی تو ذخائر حدیث کی ترتیب اس انداز میں نہ ہوتی جس کےنظائرہم آپ کے سامنےپیش کرچکےہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں کئی دفعہ کتاب اللہ کی سبقت کا ذکر فرمایا ہے اوروہ احادیث انہی محدثین نے روایت کی ہیں،جن کے خلاف عجمی سازش کے کردار ہونے کا الزام ہے،امام ابوداؤد (۲۷۵ھ) کی شہادت بھی لیجئے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طواف کی دورکعتوں سے فارغ ہوکر سعی کے لیے نکلے تو آیت: "إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ" ورد زبان تھی۔ (سنن ابی داود،باب صفۃ حجۃ النبی صلی اللہ علیہ:۲۵۸/۵) روایات میں ترکہ رسول اللہﷺ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: "وَإِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنْ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ كِتَابَ اللَّهِ"۔ (سنن ابی داؤد،باب صفۃ حجۃ النبی صلی اللہ علیہ:۲۵۸/۵) ترجمہ: اورمیں تم میں ایک ایسی چیز چھوڑ کر جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے تھام لیا تو تم کبھی گمراہ نہ ہوگے اوروہ اللہ کی کتاب ہے۔ کہیے احادیث میں بھی قرآن کریم کی طرف رغبت دلائی گئی ہے یا ان میں مسلمانوں کو قرآن سے دور کیا گیا ہے؟۔ سنن ابن ماجہ کو دیکھئے،حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آنحضرتﷺ نے ایک خط کھینچا،دولکیریں اس کی دائیں طرف لگائیں اوردو بائیں طرف اورخط اوسط (درمیانی لکیر) پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا،یہ اللہ کہ سیدھی راہ ہے اورپھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ "وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ"۔ (الانعام:۱۵۳) ترجمہ:اوریہ ہے میری سیدھی راہ سو تم اس کی پیروی کرو اور دوسری راہوں پر نہ پڑو کہ وہ تجھے اس کی راہ سے بھٹکانہ دیں۔ ان روایات کے ہوتے ہوئے کیا کوئی سمجھدار شخص یہ سوچ سکتا ہے کہ محدثین حدیث جمع کرنے میں لوگوں کو قرآن کریم سے دور کرنے کی سازش کئے ہوئے تھے۔ امام طحاوی(۳۲۱ھ) کی شرح معانی الاثار کو لیجئے، آپ کو اس کے خطبہ میں یہ الفاظ ملیں گے۔ "لِمَا يَشْهَدُ لَهُ مِنْ الْكِتَابِ النَّاطِقِ وَالسُّنَّةِ الْمُجْتَمَعِ عَلَيْهَا"۔ (شرح معانی الاثار،باب مقدمۃ الکتاب:۱/۱) کیا اس میں کتاب اللہ اولین درجے میں تسلیم نہیں کی گئی اورکیا سنت متواترہ اس کے ساتھ لازم نہیں رکھی گئی،حدیث کی تعلیم ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ دین کے اصل ماخذ کتاب اللہ اورسنت نبوی ہی ہیں۔ امام بیہقی(۴۵۸ھ) کی سنن کبریٰ کو لیجئے یہ کتاب الطہارت سے یوں شروع ہوئی ہے۔ (سنن کبریٰ:۲/۱) "قال اللہ جل ثناء ہ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا"۔ (لقمان:۱۰) (وقال) فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا۔ (المائدہ:۶) حدیث کے داخلی مطالعہ میں آپ جتنے دور تک چلے جائیں گے یہ حقیقت آپ سے ایک لمحہ کے لیے اوجھل نہیں رہ سکتی کہ حدیث کتاب اللہ کی ہی ایک تذئیل اوراسی اجمال کی ایک تفصیل ہے، آنحضرتﷺ اور صحابہ کرام نے قرآن کریم کو ہمیشہ شریعت کا پہلا ماخذ اورحدیث کو اس کا دوسرا ماخذ سمجھا ہے اورحدیث ہمیشہ قرآن کریم میں ہی جلوہ پیرا رہی ہے،قرآن اورحدیث دونوں کا مبداء ذاتِ الہٰی ہے، وحی متلو اپنے ثبوت میں قطعی ہے اور وحی غیر متلو اگر متواتر نہ ہو تو یہ اپنے ثبوت میں ظنی ہے،ظنی کا حق ہے کہ وہ قطعی کے سایہ میں چلے اورتاریخ رسالت میں اس کے شواہد بے شمار ہیں۔ صحابہ آنحضرتﷺ سے جب کوئی دین کی بات سنتے یا آپ کو کوئی کام کرتے دیکھتے تو ان کے نزدیک یہ وحی غیر متلو اسی طرح قطعی ہوتی تھی، جس طرح وحی متلو قطعی ہے،لیکن جب یہ وحی غیر متلو خبر واحد کے طورپر آگے نقل ہوئی تو اس میں من حیث الثبوت ظنیت آگئی، اب اس کا مقام ماخذ شریعت میں بیشک دوسرا ہوگا، تاہم اس میں کسی شک اور تردد کی گنجائش نہیں کہ حدیث ہمیشہ قرآن کے سائے میں رہی ہے اوراسی کے سائے میں اب تک چل رہی ہے، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکْ۔