انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اقامت دین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عقائد و اعمال کی جو سطح قائم ہوچکی تھی، صحابہ کرامؓ نے نہایت مستعدی و سرگرمی کے ساتھ اس کو قائم رکھا۔ عقائد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب عرب میں ارتداد کی عام ہوا چل گئی تو حضرت ابوبکرؓ نے اس کے دفعیہ کے لئے اپنی پوری طاقت صرف کردی اور ان کے مساعی جمیلہ نے جونیک نتائج پیدا کئے تاریخ میں ان کی تفصیل پڑھ کر اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ان کے عہد میں اسلام مرکے دوبارہ زندہ ہو ااور کلمہ توحید کی صدا خاموش ہوکر دوبارہ غلغلہ انداز عالم ہوئی۔ حضرت ابوبکرؓ کے علاوہ اللہ تعالی نے اور بھی متعدد صحابہ کو اس نیک خدمت کے انجام دینے کی توفیق عطا فرمائی اور انہوں نے بہت سے لوگوں کو قعر ضلالت میں گرنے سے بچایا ؛چنانچہ جب تمام مکہ عرب کے اس عالمگیر ارتداد کی خبروں سے گونچ اٹھا تو حضرت سہیلؓ بن عمرو کو خوف ہوا کہ کہیں خود قریش بھی اس وباء میں مبتلا نہ ہوجائیں اس لئے انہوں نے خصوصیت کے ساتھ قریش کی طرف خطاب کرکے ایک طویل خطبہ دیا جس کے چند فقرے یہ ہیں۔ یا معشر قریش لا تکونا اخر من اسلم واول من ارتدواللہ ان ھذا الدین لیمتدن امتدادالشمس والقمر من طلوعھما الی غروبھما اے گرہ قریش یہ نہ ہو کہ تم سب کے اخیر میں تو اسلام لائے اورسب سے پہلے مرتد ہوجاؤ، خدا کی قسم یہ دین وہاں تک پھیلے گا جہاں تک چاند اورسورج طلوع وغروب کی حد ہے۔ اس خطبے کا یہ اثر ہوا کہ تمام قبیلہ قریش اسلام پر قائم رہا۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت سہیل بن عمروؓ) حضرت ثمامہ بن آثالؓ یمامہ کے رئیس تھے، آپ کے وصال کے بعد اگرچہ تمام یمامہ مرتد ہوگیا ؛لیکن ان کے زیر اثر جو لوگ تھے وہ عقیدہ توحید پر قائم رہے اور وہ تمام اہل یمامہ کو مسیلمہ کی تقلید سے روکتے رہے، لیکن جب ان کے ارشاد وہدایت کاان پر اثر نہ ہوا تو ان سے الگ ہوکر ہجرت کا عزم کرلیا۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت ثمامہ بن آثالؓ) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے بھی بہت سے لوگوں کو اس گمراہی سے نجات دلائی ؛چنانچہ ایک بار وہ بنو حنیفہ کی مسجد سے گذرے تو معلوم ہوا کہ یہ لوگ مسیلمہ کے پیرو ہیں سب کو طلب کیا اوران سے توبہ کروائی، ابن النواحہ نے انکار کیا تو سربازار اس کی گردن اڑادی اورفرمایا جو شخص اس عبرت انگیز منظر کو دیکھنا چاہے وہ بازار میں جاکر دیکھ سکتا ہے۔ (ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی الرسل) نماز خلفاء نے نماز کو تمام جزئیات وخصوصیات کےساتھ قائم رکھنے کے لئے جو انتظامات کئے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ ۱۔