انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اُستاذِ حدیث کی اِمتیازی نشست تابعی کبیرحضرت نصربن عمران ابوحمزہ (۱۲۸ھ) حضرت ابن عباسؓ کے شاگردوں میں سے ہیں، آپ فارسی زبان جانتے تھے اور حضرت ابنِ عباس کے مترجم کے فرائض بھی انجام دیتے تھے، آپ حدیث پڑھاتے وقت حضرت ابوحمزہ کو اپنے ساتھ بٹھاتے، امام بخاریؒ حضرت ابوحمزہ سے روایت کرتے ہیں: "کنت اقعد مع ابن عباسؓ" (بخاری:۱/۲۱) ترجمہ: میں حضرت ابنِ عباس کے پاس بیٹھتا تھا، آپ مجھے اپنے تخت پر (ساتھ) بٹھاتے تھے۔ شیخ الاسلام مولانا شبیراحمدعثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اس روایت پر فرماتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ ابن عباس سریر (تخت) پر بیٹھتے تھے.... اس سے معلم کے لیے امتیازی نشست گاہ کا ثبوت ملتا ہے (فضل الباری:۱/۵۵۰) شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ لکھتے ہیں کہ حضرت امام مالکؒ حدیث کے اعزاز میں خود ایک تخت پر بیٹھ کر اسے روایت کرتے، اس سے طالبین اور سامعین پرحدیث اور شیخ دونوں کاادب واحترام اور ہیبت وجلال طاری رہتا، آپ عمامہ سرپر رکھتے اور ایک تخت بچھایا جاتا؛ پھرآپ باہرتشریف لاتے، تخت پر خشوع وخضوع سے بیٹھتے، بخور جلایا جاتا؛ پھرجب تک حدیث کے بیان سے فارغ نہ ہوجاتے اسی ہیئت کے ساتھ بیٹھے رہتے۔ (دیکھئے مدارج النبوۃ:۱/۵۴۲) عالم کے لیے خود بھی اپنے علم کی عزت کرنا ضروری ہے، یہ اس لیے نہیں کہ وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھے؛ بلکہ اس لیے کہ جوعلم اس کے پاس ہے اس کی نسبت خدا اور اس کے رسول پاکﷺ کے ساتھ ہے، اب اس نسبت کے احترام میں وہ کبھی اپنے آپ کواہلِ دنیا کے سامنے متواضع نہ کرے، عالم میں خود ایک اپنا وقار ہونا چاہئے اور اپنے علم کاوقار قائم رکھتے ہوئے کبھی اہلِ دنیا کے دروازوں پر دستک نہ دے، حضرت علامہ عینیؒ لکھتے ہیں: "لاینبغی للعالم أن یاتی بعلمہ أھل الدنیا ولایتواضع لھم اجلالاً للعلم" (عمدۃ القاری:۲/۸۱) ترجمہ:عالم کے لیے مناسب نہیں کہ اپنا علم لے کراہلِ دنیا کے دروازوں پر جائے اور نہ ان کے سامنے اپنے آپ کوعاجز ظاہر کرے؛ تاکہ علم کا جلال (رعب واحترام) قائم رکھ سکے۔