انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** زکوٰۃو صدقات اداکرنے کے فوائد وحکم اورادا نہ کرنے پر وعید فوائدِ زکوٰۃ وصدقات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک تفصیلی حدیث "وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَایُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللہ" الخ (توبہ:۳۴) کے بارے میں نقل فرمائی ہے، جس میں رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ اللہ پاک نے زکوٰۃ تو اسی لیے فرض کی ہے کہ اس کی ادائیگی کے بعد جو مال باقی رہ جائے وہ پاک ہوجائے۔ (ابوداؤد، باب فی حقوق المال، حدیث نمبر:۱۴۱۷۔ شعب الایمان، حدیث نمبر:۳۱۵۶) (پہلا فائدہ) اس روایت سے معلوم ہوا کہ جس مال کی زکوٰۃدیجائے تو اس مال میں برکت ہوجاتی ہے اور اس کی نحوست وگندگی دور ہوجاتی ہے، صدقہ وخیرات سے مال میں برکت کیسے ہوتی ہے؟ اس سلسلہ میں حدیث شریف میں ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص جنگل میں کھڑا تھا اس نے بادل میں سے ایک آواز سنی، جو بادل کو حکم دے رہی تھی کہ فلاں شخص کے باغ کو سیراب کر، بادل کا ایک ٹکڑا علیحدہ ہوکر چلا، وہ شخص بھی اس کے پیچھے ہولیا، بادل پتھریلی زمین پر برسا، وہاں سے ایک نالی میں سارا پانی اکٹھا ہوگیا، وہ شخص اس نالی کے ساتھ ہولیا، پانی ایک باغ میں پہنچا، وہاں ایک شخص ہاتھ میں بیلچہ لیے ہوئے سینچائی کررہا تھا، اس شخص نے باغ والے سے پوچھا کہ اے اللہ کے بندے! آپ کا نام کیا ہے؟ اس نے اپنا وہ نام بتایا جو اس شخص نے بادل میں سنا تھا، باغ والے نے اس شخص سے پوچھا کہ آپ میرا نام کیوں پوچھتے ہو؟ اس نے سارا ماجرا سنایا اور دریافت کیا کہ آپ کیا عمل کرتے ہیں، جو خصوصی طور پر آپ کے باغ کے لیے بارش برسی؟ باغ والے نے کہا کہ جب میرا راز تجھے معلوم ہوگیا تو سن! میں باغ کی پیداوار کے تین حصے کرتا ہوں، ایک تہائی خیرات کرتا ہوں، ایک تہائی اپنی ضروریات میں خرچ کرتا ہوں اور ایک تہائی باغ کی ترقی میں خرچ کرتا ہوں۔ (مسلم، باب الصدقۃ فی المساکین: ۵۲۹۹۔ مسنداحمد، ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ: ۷۹۲۵) (دوسرا فائدہ) زکوٰۃ کی ادائیگی سے بندے پر رحمتِ خداوندی کا فیضان ہوتا ہے اور اللہ کی ناراضگی دور ہوتی ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: خیرات یقینا پروردگار کے غصہ کو بجھاتی ہے اور بری موت کو ہٹاتی ہے جس طرح دنیا کی مادی چیزوں جڑی بوٹیوں تک کے خواص اور اثرات ہوتے ہیں، اسی طرح انسانوں کے اچھے برے اعمال واخلاق کے بھی خواص اور اثرات ہیں جو انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ ہی معلوم ہوتے ہیں۔ (ترمذی، باب ماجاء فی فضل الصدقۃ، حدیث نمبر:۶۰۰، شعب الایمان، حدیث نمبر:۳۲۰۲) (تیسرا فائدہ) بخل وحرص پر آخرت میں جو عذاب ہونے والا ہے زکوٰۃ اس کو ہٹادیتی ہے؛ کیونکہ صحیح زکوٰۃ ادا کرنے والے میں حرص وبخل کے رذائل پنپ نہیں سکتے، انہیں دیرسویر اس شخص کا پیچھا چھوڑنا ہے اور جب یہ رذائل ختم ہوگئے تو آخرت میں عذاب کا سوال بھی باقی نہیں رہتا۔ (حجۃ اللہ البالغہ، باب اسرارالزکاۃ:۱/۱۵۵، مصنف: حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ) (چوتھا فائدہ) ملأاعلی کے وہ فرشتے جو زمین کے احوال سنوارنے کی محنت کرتے ہیں وہ صدقہ خیرات کرنے والے کے حق میں دعائیں کرتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ہرصبح دوفرشتے آسمان سے اترتے ہیں ایک کہتا ہے: "اللّٰھُمَّ اَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفاً"۔ (اے اللہ! خرچ کرنے والے کو عوض دے)۔ اور دوسرا کہتا ہے : "اللّٰھُمَّ اَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا" (اے اللہ! مال روکے رکھنے والے کا مال تباہ کردے)۔ (بخاری، باب قول اللہ تعالیٰ فاما من اعطی، حدیث نمبر:۱۳۵۱۔ مسلم، حدیث نمبر:۱۶۷۸) (پانچواں فائدہ) زکوٰۃ وصدقہ وغیرہ کی ایک برکت قیامت کے دن یہ ظاہر ہوگی کہ صدقہ کرنے والے کے لیے اس کا صدقہ سائبان بن جائیگا، جو اس دن کی تپش اور تمازت سے اس کو بچائے گا۔ حضرت مرثد بن عبداللہ تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسو ل اللہؐ کے بعض اصحاب کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی ہے کہ قیامت کے دن مؤمن پر اس کے صدقہ کا سایہ ہوگا۔ (مسنداحمد، باب حدیث رجل من اصحاب النبیﷺ، حدیث نمبر:۱۸۰۷۲۔ صحیح ابن خزیمہ، حدیث نمبر:۲۲۳۶) اللہ تعالیٰ ان حقیقتوں کا یقین اور اس کے مطابق عمل نصیب فرمائے، آمین۔ (چھٹا فائدہ) اللہ کی راہ میں جتنا صدقہ کریگا اس کو اس کا کئی گنا اللہ تعالیٰ عطا فرمائیگا، حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے عر ض کیا حضرت ﷺ بتلائیے کہ صدقہ کیا ہے؟ (اللہ کی طرف سے اس کا کیا اجرملنے والا ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: چند درچند (جتنا کوئی اللہ کی راہ میں صدقہ کرے اس کا کئی گنا اس کو ملے گا) اور اللہ کے ہاں بہت ہے۔ (مسنداحمد، باب حدیث ابی امامۃ، حدیث نمبر:۲۲۳۴۲) زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر وعید حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس آدمی کو اللہ تعالیٰ نے دولت عطا فرمائی پھر اس نے اس کی زکوٰۃ نہیں ادا کی تو وہ دولت قیامت کے دن اس آدمی کے سامنے ایسے زہریلے ناگ کی شکل میں آئیگی جس کے انتہائی زہریلے پن سے اس کے سرکے بال جھڑگئے ہونگے اور اس کی آنکھوں کے اوپر دوسفید نقطے ہونگے (جس سانپ میں یہ دوباتیں پائی جائیں، وہ انتہائی زہریلا سمجھا جاتا ہے) پھر وہ سانپ اس (زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے بخیل) کے گلے کا طوق بنادیا جائیگا (یعنی اس کے گلے میں لپٹ جائیگا) پھر اس کے دونوں جبڑے پکڑے گا اور کہے گا کہ میں تیری دولت ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں… یہ فرمانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی: "وَلَایَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآاٰتٰھُمُ اللہ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَخَیْرًالَّھُمْط بَلْ ھُوَشَرٌّلَّھُمْط سَیُطَوَّقُوْنَ مَابَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِط"۔ ( آل عمران: ۱۸۰) "اور نہ گمان کریں وہ لوگ جو بخل کرتے ہیں اس مال ودولت میں جو اللہ نے اپنے فضل وکرم سے ان کو دیا ہے (اور اس کی زکوٰۃ نہیں نکالتے) کہ وہ مال ودولت ان کے حق میں بہتر ہے؛ بلکہ انجام کے لحاظ سے وہ ان کے لیے بدتر ہے اور شر ہے قیامت کے دن ان کے گلوں میں طوق بناکے ڈالا جائیگا وہ دولت جس میں انہوں نے بخل کیا (اور جس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی)۔ (بخاری، باب اثم مانع الزکاۃ، حدیث نمبر:۱۳۱۵۔ نسائی، باب مانع زکاۃ مالہ، حدیث نمبر:۲۴۳۵۔ مسنداحمد، حدیث نمبر:۸۶۴۶) اس حدیث میں نیز آل عمران کی مندرجہ بالا آیت میں یوم القیامۃ کا جو لفظ ہے، اس سے مفہوم ہوتا ہے کہ یہ عذاب دوزخ یاجنت کے فیصلے سے پہلے حشر میں ہوگا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی کی ایک دوسری حدیث میں (جس کو امام مسلم نے روایت کیا ہے) زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے ایک خاص طبقہ کے اسی طرح کے ایک خاص عذاب کے بیان کے ساتھ آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں: "حَتٰی یُقْضٰی بَیْنَ الْعِبَادِ فیُرٰی سَبِیْلَہٗ إِمَّا اِلی الْجَنَّۃِ وَإِمَا الی النَّارِ"۔ (مسلم، باب اثم مانع الزکاۃ، حدیث نمبر:۱۶۴۷) اس عذاب کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ حساب کتاب کے بعد بندوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائیگا، اس فیصلہ کے بعد یہ آدمی یاجنت کی طرف چلاجائیگا یادوزخ کی طرف (جیسا بھی اس کے حق میں فیصلہ ہوگا)۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ مال زکوٰۃ جب دوسرے مال میں مخلوط ہوگا تو ضرور اس کو تباہ کردیگا۔ (سنن کبری للبیہقی، باب الھدیۃ للوالی بسبب، حدیث نمبر:۷۹۱۶۔ شعب الایمان، حدیث نمبر:۳۳۶۷) امام حمیدی رحمہ اللہ جو امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ ہیں انہوں نے اپنی مسند میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت نقل کر کے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اگر کسی آدمی پر زکوٰۃ واجب ہو اور وہ اس کو ادا نہ کرے تو بے برکتی سے اس کا باقی مال بھی تباہ ہوجائیگا۔ (مسندحمیدی، باب مسند عائشۃ، حدیث نمبر:۲۵۲ عن عائشہؓ)