حضرت عمرؓ نے تمام عمال کے نام ایک فرمان لکھا جس میں نماز کے اوقات کی تفصیل فرمائی اوران کی پابندی کی طرف توجہ دلائی اس فرمان کے ابتدائی الفاظ یہ ہیں۔ ان اھم امرکم عندی الصلوٰۃ فمن حفظھا وحافظ علیھا حفظ دینہ ومن ضیعھا فھو لما سواھا اضیع میرے نزدیک تمہارا سب سے زیادہ اہم کام نماز ہے ،جس شخص نے اس کی محافظت کی اس نے اپنے دین کی محافظت کی اورجس شخص نے اس کو ضائع کردیا وہ اس کے سوا اور چیزوں کو بھی ضائع کرے گا۔ اخیر میں نماز عشاء کا وقت لکھا تو اس کے ساتھ یہ فقرے لکھے۔ فمن نام فلانامت عینہ فمن نام فلانامت عینہ فمن نام فلانامت عینہ (موطا امام مالک کتاب وقوت الصلوٰۃ) جوشخص بغیر نماز عشاء پڑھے ہوئے سو گیا تو اس کی آنکھ نہ سوئے ،نہ سوئے ،نہ سوئے۔ ۲۔ جمعہ کے غسل کے متعلق اختلاف ہے کہ واجب ہے یا سنت ،بہر حال جو کچھ بھی ہو؛ لیکن حضرت عمرؓ نہایت شدت سے لوگوں کو اس کی پابندی پر مجبور کرتے تھے، ایک بار حضرت عثمانؓ دیر کرکے آئے اور شریک جمعہ ہوئے،حضرت عمرؓ خطبہ دے رہے تھے فرمایا :یہ کون سا وقت ہے؟ بولے ابھی بازار سے پلٹا تھا کہ اذان سنی اور وضو کرکے حاضر ہوگیا، بولے صرف وضو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو غسل کا حکم بھی دیتے تھے۔ (موطا امام مالک کتاب الصلوٰۃ باب العمل فی غسل یوم الجمعۃ) ۳۔حضرت عمرؓ جماعت کی پابندی کا نہایت خیال رکھتے تھے، ایک دن سلیمان ابن ابی خیثمہؓ کو صبح کی جماعت میں نہیں دیکھا تو ان کے گھر گئے اورپوچھا کہ میں نے ان کو نماز صبح میں نہیں پایا؟ معلوم ہوا کہ وہ تہجد کی نماز پڑھتے پڑھتے سو گئے اورصبح کو آنکھ نہ کھلی، بولے میں شہادت دیتا ہوں کہ جماعت کے ساتھ فجر کی نماز رات بھر کی نماز سے زیادہ مجھے محبوب ہے۔ (موطا امام مالک کتاب الصلوٰۃ باب ماجاء فی العتمہؓ الصبح) حضرت سعید بن یربوعؓ ایک صحابی تھے جن کی آنکھیں جاتی رہی تھیں، حضرت عمرؓ نے ان کے لئے ایک غلام مقرر کردیاتھا کہ ان کو مسجد میں لاکر با جماعت نماز پڑھایا کرے۔ ۴۔جن اوقات میں نماز ممنوع ہے ان میں اگر کوئی نماز پڑھتا تھا تو اس کو سزا دیتے تھے۔ (موطا امام مالک کتاب الصلوٰۃ باب النہی عن الصلوٰۃ بعد الصبح والعصر) ۵۔ حضرت عمرؓ صف کی ہمواری کا اس قدر لحاظ رکھتے تھے کہ خاص اس غرض کے لئے متعدد اشخاص مقرر کردیئے تھے، جن کا کام صرف صف کو سیدھا کرنا تھا۔ (طبری،صفحہ،۲۷۲۳) حضرت عثمانؓ کے عہد میں بھی اس قسم کے اشخاص مقرر تھے۔ (موطا امام مالک کتاب الصلوٰۃ باب ماجاء فی تصویۃ الصفوف) ۶۔ فرض نمازوں کی امامت اگرچہ خود خلفاء کرتے تھے؛ لیکن تراویح کی امامت کے لئے حضرت عمرؓ نے دو مستقل امام مقرر فرمادیئے تھے جو لوگوں کو باجماعت تراویح پڑھاتے تھے، عورتوں کی تراویح کیلئے ایک مستقل امام مقرر فرمایا تھا جن کا نام سلیمان بن ابی خثیمہؓ تھا؛ لیکن حضرت عثمانؓ نے مردوں اورعورتوں کی ایک مشترک جماعت قائم کی اورحضرت سلیمان بن ابی خثیمہؓ کو دونوں کا امام مقرر فرمایا؛ البتہ یہ انتظام تھا کہ جماعت ہوجانے کے بعد جب مرد مسجد سے نکل جاتے تھے تو عورتوں کو نکلنے کی اجازت دی جاتی تھی۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ سلیمان بن ابی خثیمہؓ) زکوٰۃ اسلام کے ارکان خمسہ میں زکوۃ ایک نہایت ضروری رکن ہے؛ لیکن حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں ارتداد کی وباء عام پھیلی تو متعدد قبائل نے زکوٰۃ دینا موقوف کردیا، اس موقع پر اگر انہوں نے اس ستون کو نہ تھاما ہوتا تو اسلام کا یہ رکن اعظیم قائم نہ رہتا ؛لیکن انہوں نے ان لوگوں کے ساتھ جہاد کی تیاریاں شروع کردیں، اگرچہ حضرت عمرؓ نے اول اول اس سے اختلاف کیا اور کہا کہ کلمہ گویوں سے کیونکر جہاد کیا جاسکتا ہے؟ لیکن حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا۔ واللہ قاتلن من فرق بین الصلوٰۃ والزکوٰۃ فان الزکوٰۃ حق المال واللہ لو منعونی عقالا کانوا یودونہ الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لقا تلتھم علی منعہ خدا کی قسم جو لوگ نماز اور زکوٰۃ میں تفریق کریں گے میں ان سے جہاد کروں گا ؛کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے اگر وہ ایک بکری کا بچہ بھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے روک رکھیں گے تو میں اس کے روکنے پر ان سے جہاد کرونگا۔ بالآخر حضرت عمرؓ کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ انہوں نے جو کچھ کیا حق تھا۔ (ابوداؤد بخاری کتاب الزکوٰۃ) حج خلفائے راشدین نے حج اور مناسک حج کو نہایت مستعدی کے ساتھ قائم رکھا، بیت الحرام اگرچہ خود مکہ میں تھا ؛لیکن خود اہل مکہ میں حج کا وہ ذوق وشوق نہیں پایا جاتا تھا، جس کے نشہ میں باہر والے مدہوشانہ آتے تھے۔ ایک بار حضرت عمرؓ نے یہ حالت دیکھی تو اہل مکہ کی طرف خطاب کرکے فرمایا ،اے اہل مکہ یہ کیا ہے؟ کہ لوگ پراگندہ مو آتےہیں اور تمہارے سر میں تیل پڑا ہوا ہے، جب پہلی کا چاند دیکھو تو فورا احرام باندھ لو۔ (موطا کتاب الحج باب اہلال اہل مکہ ومن بہا من غیرہم) جب حج کا زمانہ آتا تو خود قافلہ سالار ہوتے اور تمام لوگوں کو مناسکِ حج کی تعلیم فرماتے موطا امام مالک میں ہے۔ ان عمربن الخطاب خطب الناس بعرفۃ وعلمھم امرالحج (موطا امام مالک کتاب الحج باب الافاضۃ) حضرت عمر بن الخطابؓ نے عرفہ میں خطبہ دیا اورلوگوں کو مسائل حج کی تعلیم دی حج کے زمانے میں بہت سے لوگوں کو اس خدمت پر مامور فرمادیتے تھے کہ حاجیوں کو مقام منٰی میں عقبہ کے پار پہنچا آئیں،(موطا امام محمد کتاب الحج باب البیتو تہ بمکۃ لیالی منی) کیونکہ عقبہ کے اس طرف ٹھہر جانا مناسک حج میں محسوب نہ تھا۔ جو لوگ احکام حج کی خلاف ورزی کرتے ان پر عموما ًگرفت فرماتے، ایک بار حضرت طلحہ بن عبیدؓ اللہ نے حالت احرام میں رنگین کپڑے پہنے تھے،حضرت عمرؓ کی نگاہ پڑی تو فرمایا آپ لوگ دنیا کے لئے نمونہ و مثال ہیں اگر کوئی جاہل اس کپڑے کو دیکھے گا تو کہے گا کہ حالت احرام میں طلحہ بن عبیدؓ اللہ تو رنگین کپڑے پہنتے تھے، اس قسم کا کوئی کپڑا ہر گز نہ پہنو۔ (موطا امام مالک کتاب الحج باب لیس الثیات المصبنعقہ فی لاحرام) ایک بار ایک شخص طواف رخصت کئے بغیر چلا گیاحضرت عمرؓ کو معلوم ہوا تو اس کو خود پکڑ کر واپس لائے۔ (موطا امام مالک کتاب الحج باب وداع البیت) روزہ روزہ ایک نہایت خشک عبادت ہے لیکن حضرت عمرؓ نے اس کو نہایت شاندار اور بارونق بنادیا ،تراویح کا خاص اہتمام کیا اور اس کو باجماعت کردیا ،مسجدوں میں روشنی کروائی اور روزہ داروں کے روزینے مقرر کئے، جس کی مقدار ایک درہم روزانہ تھی، حضرت عثمانؓ نے ترقی دے کر اس مقدار کو دوگنا کردیا(طبری،صفحہ ۲۸۴۴) آج رمضان میں جو رونق و شان نظر آتی ہے وہ صحابہ کرام ہی کے فیض و برکت کا نتیجہ ہے۔ تحریم مدینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کو حرم قرار دیا تھا یعنی حدود مدینہ کے اندر جانور درخت اور گھاس بالکل محفوظ تھے اور ان کو کوئی شخص ہاتھ نہیں لگا سکتا تھا، صحابہؓ کرام اگرچہ بذات خود اس کی حرمت کا لحاظ رکھتے تھے؛ تاہم حضرت عمرؓ نے اس کی نگرانی کے لئے ایک خاص عامل مقرر کردیا تھا تاکہ ملجاء ایمان کا ادب و احترام ہمیشہ قائم رہے۔ نکاح و طلاق نکاح و طلاق کے تمام شرائط واحکام کو صحابہ کرام نے نہایت سختی کے ساتھ قائم رکھا اوراس کی پابندی کرائی، ایام عدت میں نکاح حرام ہے، لیکن ایک عورت نے ایام عدت ہی میں نکاح کرلیا، حضرت عمرؓ کو خبر ہوئی تو میاں بیوی دونوں کو سزادی۔ (موطا کتاب النکاح باب جامع مالایجوز من النکاح) جو عورتیں بیوہ ہو جائیں ان کے لئے عدت ختم ہونے سے پہلے گھر سے نکلنا جائزنہیں ہے، حضرت عمرؓ اس سختی کے ساتھ اس حکم کی پابندی کرواتے تھے کہ اس قسم کی عورتوں کو حج کی بھی اجازت نہیں دیتے تھے۔ (موطا کتاب الطلاق باب مقام المتوفی عنہازوجہا فی بیتہا حی تحل) نکاح متعہ نکاح متعہ اگرچہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانے میں حرام ہوچکا تھا؛ تاہم حضرت عمرؓ کے عہد میں شدت کے ساتھ اس کی روک ٹوک کی گئی ، ایک بار ان کو معلوم ہوا کہ کسی شخص نے ایک لونڈی کے ساتھ متعہ کیا ہے گھبرا کر اٹھے اور چادر گھسٹیتے ہوئے پہنچے اورفرمایا کہ یہ متعہ ہے ،اگر میں نے پہلے سے اس کا اعلان کیا ہوتا تو اس شخص کو سنگسار کرتا۔ (موطا کتاب النکاح باب نکاح المتعہ) غرض احادیث کی کتابوں میں عبادات و معاملات کے سینکڑوں احکام اس قسم کے موجود ہیں کہ اگر صحابہ کرام انے ان کے استحکام و بقاء میں کچھ بھی مداہنت کی ہوتی تو تمام معالم دین مٹ گئے ہوتے اورآج جو حالت قائم ہے وہ آج سے بہت پہلے قائم ہوچکی ہوتی۔ جمع و ترتیب قرآن اسلام کا قیام و بقاء تمام تر قرآن مجید کے قیام و بقا پر موقوف ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جو آیتیں نازل ہوتی تھیں وہ اگرچہ الگ الگ سورتوں میں لکھ لی جاتی تھیں؛ لیکن قرآن مجید منظم شکل میں مرتب نہیں ہوا تھا۔ (فتح الباری جلد۹،صفحہ۱۰،۲۰) حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں جب غزوہ یمامہ پیش آیا اوراس میں بہت سے حفاظ قرآن شہید ہوئے تو حضرت عمرؓ کو قرآن مجید کے جمع وترتیب کی طرف خاص توجہ ہوئی اور انہوں نے حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر اسی طرح حفاظ قرآن لڑائیوں میں شہید ہوتےرہے توقرآن مجید کا بہت بڑا حصہ ضائع ہوجائے گا، اس لئے میری رائے ہے کہ آپ جمع و ترتیب قرآن کا حکم صادر فرمائیں؛لیکن چونکہ یہ ایک نئی بات تھی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یہ کام نہیں ہوا تھا، اس لئے اول اول حضرت ابوبکرؓ نے تامل کیا؛ لیکن بالآخر حضرت عمرؓ کے اصرار سے راضی ہوگئے اور حضرت زید بن ثابت ؓ کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کاتب وحی تھے طلب فرمایا اور یہ خدمت ان سے متعلق کی، اول اول انہوں نے بھی اس جدید کام کے شروع کرنے میں تامل کیا؛ لیکن بعد کو حضرت ابوبکرؓ کی طرح اللہ تعالی نے ان کے دل کو بھی کھول دیا اورا نہوں نے اس آفتاب ہدایت کو جمع کرنا شروع کیا، فتح الباری میں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کا حکم تھا کہ صرف وہ آیتیں اور وہ صورتیں جمع کی جائیں جو لکھی ہوئی ہیں، یہی وجہ ہے کہ حضرت زید بن ثابتؓ نے سورہ براۃ کی آخری آیتوں کے لکھنے میں تامل کیا، (فتح الباری ،جلد۹صفحہ۱۰) کیونکہ وہ لکھی ہوئی موجود نہ تھیں ؛لیکن خود بخاری میں حضرت زید بن ثابتؓ کا قول موجود ہے۔ فتتبعت القرآں اجمعہ من العسب واللخاف وصدور الرجال میں نے قرآن مجید کی جستجو کی اور کھجور کی چھال وغیرہ اور صحابہ کرام کے سینوں سے اس کو جمع کیا۔ بہرحال قرآن مجید کی جمع و ترتیب میں نہایت تثبت واحتیاط سے کام لیا گیا،حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ اورحضرت زید بن ثابتؓ کو حکم دیا کہ مسجد کے دروازے پر بیٹھ جائیں اورجو لوگ قرآن مجید کی آیتوں کو پیش کریں وہ جب تک دو گواہ نہ لائیں وہ قبول نہ کی جائیں،(فتح الباری ،جلد۹صفحہ۱۲) اس پر نہایت شدت کے ساتھ عمل ہوا،چنانچہ ایک شخص نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں آیت رجم پیش کی تو چونکہ اس کا کوئی گواہ نہ تھا، انہوں نے اس کو نہیں لکھا، (اتقان،صفحہ ۱۳۷) اس کے برخلاف حضرت خزیمہ انصاریؓ نے ایک آیت کا پتہ دیا تو چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شہادت کو دو شخصوں کی شہادت کے برابر قراردیا تھا، اس لئے وہ قبول کرلی گئی، اس حزم واحتیاط کے ساتھ تمام آیتیں جمع ہوکر الگ الگ سورتوں میں کاغذ پر لکھ لی گئیں؛ لیکن اس مجموعہ میں سورت کی ترتیب کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ (فتح الباری ،جلد۹صفحہ۱۳،۱۶)