انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عبداللہ بن جعفر نام ونسب عبداللہ نام، ابو جعفر کنیت، عبداللہ رسول اللہ ﷺ کے چچرے بھائی اور حضرت جعفرؓ طیار کے صاحبزادے ہیں، نسب نامہ یہ ہے، عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب بن عبدالمطلب ابن ہاشم بن عبد مناف قرشی ہاشمی طلبی ،ماں کا نام اسماء تھا نانہالی شجرہ یہ ہے ،اسماء بنت عمیس بن معبد بن تمیم بن مالک بن قحافہ بن عامر بن ربیعہ بن معاویہ بن زید بن مالک بن نسر۔ پیدائش عبداللہ کے والد حضرت جعفرؓ مہاجرین کے اس زمرۂ اول میں ہیں جنہوں نے مشرکین مکہ کے جو روستم سے تنگ آکر سب سے پہلے وطن چھوڑا اورمع بال بچوں کے حبشہ کی غریب الوطنی اختیار کی، عبداللہ اسی غربت کدے میں پیدا ہوئے، اس وقت تک اورکسی حبشی مہاجر کے بچہ نہ پیدا ہوا تھا،اس لحاظ سے عبداللہ حبشی مہاجرین کی جماعت میں پہلے بچہ ہیں، جو ارض حبشہ میں پیدا ہوئے۔ ۷ھ میں خیبر کے زمانہ میں جعفر حبشہ سے مدینہ آئے، اس وقت عبداللہ کی عمر،سات برس کی تھی،عبداللہ بن زبیربھی ان ہی کے ہم وصف (یہ مدنی مہاجرین کے پہلے بچے ہیں) اورہم سن تھے، آنحضرتﷺ نے ان دونوں کمسن صحابیوں سے مسکرا کر بیعت لی۔ (اصابہ:۴/۴۸) حضرت جعفرؓ کی شہادت اوررسول اللہ کی تولیت حبشہ کی واپس کے کچھ ہی دنوں بعد حضرت جعفرؓ نے غزوۂ موتہ میں جام شہادت پیا، آنحضرتﷺ کو سخت قلق ہوا، اورعبداللہ کی صغر سنی اور یتیمی کی وجہ سے ان پر غیر معمولی شفقت فرمانے لگے،اسی زمانہ میں فرمایا کہ عبداللہ خلقاً اور خلقا مجھ سے مشابہ ہیں اور ان کا ہاتھ پکڑ کے دعا کی کہ "خدایا ان کو جعفر کے گھر کا صحیح جانشین بنا، اوران کی بیعت میں برکت عطا فرما اورمیں دنیا اور آخرت دونوں میں آلِ جعفر کا ولی ہوں۔ (مستدرک حاکم:۳/۵۲۷) آنحضرتﷺہرطرح سے یتیم عبداللہ کی ولدہی فرماتے تھے،ایک مرتبہ یہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے،آنحضرتﷺ ادھر سے گذرے تو ان کو اٹھا کر اپنے ساتھ سواری پر بٹھا لیا، (اخبار الطوال:۱۹۱) اسی شفقت کے ساتھ عبداللہ رسول اللہ ﷺ کے دامن عاطفت میں پرورش پاتے رہے،ان کا دسواں سال تھا کہ شفیق بابا کا سایۂ شفقت سر سے اٹھ گیا۔ عہدِ مرتضوی خلفائے ثلثہ کے زمانہ میں عبداللہ کمسن تھے،اس لیے کہیں نظر نہیں آتے، جنگ صفین میں اپنے دوسرے اہل خاندان کے ساتھ اپنے چچا حضرت علیؓ کے ساتھ تھے اوران کی حمایت میں شامی فوج سے لڑے (ایضاً:۲۲۸) التوائے جنگ کے عہدِ نامہ پر حضرت علیؓ کی جانب سے شاہد تھے ،ابن ملجم نے جب حضرت علیؓ کو شہید کیا تو ان کے قصاص میں عبداللہ ہی نے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر بدلہ لیا تھا۔ (مستدرک حاکم:۳/۵۶۷) عبداللہ اور معاویہ گو عبداللہ امیر معاویہ کے مخالف تھےاور حضرت علیؓ کی حمایت میں ان سے لڑے تھے، لیکن امیر نے اس کا کوئی ناگوار اثر نہیں لیا تھا اور عبداللہ کو بہت مانتے تھے اورہمیشہ ان کے ساتھ سلوک کرتے رہتے تھے،عبداللہ اکثر ان کے پاس شام جایا کرتے تھے امیر معاویہ ان کی بڑی خاطر تواضع کرتے تھے اور نقد وجنس دیکر واپس کرتے تھے،بعض بعض مرتبہ ایک ایک مشت لاکھوں کی رقم ان کو دیدی۔ (مستدرک حاکم:۳/۵۶۷) امیر معاویہ کی بیوی فاختہ کو عبداللہ پر امیر کی یہ نوازشیں سخت ناپسند تھیں اور وہ انہیں عبداللہ سے برگشتہ کرنے کے لیے عبداللہ کی عیب جوئی میں لگی رہتی تھیں، عبداللہ کبھی کبھی گانا سن لیا کرتے تھے، ایک مرتبہ جبکہ عبداللہ امیر معاویہ کے یہاں تھے،رات کو گانا سن رہے تھے،فاختہ نے گانے کی آواز سنی تو انہیں امیر معاویہ کو عبداللہ کے خلاف بھڑکانے کا موقع مل گیا؛چنانچہ انہوں نے جاکر امیر سے کہا جسے تم اتنا عزیز رکھتے ہو چل کر دیکھو اس کے گھر میں کیا ہو رہا ہے، امیر گئے تو گانا ہورہا تھا،سن کر لوٹ گئے،یہ شروع رات کا وقت تھا، پچھلے پہر کو عبداللہ قرآن کی تلاوت میں مصروف ہوگئے، امیر معاویہ کے کانوں میں آواز پہنچی تو بیوی سے جاکر کہا تم نے ہمیں جو سنوایا تھا اب وہ چل کر اس کا جواب سن لو۔ (استیعاب:۱/۳۵۴) وفات ۸۰ ھ میں مدینہ میں وفات پائی، اموی گورنر آبان بن عثمان نے اپنے ہاتھوں سے غسل دیکر کفن پہنایا اورجنازہ کو کندھا دیا،جب جنازہ جنت البقیع کی طرف چلا، تو سارے مدینہ میں کہرام بچ گیا،غلام گریبانوں کے ٹکڑے اڑارہے تھے اور عوام ہر طرف سے جنازہ پر ٹوٹ پڑتے تھے،آبان کو پہلے سے اس ہجوم کا علم تھا، اس لیے اس نے جنازہ کے تخت میں اٹھانے کے لیے دو لکڑیاں لگوادی تھیں اورخود کندھا دئیے ہوئے تھا، اس ہجو م میں کسی نہ کسی طرح جنازہ جنت البقیع پہنچا کر خود نمازِ جنازہ پڑھائی اور جعفر طیارؓ کی آخری یاد گار کو پیوند خاک کیا، آبان عبداللہ کے اوصاف سے اس قدر متاثر تھے کہ مٹی دیتے وقت روتے جاتے تھے اورکہتے جاتے تھے،خدا کی قسم تم بہترین آدمی تھے، تم میں مطلق شر نہ تھا، تم شریف تھے تم صلہ رحمی کرتے تھے،تم نیک تھے، ان کی قبر کا یہ کتبہ مدتوں ان کی یاد دلاتا رہا۔ (اسدالغابہ:۲/۱۳۴) مقیم الی ان یبعث اللہ خلقہ لقاءک لایرجی وانت قریب ترجمہ: جب تک خدا اپنی مخلوق کو دوبارہ نہ زندہ کرے آرام سے قبر میں مقیم رہو، اگرچہ تم بہت قریب ہو لیکن تم سے ملاقات کی کوئی امید نہیں۔ تزید بلی فی کل یوم ولیلۃ و تنسی کما تبلی وانت حبیب ترجمہ:تم شبانہ یوم ہٹے جاتے ہو اورجس قدر ہٹے جاتے ہو، بھولتے جاتے ہو حالانکہ تم محبوب ہو۔ فضل وکمال آنحضرتﷺ کی وفات کے وقت عبداللہ بہت کم سن تھے، ان کی عمر دس سال سے زیادہ نہ تھی تاہم ہر وقت کے ساتھ کی وجہ سے آپ کی چند احادیث ان کے حافظہ میں محفوظ رہ گئی تھیں، جو حدیثیوں کی کتابوں میں موجود ہیں، ان میں سے دو متفق علیہ ہیں، اسمعیل اسحاق، معاویہ عروہ بن زبیر، ابن ابی ملیکہ اور عمر بن عبدالعزیزؓ نے ان سے روایت کی ہے۔ (تہذیب الکمال:۱۹۳) اخلاق اوپر گذر چکا ہے کہ آنحضرتﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا تھا کہ "عبداللہ صورۃاورسیرۃمیرے مشابہ ہیں " عبداللہ کی زندگی اس ارشاد گرامی کی عملی تصدیق تھی آبان ان کی تدفین کے وقت ان کے یہ اوصاف گناتا تھا، خدا کی قسم تم بہترین آدمی تھے، تم میں کسی قسم کا شر نہ تھا، تم شریف تھے،تم صلہ رحمی کرتے تھے تم نیک تھے (اسد الغابہ:۳/۳۴)علامہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں کہ عبداللہ کریم النفس، فیاض خوش طبع خوش خلق ،عفیف ،پاکدامن اورسخی تھے۔ (استیعاب:۱/۳۵۴) فیاضی ان تمام اوصاف میں فیاضی اورسخاوت کا وصف بہت غالب تھا، سیر چشمی اوردریا دلی ان کے خمیر میں داخل تھی،زمانہ اسلام میں جزیرۃ العرب میں دس فیاض مشہور تھے ،عبداللہ ان میں بھی سب سے زیادہ فیاض تھے اوران کی فیاضی کو کوئی نہ پہنچ سکتا تھا، ایک مرتبہ ان کی غیر معتدل فیاضی پر کسی نے ٹوکا تو جواب دیا، خدا نے میری ایک عادت ڈال دی ہے میں نے اس عادت کے مطابق دوسروں کو بھی عادی بنادیا ہے، مجھ کو ڈر ہے کہ اگر میں یہ عادت چھوڑدوں تو خدا مجھے دینا چھوڑدیگا۔ (استیعاب:۱/۳۵۴) ایک مرتبہ ایک حبشی نے ان کی مدح میں اشعار کہے،اس کے صلہ میں انہوں نے اس کو بہت سے اونٹ ،گھوڑے،کپڑے اوردرہم و دینار دیئے، کسی نے کہا یہ حبشی اتنے انعام واکرام کا مستحق نہ تھا، جواب دیا اگر وہ سیاہ ہے،تو اس کے بال سپید ہوچکے ہیں، اس نے جو کچھ کہا ہے اس کے لحاظ سے وہ اس سے بھی زیادہ کا مستحق ہے،جو کچھ میں نے اسے دیا ہے وہ کچھ دن میں ختم ہوجائے گا اوراس نے جو مدح کی ہے وہ ہمیشہ باقی رہے گی۔ (ایضاً) ایک مرتبہ تاجر شکر لے کر مدینہ آئے ،اس وقت بازار سرد تھا،تاجروں کو گھاٹا آیا،عبداللہ نے حکم دیا کہ سب شکر خرید کر لوگوں میں تقسیم کردیجائے۔ (اصابہ:۴/۴۹) یزید نے اپنے عہدِ حکومت میں ان کو بہت بڑی رقم بھیجی ،انہوں نے اسی وقت کھڑے کھڑے کل رقم مدینہ والوں میں تقسیم کردی اورایک حبہ بھی گھر نہ آنے دیا، عبداللہ ابن قیس نے اس شعر میں: وما کنت الا کالا غرابن جعفر رای المال لایبتعی فابقیٰ لہ ذکرا ترجمہ:تم اس معزز ابن جعفر کی طرح ہو، جس نے سمجھا کہ مال فنا ہوجائے گا، اوراس کا ذکر خیر باقی رہے گا۔ اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (ایضاً) زیاد بن اعجم پانچ مرتبہ ان کے پاس دیتوں میں امداد کے لیے آیا، انہوں نے پانچوں مرتبہ ان کی طرف سے دیت ادا کی اس نے ان اشعار میں اپنی منت پذیری کا اظہار کیا: (مستدرک حاکم:۳/۵۶۷) مالناہ الجزیل فما قل کا واعطی فوقت بنیتنا ذرادا ترجمہ:ہم نے اس سے بہت سا مال مانگا اس نے تامل نہیں کیا اورہماری امید سے زیادہ دیا۔ واحسن ثم احسن ثم عدفا فاحسن ثم عدت لہ فعادا ترجمہ:اوراس نے بار بار بھلائی کی اورجب جب ہم اس کے پاس گئے اس نے بھلائی کا اعادہ کیا۔ یہ چند واقعات بطور نمونہ لکھ دیئے گئے ورنہ اس قسم کے اور بھی بہت سے واقعات ہیں، واجنادہ فی جودہ وحکمہ وکرمہ کثیرۃ لا تحصیٰ۔ (اصابہ:۴/۴۹) ان غلط بخششوں کی وجہ سے اکثر مقروض رہتے تھے؛چنانچہ حضرت زبیر ؓبن عوام کے دس لاکھ کے مقروض تھے،حضرت زبیرؓ کی شہادت کے بعد ان کے صاحبزادہ عبداللہ ؓبن زبیر نے عبداللہ ابن جعفر سے کہا کہ والد کی یادداشتوں میں دس لاکھ کا قرض تمہارے ذمہ ہے انہوں نے کہا ہاں بالکل صحیح ہے، میں ہر وقت ادا کرنے کے لیے تیار ہوں جب چاہے لے لو۔ (اسد الغابہ:۳/۱۳۴) ناجائز آمدنی سے پرہیز لیکن ان کثیر اخراجات اور غیر محدود فیاضیوں کے باوجود کبھی ناجائز مال کا ایک حصہ بھی نہ لیتے تھے اوررشوت کی بڑی بڑی رقموں کو ٹھکرادیتے تھے،ایک مرتبہ دیہی علاقہ کے زمینداروں نے اپنے کسی معاملہ میں انہیں حضرت علیؓ کے پاس گفتگو کرنے کے لیے بھیجا ان کی وساطت سے زمینداروں کے موافق فیصلہ ہوگیا،اس صلہ میں انہوں نے چالیس ہزار کی رقم پیش کی،عبداللہ نے اس کے قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا میں بھلائی کو فروخت نہیں کرتا۔ (اصابہ:۴/۴۹)