انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مسجد نبوی کی توسیع ۱) عہد نبوی میں ۷ ہجری میں غزوہ خیبر کے بعد حضور اکرم ﷺ نے مصلیوں کی کثرت کی وجہ سے توسیع فرمائی ، ۲) دوسری توسیع خلیفہ دوم حضرت عمرؓ فاروق کے عہد میں ۱۷ ہجری مطابق ۶۳۸ ء میں ہوئی ، ۳) حضرت عثمانؓ خلیفہ سوم نے ۲۹ ہجری مطابق ۶۹۵ء میں مسجد کی توسیع کروائی، ۴) اُموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے عہد حکومت میں۸۸ ہجری سے ۹۱ ہجری تک توسیع کا کام جاری رہا، ۵) خلیفہ عباسی مہدی بن منصور نے ۱۶۱ ہجری تا ۱۶۵ ہجری مسجد میں تعمیری اضافے کئے، ۶) رمضان ۶۵۴ ہجری میں مسجد میں آتش زدگی کی وجہ سے بہت نقصان پہنچا، عباسی خلیفہ مستعصم باﷲ نے ۶۵۵ ہجری میں تعمیر کروائی، ۷) مصری خلیفہ ملک ناصر محمد بن قلاوون نے ۷۰۵ ہجری میں مسجد کی چھت درست کروائی اور ۷۲۹ ہجری میں دو برآمدوں میں اضافہ کیا ، ۸) ۸۵۳ ہجری میں خلیفہ ظاہر نے مسجد کی چھت میں تعمیری کام کروایا ، ۹) ۸۷۹ ہجری میں ملک اشرف نے محراب کو وسیع کیا اور باب جبریل کی دیوار بھی تعمیر کروائی ، ۱۰ ) عثمانی خلیفہ سلطان سلمان نے ۹۷۴ ہجری میں مسجد کی دیواریں منقش کروائیں، ۱۱) عثمانی خلیفہ سلطان سلیم عثمانی نے ۹۸۰ ہجری میں حجرہ پر خوبصورت گنبد تعمیر کروایا، ۱۲) سلطان محمود نے گنبد کو ازسر نو تعمیر کرواکر سبز رنگ لگوایا جس کی وجہ سے یہ " گنبد خضراء کہا جانے لگا، ۱۳ ) خلیفہ عثمانی سلطان عبدالمجید نے مسجد کی تعمیر و مرمت کروائی اور ستونوں کے نچلے حصہ پر سونے کے پتر چڑھائے ، یہ کام ۱۲۶۵ ہجری سے ۱۲۷۷ہجری تک جاری رہا، ۱۴) مصری حکومت نے ۱۳۵۲ ہجری تعمیر و ترمیم کروائی ، ۱۵) سعودی فرمانروا ملک عبدالعزیز نے مسجد میں تعمیر کام کروایا، ۱۶) سعودی دور حکومت میں ۱۳۶۸ہجری میں مسجد کی تعمیر اور توسیع کا منصوبہ بنایاگیا اور ۱۳۷۰ہجری میں دیواریں منہدم کی گئیں، جدید عمارت کی تعمیر کا سنگ بنیاد ۱۳۷۳ہجری میں رکھا گیا اور مسجد کی تعمیر شروع ہوئی ، مسجد کے رقبہ میں تقریباً ۵۵۰۰۰ مربع فیٹ کا اضافہ کیاگیا، جملہ ۳۲۷ ستونوں پر خوبصورت عمارت تعمیر کی گئی۔ صُفّہ اور اصحاب صُفّہ مسجد نبوی کے ایک گوشہ میں ایک چبوترہ بنا کر اس پر کھجور کے پتوں کا چھپر ڈال دیا گیا، اسے صُفّہ کہتے تھے، قدیم مورخین نے اسے ظِلّہ بھی لکھا ہے،یہ ایک طرح سے اقامتی درس گاہ تھی ، یہاں دن میں تعلیم دی جاتی اور رات میں بے آسر ا مہاجر شب بسر کرتے ، یہ اُن مسلمانوں کی قیام گاہ تھی جنھوں نے اپنی زندگی تعلیم دین، تبلیغ اسلام ، جہاد اور دوسری اسلامی خدمات کے لئے وقف کر دی تھی، حضرت معاذؓبن جبل اس کے منتظم اعلیٰ اور نگراں تھے، اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ صحابہؓ کرام بھی درس و تدریس کا فرض انجام دیتے تھے، صُفّہ کی درس گاہ سے بڑے بڑے با کمال صحابہ نکلے جن میں مقیم اور غیر مقیم دونوں شامل ہیں جیسے فقیہ الامت حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود اور امام المحدثین حضرت ابو ہریرہؓ ، حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ستّر (۷۰) اصحاب صُفّہ میں سے کسی ایک کو بھی نہ پایا جس کے پاس لمبی چادر ہو یاتہ بندہوتی تھی یا چھوٹی چادر جس کا سرا وہ اپنی گردن سے باندھ لیتے تھے اور دوسرا ہاتھ سے تھام لیتے تھے کہ کہیں ستر نہ کھل جائے ، یہ چادرکسی کی آدھی پنڈلیوں تک پہنچتی تھی او ر کسی کے ٹخنوں تک، یہ اپنی بے سرو سامانی کی وجہ سے زراعت یا تجارت نہ کر سکتے تھے مگر کچھ لوگ جنگل میں نکل جاتے اور لکڑیاں چن کر اور انہیں بیچ کر اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لئے کھانے پینے کا سامان مہیا کرتے تا ہم کئی سو صحابہ کی یہ جماعت اس طرح اپنی معاشی ضروریات پوری نہ کر سکتی تھی اس لئے فقر و فاقہ کی زندگی گزارتے مگر کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے روادار نہ ہوتے بلکہ دوسروں پر اپنی محتاجی و پریشانی کا اظہار بھی نہ ہونے دیتے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان کی فکر سے کس طرح آزاد رہ سکتے تھے، ایک جماعت کو خو د اپنا مہمان بنالیتے اور اپنے ساتھ دستر خوان پر بٹھا کر کھانا کھلاتے اور بقیہ کو دوسرے مالدار صحابہ کے حوالہ کر دیتے ( زرقافی ج ا ، بحوالہ سیرت طیبہ) حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ: ایک روز رات گئے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا: میرے اصحاب کو بلا لو،ان میں سے اکثر سو گئے تھے میں نے ایک ایک کو جگا یا ، حضور ﷺ نے ایک بڑے پیالہ میں جَو کا تیار کیا ہوا کھانا سامنے رکھ دیا اور اس پر ہاتھ رکھ کر برکت کی دعا فرمائی، ہم سب نے اسے سیر ہو کر کھایا اور پھر بھی وہ اتنا کا اتنا ہی باقی رہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یوں بھی ان کی تسلی اور دل دہی فرماتے رہتے ، حضرت ابن عباس ؓراوی ہیں کہ ایک دن حضور ﷺ نے اہل صُفّہ کی محتاجی اور پریشان حالی کو دیکھا تو ان کو اس طرح تسلی دی : " اے اہلِ صُفّہ بشارت ہو ، ( تم ہی نہیں ) میری اُمت میں سے جو کوئی فقر و فاقہ میں صبر و شکر کی زندگی اس طرح بسر کرے گا جس طرح تم کرتے ہو وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا" اصحاب صُفّہ کی مجموعی تعداد جو مختلف اوقات میں صُفّہ میں مقیم رہی چار سو کے قریب ہے۔