انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** دینی خلافت اوردنیوی سلطنت کا فرق خلافت کے متعلق جو کچھ اوپر مذکور ہوچکا ہے اس سے یہ شبہ گزر سکتا ہے کہ خلافت محض بادشاہت اورسلطنت کا نام ہے تو ہر ایک بادشاہ کوخلیفہ کہا جاسکتا ہے اورخلافت کو مذہب سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے،لیکن معلوم ہونا چاہئے کہ مسلمانوں میں خلیفہ صرف اس بادشاہ یا حکمراں کو کہا جاسکتا ہے جو آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ حکومت وسلطنت کا وارث اورامر سلطنت میں آپ کا جانشین ہو اور اعمال دینیہ یعنی نماز، فتویٰ قضا عدالت احتساب جہاد وغیرہ کا مہتمم اورتکالیف شرعیہ پرعوام الناس کو آمادہ اورعمل کرنے کی ہدایت کرے ،شریعت اسلام مصالح دنیوی اورمصالح اخروی دونوں پر مشتمل ہے ،ایک غیر مسلم اوردنیوی بادشاہ کے ذریعہ جو نوع انسان کی خدمت اوررفاہ عام کا کام انجام پذیر ہوتا ہے اس سے بدرجہا بہتر یہ کام خلیفہ یعنی احکام رسول کے موافق حکومت کرنے والے کے ذریعہ انجام پاتا ہے،شریعت اسلام چونکہ اپنے پیر وکوہر دنیوی خوبی کا بھی وارث بتاتی ہے اس لئے وہ حکومت جو شرع اسلام کے موافق ہوگی بنی نوعِ انسان کے لئے زیادہ مفید اورزیادہ اچھی حکومت ہوگی، شریعت اسلام یہ بھی چاہتی ہے کہ مسلمان بنی نوع انسان اسی حکومت وسلطنت کے ماتحت زندگی بسر کریں جو شریعت اسلام کے موافق قائم ہو،لہذا خلافت کو شریعت اسلام سے خصوصی تعلق ہے،یہ کہنا کہ خلافت کو اسلام سے کوئی تعلق نہیں سراسر غلط اورنادر ست ہے، ایسی حکومت وسلطنت جو احکام شرع کے موافق قائم نہ ہو اور قہر وجبر نیز انسانی تدبیروں کی بنا پر اس کا قیام واستحکام ہو ہرگز بنی نوع انسان کے لئے اس قدر مفید وبابرکت ثابت نہیں ہوسکتی،جیسی کہ قانون شرع کے موافق قائم شدہ حکومت نوع انسان کے لئے موجب فلاح ثابت ہوتی ہے،پس ایسی حکومت جو قانون شرع کے موافق دنیا میں قائم رہی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کرام کی حکومت تھی اور دنیا میں اس سے پہلے یا اس کے بعد کوئی ایسی حکومت نظر نہیں آئی جو اصحاب نبی کریم کی حکومت سے بہتر اورنبی نوع انسان کے لئے زیادہ مفید ثابت کی جاسکے اسی حکومت وسلطنت کا نام خلافت راشدہ ہے اس کے بعد اگر خلافت کے نام سے حکومت اسلامی کا سلسلہ آج تک قائم ہے مگر اس میں تھوڑا یا بہت دنیوی سلاطین کا طرز وانداز شامل ہوتا رہا اور اسی نسبت سے شرعی حکومت اورقانون شرع کا رنگ ہلکا ہوتا رہا۔