انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ابن جریج ابن جریج نے آنھ کوھلی توصحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی ایک معتدبہ تعداد موجود تھی؛ اگروہ ان کی صحبت اختیار کرتے توان کا شمار زمرۂ تابعین میں ہوتا؛ مگرابتداء میں ان کوشعروادب سے دلچسپی تھی، اس لیئے وہ ان سے کسب فیض نہ کرسکے، اس لیئے ان کوتبع تابعین میں شمار کیا گیا ہے، ان کا شمار تبع تابعین کے اس زمرہ میں ہوتا ہے، جنہوں نے تفسیر وحدیث کی تدوین وترتیب میں حصہ لیا، خاص طور پرعلم تفسیر میں یہ اپنے معاصرین میں ممتاز تھے، تفسیر طبری میں سینکڑوں روایات ان کے واسطہ سے ملیں گی، یہ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد عطاء بن ابی رباح کے خاص شاگرد تھے۔ نام ونسب عبدالملک نام، ابوالولید اور ابوخالد کنیت تھی، ان کا آبائی وطن روم تھا۔ (تاریخ بغداد:۱۰/۲۰۱) (فجرالاسلام کے مصنف نے بھی انہیں اہلِ کتاب تبع تابعین شمار کیا ہے) اسی وجہ سے بع ضلوگ انہیں رومی عیسائی کہتے ہیں۔ (شذرات الذہب:۱/۲۲۶) بعثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت پہلے سے مکہ میں متعدد رومی غلام خاندانموجود تھے، غالباً ان ہی میں ابن جریج کا خاندان بھی تھا، یہیں سنہ۸۰ھ میں ان کی ولادت ہوئی۔ تعلیم وتربیت مکہ میں اس وقت شعروادب اور حدیث وفقہ کا عام چرچا تھا، ابتدا میں ان کوشعروادب سے دلچسپی پیدا ہوئی اور جوانی کا پورا زمانہ اسی وادی میں گذاردیا، عمر کے ڈھلنے کا زمانہ آیا توکسی نے علومِ دینیہ کی طرف توجہ دلائی، اس کے بعد پوری زندگی اسی کی نذر کردی، مکہ میں اس وقت حضرت عبداللہ بن عباس رض اللہ عنہ کے ممتاز شاگرد عطاء بن ابی رباح کا چشمہ فیض جاری تھا، حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سماع کے لیئے سب سے پہلے ابن جریج انہی کی خدمت میں حاضر ہوئے، خود بیان کرتے ہیں کہ میں عطاء بن ابی رباح کی خدمت میں یہ جذبہ لے کرحاضر ہوا کہ میں بھی ان کا مرتبہ حاصل کرونگا، اتفاق سے اس وقت ان کی خدمت میں عبداللہ بن عبید بھی موجود تھے (یہ حضرت عبید بن عمر کے لڑکے اور عطا کے شاگرد تھے) انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ قرآن حفظ کرلیا ہے؟ میں نے نفی میں جواب دیا، بولے جاؤ پہلے قرآن پڑھ لو؛ پھرعلم (حدیث) کا قصد کرو، میں واپس آکرقرآن کی تعلیم میں لگ گیا، کچھ دنوں بعد پھران کی خدمت میں حاضر ہوا، اتفاق سے اس دن بھی عبداللہ موجود تھے، پوچھا کہ پورا قرآن مستحضر ہوگیا؟ میں نے اثبات میں جواب دیا؛ انہوں نے دوسرا سوال یہ کیا کہ فرائض بھی سیکھے ہیں بولا نہیں؛ انہوں نے کہا جاؤ پہلے فرائض کی تحصیل کرو؛ پھرواپس آو؛ چنانچہ میں واپس چلا گیا اور کچھ دنوں کے بعد واپس آیا تومجھے عطا کی صحبت میں کسب علم کی اجازت ملی اور پھرسترہ برس تک ان کی خدمت میں رہا۔ (شذرات:۱/۲۲۸۔ تاریخ بغداد:۱۰/۴۰۲) اس واقعہ سے کئی باتیں سامنے آتی ہیں، ایک یہ کہ حضرت عطاء ہرکس وناکس کواپنے درس میں شریک نہیں کرتے تھے؛ بلکہ اس کے لیئے انہوں نے کم ازکم قرآن کے حفظ اور درس کے عام مفہوم ومعنی کے استحضار کوضروری قرار دیا تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے درس کی سب سے بڑی خصوصیت جیسا کہ ابن سعد نے لکھا ہے قرآن کی تفسیر اور اس کے دقائق ومعانی کی تعلیم تھی، ظاہر ہے کہ جوشخص قرآن سے بالکل نابلد ہو وہ ان کے درس سے کیا فائدہ اُٹھا سکتا تھا؟۔ دوسرے اس واقعہ سے ابن جریج کے شوق وانہماک کا پتہ چلتا ہے کہ ان کودوبار مجلسِ درس سے واپس کیا گیا؛ مگرہربار ان کا جذبہ شوق کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی رہا اور پھراسی شوق نے انہیں سترہ برس تک اپنے استاد سے جدا نہ ہونے دیا، اتنی مدت ان کی خدمت میں رہنے کے بعد بھی ان کے جذبہ طلب کوتسکین نہیں ہوئی اور سات برس تک مکہ کے دوسرے ممتاز شیخ عمروبن دینار کی خدمت میں رہے اور پھرمکہ سے نکل کرانہوں نے مدینہ، بصرہ، بغداد، یمن ، شام اور مصر کی خاک چھانی اور وہاں کے تمام ممتاز شیوخ سے استفادہ کیا، ان کے مخصوص شیوخ تفسیر وحدیث کے نام یہ ہیں: اساتذہ عطاء بن ابی رباح، امام زہری، صالح بن کیسان، عمروبن دینار، نافع مولی بن عمر، ہشام بن عروہ ،موسیٰ بن عقبہ، امام جعفر صادق، یحییٰ بن سعید الانصاری، امام اوزاعی، لیث بن سعد وغیرہم۔ علم وفضل ان کے علم وفضل کے باہرمیں آئمہ نے جورائیں دی ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اس لحاظ سے معروف تھے، ان کے شیخ عطاء بن ابی رباح ان کواہلِ حجاز کا سردار کہتے تھے (تہذیب التہذیب:۳/۴۰۴) امام احمد ان کو علم کا ظرف کہتے تھے (تہذیب التہذیب:۳/۴۰۴) امام ذہبی نے انہیں امام، حافظ حدیث اور احد الاعلام (بڑوں میں ایک تھے) لکھا ہے، امام نووی نے لکھا ہے کہ ان کے فضائل ومناقب بے شمار ہیں۔ علمِ تفسیر علم تفسیر میں جوصحابہ ممتاز تھے ان میں حضرت عبداللہ بن عباس کا نام سرِفہرست ہے، تابعین میں ان کے جوتلامذہ علم تفسیر میں مشہور ہوئے ان میں عطاء بن ابی رباح بھی ہیں، اُوپرذکر آچکا ہے کہ ابن جریج ان کے بہت ہی چہیتے شاگرد تھے اور سترہ برس تک ان کی خدمت میں رہے تھے، ظاہر ہے کہ علم تفسیر کا جوسرمایہ عطا بن ابی رباح کوحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ملا تھا اس سے ابن جریج کوبھی وافر حصہ ملا ہوگا؛ مگرتعجب یہ ہے کہ ارباب تذکرہ ان کی اس خصوصیت کا کوئی ذکر نہیں کرتے؛ البتہ علوم تفسیر کی کتابوں میں انہی کی قرآن فہمی کے بارے میں اشارات ملتے ہیں، امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ نسلاً رومی تھے، ارباب تذکرہ جب کسی کے بارے میں رومی یاقبطی لکھتے ہیں تواس سے عموماً عیسائی ہی مراد لیئے جاتے ہیں یعنی ان کی وطنی نسبت کوان کی دینی نسبت کے مترادف سمجھا جاتا ہے، غالباً اسی بناپر صاحب فجرالاسلام نے لکھا ہے کہ یہ نصرانی تھے؛ کیونکہ طبری نے نصاریٰ کے بارے میں جوروایتیں اپنی کتاب میں درج کی ہیں، ان میں بیشتر ابن جریج ہی کے ذریعہ مروی ہیں۔ (فجرالاسلام:۲۴۶) علم تفسیر میں گویہ ترجمان القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مدرسہ فیض سے مستفیض ہوئے تھے؛ مگران کی تفسیر پرمفسرین نے زیادہ اعتماد کا اظہارنہیں کیا ہے، امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: فأما ابن جريج فإنه لم يقصد الصحة، وإنما روى ماذكر في كل آية من الصحيح والسقيم۔ (الاتقان فی علوم القرآن:۴/۲۳۸، شاملہ، موقع مكتبة المدينة الرقمية۔ دیگرمطبوعہ:۲/۱۸۵) ترجمہ:ابنِ جریج نے تفسیرمیں زیادہ صحت کا اہتمام نہیں کیا، وہ ہرآیت کی تفسیر میں غلط صحیح ہرطرح کی روایتیں نقل کردیتے ہیں۔ عموماً علمائے اُمت، اہلِ کتاب، مفسرین کے بارے میں اس طرح کی رائے دیتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان حضرات کا ماخذ عموماً اسرائیلیات ہوتا تھا، جس کا سارا تارپود قصہ وافسانہ ہوتا تھا، جن میں نہ صحت سند کا کوئی لحاظ کیا جاتا تھا اور نہ درایت ہی سے کوئی واسطہ ہوتا تھا، ایسے لوگ جب مسلمان ہوئے تواسلامی روایات کے بارے میں بھی ان کی ذہنیت کسی نہ کسی حد تک باقی رہی جس کی وجہ سے غلط روایات کا ایک بہت بڑا ذخیرہ اسلامی علوم میں شامل ہوگیا، خصوصیت سے علمِ تفسیر کے سلسلہ میں جوقصے وافسانے احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے اور جوغلط روایات رواج پذیر ہوئیں، اس میں انہی اہلِ کتاب تابعین وتبع تابعین کا زیادہ ترہاتھ تھا۔ بہرِحال سقم وغلطی کے باوجود علم تفسیر میں ابنِ جریج کا درجہ ورتبہ ہے، تمام مفسرین ان کی رائے نقل کرتے ہیں، خاص طور سے علامہ طبری نے توبے شمار جگہ ان کے اقوال نقل کئے ہیں اور ان کی مرویات سے استدلال کیا ہے، افسوس ہے کہ فن تفسیر میں ان کی تحریری یادگار موجود نہیں ہے، جس سے اس فن میں ان کے مرتبہ کا کا آسانی سے اندازہ لگایا جائے، فن قرأت میں بھی ان کومہارت تھی، ابن حبان نے ان کا شمار قراء اہلِ حجاز میں کیا ہے۔ علمِ حدیث علم حدیث میں ابن جریج نے ممالکِ اسلامیہ کے تقریباً تمام مشہور آئمہ سے استفادہ کیا تھا، خاص طور سے عطاء ابن ابی رباح اور عمروبن دینار کی حدمت میں وہ برسوں رہے تھے؛ اسی لیے اس فن میں بھی ان کا ایک مرتبہ ہے، ان کی روایات کوآئمہ حدیث نے قبول کیا ہے، امام احمد بن حنبل فرماتے تھے کہ ابن جریج نے عطا سے جوروایتیں کی تھیں، ان میں انہوں نے غَطی نہیں کی ہے، خود ان کے استاد عطاء کوبھی ان پربڑا اعتماد تھا، کسی نے پوچھا کہ آپ کے بعد مسائل میں ہم کس کی طرف رجوع کیا کریں، بولے کہ ابن جریج کی طرف؛ پھرکہا کہ یہ اہلِ حجاز کے بہترین نوجوان ہیں۔ (تہذیب، جلد اوّل) ابن مدینی کہتے تھے کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات کا دارومدار چھ آدمیوں پر ہے؛ پھران چھ آدمیوں کا علم ان لوگوں کے درمیان سمٹ گیا، جنھوں نے علم حدیث کی تدوین کی اور ان تدوین کرنے والوں میں ایک ابن جریج بھی ہیں۔ (تہذیب، جلد اوّل) بعض معاصرآئمہ نے ان پرجرح بھی کی ہے اور ان کی مرویات کوضعیف قرار دیا ہے، یحییٰ بن سعید قطان سے کسی نے پوچھا کہ ان کی روایات کیسی ہیں؟ فرمایا کہ ضعیف پھرپوچھا کہ وہ جب اخبرنی کے لفظ سے روایت کریں تفرمایا کہ یہ کوئی چیز نہیں ہے، ان کی مرویات بہرحال ضعیف ہیں (جن الفاظ سے ائمہ رایت کرتے ہیں ان میں ایک اخبرنی بھی ہے)۔ ابوزرعہ رازی نے بھی ان کی تضعیف کی ہے، امام مالک رحمہ اللہ ان کوحاطب الیل (ہرغلط وصحیح روایات کا جامع) کہتے تھے؛ مگران کے بارے میں جرح کے جوالفاظ منقول ہیں ان میں کسی حد تک مبالغہ معلوم ہوتا ہے، فن حدیث میں ان کے مرتبہ کی تعیین کے لیئے یحییٰ بن معین امام جرح وتعدیل اور امام ذہلی کی رائیں زیادہ محتاط اور صحیح معلوم ہوتی ہیں، ابن معین فرماتے ہیں کہ ابنِ جریج نے جوروایتیں تحریر کی مدد سے بیان کی ہیں وہ قابل اعتماد ہیں۔ (تہذیب:۲/۴۰۶) مقصد یہ ہے کہان کی زبانی مرویات زیادہ قابل اعتماد نہیں ہیں، غالباً اس کی وجہ یہ ہوگی کہ ان کا حافظہ معمولی درجہ کا تھا، اس لیے ان کوزبانی روایتیں اچھی طرح یاد نہیں رہتی تھیں، یحییٰ بن سعید جن کی جرح اوپر گذرچکی ہے، تحریری روایت کے بارے میں یہ بھی ابنِ معین کے ہم خیال تھے۔ (تہذیب:۶/۴۰۴) امام ذہلی کہتے تھے کہ ان کی زبانی روایتیں وہی قابل وثوق ہیں جن میں یہ حدثنی یاسمعتُ کے الفاظ استعمال کریں۔ (تہذیب:۶/۴۰۴) ان تمام راویوں کوپیشِ نظر رکھا جائے تواندازہ ہوگا کہ ائمہ نے حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی جمع وترتیب میں کس قدر احتیاط برتی ہے اور ضعیف وکمزور روایتوں کواس پاکیزہ ذخیرہ سے علیحدہ کرنے میں کتنا اہتمام کیا ہے؛ اگرکسی مسلم امام حدیث سے بھی اس بارے میں کوئی لغزش ہوجاتی تھی تواس کی لغزش کوواضح کرنے میں انہوں نے کبھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ہے۔ فقہ ابنِ حبان نے ان کوفقہائے اہلِ حجاز میں شمار کیا ہے، امام نووی نے لکھا ہے کہ شافعی طرزِ فقہ کی داغ بیل جن ائمہ نے امام شافعی سے پلے ڈالی ان میں ابن جریج کا بھی شمار ہے، امام نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ امام شافعی نے فقہ میں جن لوگوں سے استفادہ کیا تھا، ان میں مسلم خانجی بھی شامل تھے، جوابنِ جریج کے تربیت یافتہ تھے۔ (تہذیب الاسماء:۲/۲۹۸) تصنیف ان کا شمار ان ائمہ میں ہوتا ہ جنہوں نے علومِ دینیہ کی تدوین وترتیب میں حصہ لیا، ارباب تذکرہ نے ان کی کسی کتاب کا نام نہیں لیا ہے؛ البتہ ابنِ ندیم نے لکھا ہے کہ ان کی متعدد تصانیف ہیں، ان کی ایک کتاب کتاب السنن ہے، اس کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ اس طرز پرلکھی گئی ہے جس پرعام کتب سنن لکھی گئی ہیں، یعنی ہرہرباب جدا جدا ہے، مثلاً: باب طہارت، باب الصلوٰۃ وغیرہ (ابنِ ندیم) ان کی ایک تفسیر کی کتاب کا ذکر کشف الظنون میں بھی ہے۔ ان کی تصانیف کے بارے میں عام اہلِ تذکرہ امام احم کی یہ رائے نقل کرتے ہیں کہ: أول مَن صَنَّف الكُتب ابن جريج، وابن أبى عروبة۔ (تہذیب الأسماء:۳/۱۸۹، شاملہ، موقع الکتب:ملف وورد أهداه بعض الأخوة للبرنامج۔ دیگرمطبوعہ:۲/۱۹۸) ترجمہ:سب سے پہلے جن لوگوں نے الگ الگ عنوانات پرکتابیں تصنیف کیں ان میں ابنِ جریج اور ابن ابی عروبہ سب سے مقدم ہیں۔ مگر ہمارے سامنے اسلامی علوم کی جمع وتدوین کی جوتاریخ ہے اس کی روشنی میں یہ رائے صحیح نہیں معلوم ہوتی، ان بزرگوں سے بہت پہلے سے تمام اسلامی علوم، تفسیر وحدیث وغیرہ پرتصنیف وتدوین کا کام شروع ہوگیا تھا، اس بارے میں یاتوابن عماد کی یہ رائے صحیح ہے کہ: أول مَنْ صنَّف الكتب بالحجاز۔ (شذرات الذهب في أخبار من ذهب،ابن العماد:۱/۲۲۰، شاملہ) ترجمہ:حجاز میں سب سے پہلے ابنِ جریج نے جمع وتدوین کا کام شروع کیا۔ یاپھریہ کہا جائے کہ ابتداءً جن لوگوں نے حدیث اور فقہ پرکتابیں لکھیں ان میں موضوع وعنوان کی تقسیم نہیں تھی؛ بلکہ جس کوتفسیر، حدیث اور فقہ کا جوذخیرہ جس طرح مل گیا اس نے اسے اسی طرح مرتب کردیا، ابنِ جریج کا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اس میں فنی ترتیب قائم کرکے موضوع کے اعتبار سے حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کوجمع کیا، چنانچہ خود بھی کہا کرتے تھے کہ میری طرح کسی نے علم کی تدوین نہیں کی۔ (تاریخ بغداد:۱۰/۴۰۲) ان کی کتابیں ان کی زندگی ہی میں مشہور ہوچکی تھیں اور لوگ ان سے استفادہ کرنے کے لیے دور دور سے سفر کرتے تھے، خالد بن نزار کہتے ہیں کہ میں سنہ۱۵۰ھ میں وطن سے اس ارادہ سے نکلا کہ ابنِ جریج کی کتابیں حاصل کروں؛ مگرجب منزلِ مقصود پرپہنچا تومعلوم ہوا کہ چند دن پہلے ان کا انتقال ہوچکا۔ (تاریخ بخداد:۱۰/۴۷۳) عادات واخلاق ان کے اوپرخشیتِ ربانی کی کیفیت ہروقت طاری رہتی تھی، مشہور محدث عبدالرزاق کا بیان ہے کہ جب میں ان کودیکھتا تھا توصاف معلوم ہوتا تھا کہ یہ خدا سے ڈرتے ہیں، میں نے ان کے جیسا بہترنمازی نہیں دیکھا (صفوۃ الصفوۃ:۲/۲۳) ظاہر ہے کہ نماز کی روح خشوع وخضوع اور خشیتِ الہٰی ہے، جس کے اوپر یہ کیفیت ہمہ وقت طاری رہتی ہو وہ نماز میں سراپا خشیت کیوں نہ بن جاتا ہوگا؟ ان کی اسی خشیتِ الہٰی کا اثر تھا کہ وہ شب زندہ دار ہوگئے تھے، امام مالک رحمہ اللہ ان کی شب بیداری کی وجہ سے ان کوصاحب اللیل (رات میں عبادات کرنے والا) کہتے تھے۔ (صفوۃ الصفوۃ:۲/۲۳) روزے سے بے انتہا شغف تھا، پورے سال روزے رہتے تھے، ہرماہ میں صرف تین دن روزے وہ چھوڑدیا کرتے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ) طبیعت بہت رقیق اور اثرپذیر پائی تھی، یمن کے زمانۂ قیام میں حج کی سعادت سے محروم رہے تھے، ایک دن عمروبن ابی ربیعہ کے چند اشعار یاد آگئے، جن میں طول ہجر کی شکایت تھی، ان اشعار کا یاد آنا تھا کہ فوراً زیارتِ حرمین کے لیئے کمربستہ ہوگئے؛ اسی وقت اپنے استاد معن بن زائدہ کے پاس آ:ے اور اُن سے اپنے ارادہ کا اظہار کیا، استاد نے کہا کہ تم نے پہلے کیوں نہ اطلاع دی؛ انہوں نے اتنی جلدی قصد کرلینے کا سبب بتایا تواستاد نے جلدی جلدی ان کے لیے سامانِ سفر کا انتظام کیا اور وہ دیارِ محبوب کی زیارت کے لیے روانہ ہوگئے۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۴۰۴) علم کے حصول کا مقصد ایک بار متعدد ائمہ کا مجمع تھا، امام اوزاعی رحمہ اللہ بھی موجود تھے، ولید بن مسلم نے پوچھا کہ آپ حضرات نے علم کس کے لیے حاصل کیا ہے، سب نے کہا کہ اپنی ذات کے لیئے؛ مگرابنِ جریج بولے کہ میں نے علم لوگوں کے فائدہ کے لیے حاصل کیا ہے۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۴۰۴) نفاستِ طبع خوشبو کے استعمال کے عادی تھے، اس کے ساتھ خضاب کا بھی استعما کرتے تھے۔ وفات زندگی کے بیشترایام انہوں نے جوارِ حرم میں گذارے؛ مگرآخر عمر میں بصرہ چلے گئے اور وہاں پہنچ کرسلسلۂ درس شروع کردیا؛ مگرعمر نے وفانہ کی اور شروع ذوالحجہ سنہ۱۵۰ھ میں انتقال ہوگیا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۵۳،۵۷) اولاد دوصاحبزادے یادگار چھوڑے، دونوں صاحب علم وفضل تھے۔