انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** فضائل وخصائل ابونعیم نے بہ سند صحیح بیان کیا ہے کہ ایک روز رباح بن عبیدہ نے دیکھا کہ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نماز کے لیے جارہے ہیں اور ان کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی ان کے ہاتھ پرسہارا دیتے ہوئے چلا جارہا ہے، جب نماز سے فارغ ہوکر آپ اپنے مکان سے تشریف لے آئے تورباح نے پوچھا کہ وہ بوڑھا آدمی کون تھا جوآپ کے ہاتھ کا سہارا لیے ہوئے جارہا تھا، عمر بن عبدالعزیز نے یہ سن کرتعجب سے کہا کہ آہا تم نے بھی دیکھ لیا، تم بھی ایک صالح آدمی ہو؛ لہٰذا تم کوبتادینے میں کوئی حرج نہیں ہے، وہ خضر علیہ السلام تھے مجھ سے اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال پوچھنے اور عدل وانصاف کی تلقین کرنے آئے تھے، ایک مرتبہ ایک شخص نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خدمت میں حاضر ہوکر عر ض کیا کہ میں نے رات خواب میں دیکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنی طرف صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ، بائیں طرف فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ بیٹھے ہیں اور سامنے آپ (عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ) ہیں، اتنے میں دوآدمی کچھ خصومت لائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ (عمربن عبدالعزیز) سے متوجہ ہوکر فرمایا کہ اپنے دورانِ خلافت میں دونوں (ابوبکروعمر رضی اللہ عنہم) کے قدم بہ قدم چلنا، یہ سن کرحضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں دیکھتا ہوں یہ ایسا ہی کرتے ہیں، یہ خواب بیان کرکے راوی نے اس خواب پرقسم کھائی توحضرت عمر بن عبدالعزیز رونے لگے۔ حکم بن عمر کہتے ہیں کہ میں ایک روز عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا کہ داروغہ اصطبل حاضر ہوا اور اصطبل کا خرچ مانگنے لگا، آپ نے فرمایا تم تمام گھوڑوں کوشام کے شہروں میں لے جاکر جس قیمت پرممکن ہو فروخت کرکے ان کی قیمت فی سبیل اللہ دے دو، میرے لیے میرا خچر ہی کافی ہے۔ زہری کا قول ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے بذریعہ خط سالم بن عبداللہ سے دریافت کیاکہ صدقات کے متعلق فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا طرزِ عمل کیا تھا؛ انھوں نے ان کے سوال کا جواب لکھ کرآخر میں لکھا کہ اگرتم وہی عمل کروگے جوحضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ اپنے عہد خلافت میں لوگوں سے کرتے تھے توتم خدائے تعالیٰ کی جناب میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ رتبہ پاؤ گے، جب آپ خلیفہ منتخب ہوگئے اور لوگوں نے آپ کے ہاتھ پربیعت کرلی توآپ روئے اور کہنے لگے کہ مجھے اپنی نسبت برا ہی حوف ہے، حضرت حماد نے پوچھا کہ آپ یہ بتائیے کہ آپ کودرہم ودینار کی کتنی محبت ہے؟ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ بالکل نہیں، حماد نے کہا کہ پھرآپ کیوں گھبراتے ہیں، خدائے تعالیٰ ضرور آپ کی مدد کرے گا۔ خلیفہ بن سعید بن عاص نے حضرت عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ سے پہلے جتنے خلیفہ ہوئے وہ ہمیں انعامات دیا کرتے تھے؛ مگرآپ نے خلیفہ ہوکر وہ سب روک دیئے، میرے پاس کچھ جاگیر بھی ہے؛ اگرآپ حکم دیں تومیں اس میں سے اس قدر لے لیا کروں کہ میرے عیال کوکافی ہو، آپ نے فرمایا کہ جوکچھ تم مشقت سے حاصل کرو وہ تمہارا مال ہے؛ پھرفرمایا کہ موت کواکثر یاد کیا کرو؛ کیونکہ اگرتم تکلیف میں ہوگے توعیش پاؤ گے اور عیش میں ہوگے تواس میں کچھ کمی نہ ہوگی، بعض عمال نے آپ کولکھا کہ ہمارے شہر میں قلعوں اور راستوں کی مرمت ہونی چاہیے؛ لہٰذا امیرالمؤمنین ہمیں کچھ مال عطا فرمائیں کہ ہم آبادی ومرمت کی کوشش کریں، آپ نے جواب میں لکھا کہ اس خط کے پڑھتے ہی تم اس شہر میں عدل قائم کرکے قلعے بنالو اورت ان کے راستوں کوظلم سے دور کرکے پاک کرو؛ پس! مرمت ہے۔ ابراہیم سکونی کا قول ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جب سے مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ جھوٹ بولنا عیب ہے، میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ اگر اس امت میں کوئی مہدی ہونے والا ہے تووہ عمر بن عبدالعزیز ہیں، محمد بن قصالہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیز ایک راہب کے پاس سے گزرے جوایک جزیرہ میں رہتا تھا وہ راہب ان کودیکھ کران کے پاس چلا آیا؛ حالانکہ وہ کبھی کسی کے پاس نہیں آیا تھا اور اُن سے کہنے لگا کہ تم کومعلوم ہے کہ میں تمہارے پاس کیوں چلا آیا؟ انھوں نے کہا کہ نہیں، راہب نے کہا کہ محض اس لیے کہ تم ایک امام عادل کے بیٹے ہو، مالک بن دینار کہتے ہیں کہ جب عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے توچرواہے تعجب سے دریافت کرنے لگے کہ یہ کون شخص خلیفہ ہوا ہے کہ بھیڑیے ہماری بکریوں کواب کچھ نقصان نہیں پہنچاتے، موسیٰ بن اعین کہتے ہیں کہ ہم کرمان میں بکریاں چرایا کرتے تھے، بھریے ہماری بکریوں کے ساتھ چلتے پھرتے رہتے تھے اور بکریوں کونقصان نہ پہنچاتے تھے، ایک روز ایسا ہوا کہ بھیڑیا ایک بکری کواُٹھا کرلے گیا، میں نے اسی روز کہہ دیا کہ آج خلیفہ صالح یقیناً فوت ہوگیا؛ چنانچہ جب تحقیق کیا گیا تومعلوم ہوا کہ اسی روز حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے انتقال فرمایا تھا۔ ولید بن مسلم کا قول ہے کہ ایک باشندہ خراسان نے خواب میں دیکھا کہ کوئی اس سے کہتا ہے کہ جب بنواُمیہ کا ایک داغ دار آدمی خلیفہ ہوتوفوراً اس کی بیعت کرلینا؛ چنانچہ وہ ہرایک خلیفہ کا حلیہ دریافت کرتا رہا، جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تواس نے متواتر تین رات خواب میں دیکھا کہ وہی شخص کہتا ہے کہ جااب بیعت کرلے اس پروہ خراسان سے روانہ ہوا اور عمر بن عبدالعزیز کے ہاتھ پربیعت کی۔ حبیب بن ہند الاسلمی کہتے ہیں کہ مجھ سے سعید بن المسیب نے فرمایا کہ خلفاء تین ہیں ابوبکر، عمر اور عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہم، میں نے پوچھا کہ اوّل الذکر دونوں بزرگوں کوتوہم جانتے ہیں یہ تیسرے کون ہیں، انھوں نے فرمایا کہ اگرتم زندہ رہے تومعلوم ہی کرلوگے اور اگرمرگئے تووہ تمہارے بعد ہوں گے، ابنِ مسیب کا انتقال حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خلافت سے پہلے ہوچکا تھا، مالک بن دینار کا قول ہے کہ لوگ کہا کرتے تھے کہ اگرکوئی شخص زاہد ہوسکتا ہے تووہ عمربن عبدالعزیز رصی اللہ عنہ ہیں، دنیا ان کے پاس آئی اور انھوں نے اس کوچھوڑ دیا، یونس بن ابی شبیب کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن عبدالعزیز کوخلافت سے پہلے دیکھا کہ ان کے پاجامہ کا نیفہ فربہی کے سبب ان کے پیٹ میں گھسا ہوا تھا؛ لیکن خلیفہ ہونے کے بعد وہ اس قدر لاغر ہوگئے تھے کہ ان کی ایک ایک ہڈی گنی جاسکتی تھی، عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوجعفر منصور نے پوچھا کہ جب انھوں نے انتقال کیا توکیا تو کیا آمدنی تھی؟ میں نے کہا کہ کل چار سودینار اور اگرکچھ دنوں اور زندہ رہتے تواور بھی کم ہوجاتی۔ مسلمہ بن عبدالملک کا قول ہے کہ میں عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے گیا تودیکھا کہ وہ ایک میلا کرتا پہنے ہوئے ہیں، میں نے اپنی بہن یعنی اُن کی بیوی سے کہا کہ تم ان کا کرتا دھوکیوں نہیں دیتیں؛ انھوں نے کہا کہ ان کے پاس دوسرا کرتا نہیں ہے کہ اس کواُتار کراسے پہن لیں، عمر بن عبدالعزیز کے غلام ابواُمیہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک روز اپنے آقا کی حرم محترم کی خدمت میں شکایت کی کہ مسور کی دال کھاتے کھاتے ناک میں دم آگیا ہے، انھوں نے کہا کہ تمہارے آقا کا بھی روز کا یہی کھانا ہے، ایک روز اپنی بیوی سے کہا کہ انگور کھانے کوجی چاہتا ہے؛ اگرتمہارے پاس کچھ ہوتودو؛ انھوں نے کہا کہ میرے پاس توایک کوڑی بھی نہیں، تم باوجود یکہ امیرالمؤمنین ہو، تمہارے پاس اتنا بھی نہیں کہ انگور لے کرکھالو؟ آپ نے کہا کہ انگوروں کی تمنا دل میں لے جانا بہتر ہے، بہ نسبت اس کے کہ کل کودوزخ کی زنجیروں کی رگڑیں کھاؤں، آپ کی حرم محترم فرماتی ہیں کہ ایامِ خلافت میں آپ کی یہ حالت رہی ہے کہ باہر سے آکر سجدے میں سررکھ دیتے اور روتے اسی حالت میں سوجاتے جب آنکھ کھلتی توپھررونے لگتے، ولید بن ابی سائب کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے بڑھ کرکسی شخص کے دل میں خدا کا خوف نہیں دیکھا۔ سعید بن سوید کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ جمعہ کی نماز پڑھانے کے لیے آئے تودیکھا کہ ان کے کرتے میں سامنے اور پیچھے پیوند لگے ہوئے ہیں ایک شخص نے کہا کہ امیرالمؤمنین خدائے تعالیٰ نے آپ کوسب کچھ عطا فرمایا ہے؛ پھرآپ کپڑے کیوں نہیں بنواتے آپ تھوڑی دیر تک سرجھکائے ہوئے کچھ سوچتے رہے؛ پھرفرمایا کہ تونگری میں میانہ روی اور قدرت میں عفوبڑی چیز ہے۔ ایک روز آپ نے فرمایا کہ میں پچاس برس بھی تم میں رہوں تومراتب عدل کوتکمیل تک نہیں پہنچا سکتا، میں عدل کرنا اور تمہارے دلوں میں سے طمع دنیوی کونکال ڈالنا چاہتا ہوں؛ لیکن دیکھتا ہوں کہ تمہارے دل متحمل نہیں ہوسکیں گے، ابراہیم بن میسرہ نے طاؤس سے کہا کہ عمر بن عبدالعزیز مہدی ہیں؛ انھوں نے کہا کہ صرف مہدی ہی نہیں ہیں؛ بلکہ عادل کامل بھی ہیں، آپ کے انتقال کے وقت لوگ بہت سا مال لے کرآپ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے فرمایا کہ یہ سب لے جاؤ اور اپنے کام میں لاؤ، اس کے بعد آپ نے اپنا مال بھی اس میں شامل کردیا، جویریہ کہتی ہیں کہ ہم فاطمہ بنت علی بن ابی طالب کے پاس گئے انھوں نے عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی بڑی تعریف کی اور فرمایا کہ اگروہ زندہ رہتے توہمیں کسی چیز کی کمی نہیں رہتی۔ اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ آپ کی عادت تھی کہ جب کسی شخص کوسزادینا چاہتے تھے توپہلے احتیاطاً تین روز تک اسے قید رکھتے تھے تاکہ غصہ اور جلدی میں اس کوسزا نہ دی جائے، آپ نے فرمایا کہ جب میں نے نفس کواس کی خواہش کے مطابق کچھ دیا تواس نے اس سے افضل چیز کی خواہش کی، عمر بن مہاجر کہتے ہیں کہ آپ کی تنخواہ دودرہم روزانہ مقرر تھی اور آپ کا چراغ دان تین لکڑیوں کوکھڑا کرکے اس پرمٹی رکھ کربنایا گیا تھا، آپ نے اپنے غلام کوپانی گرم کرنے کے لیے کہا: وہ شاہی باورچی خانے سے جاکر گرم کرلایا، آپ کومعلوم ہوا توآپ نے ایک درہم کی لکڑیاں اس کے عوض میں بھجوادیں، آپ کی عادت تھی کہ جب تک آپ کے پاس بیٹھے ہوئے لوگ سلطنت کے معاملات میں گفتگو کرتے رہتے آپ بیت المال کا چراغ جلائے رکھتے اور جب وہ اُٹھ جاتے تو اس کوگل کرکے اپنا ذاتی چراغ جلالیتے، خلیفہ کی اردلی میں سوچوکیدار وکوتوال مقرر تھے، جب آپ خلیفہ ہوئے توآپ نے ان سے فرمایا کہ میری حفاظت کے لیے قضا وقعدر اور اجل کافی ہے، مجھے تمہاری ضروری نہیں؛ تاہم اگرتم میں سے کوئی میرے پاس رہنا چاہے تودس دینار تنخواہ ملے گی اور اگرنہ رہنا چاہے تواپنے اہل وعیال میں چلا جائے۔ عمر بن مہاجر کہتے ہیں کہ آپ کا جی انارکھانے کوچاہا، آپ کے ایک عزیز نے انار بھیج دیا، آپ نے اس کی بہت ہی تعریف کی اور اپنے غلام سے فرمایا کہ جس شخص نے یہ بھیجا ہے اس سے میرا سلام کہنا اور یہ انار واپس کرکے کہہ دینا کہ تمہارا ہدیہ پہنچ گیا، غلام نے کہا کہ امیرالمؤمنین یہ توآپ کے قریبی عزیز نے بھیجا ہے، اس کے رکھ لینے میں کیا مضائقہ ہے؟ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی توہدیہ قبول فرمالیا کرتے تھے، آپ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہدیہ تھا مگرہماےر لیے رشوت ہے، آپ نے سوائے ایک شخص کے جس نے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی گستاخی کی تھی کسی شخص کے دُرے نہیں لگوائے۔ جب آپ نے اپنے عیال کے نفقہ میں تخفیف کی توانھوں نے آپ سے شکایت کی آپ نے فرمایا کہ میرے مال میں اس قدر وسعت نہی ہے کہ تمہارا سابقہ نفقہ جاری رکھوں، باقی رہا بیت المال؛ سوا اس میں تمہارا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا اور مسلمانوں کا یحییٰ غسانی کہتے ہیں کہ جب مجھے حضرت عمر بن عبدالعزیز نے موصل کا حاکم بنایا تومیں نے دیکھا کہ وہاں چوری کی وراداتیں بہت ہوتی ہیں، میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی اور موصل سب سے زیادہ صاف مقام ہوگیا۔ رجاء بن حیوٰۃ کہتے ہیں کہ ایک روز میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ چراغ گل ہوگیا وہیں آپ کا غلام سورہا تھا میں نے چاہا کہ اسے جگادوں آپ نے منع فرمایا؛ پھرمیں نے چاہا کہ میں خود اُٹھ کرچراغ جلادوں، آپ نے فرمایا کہ مہمان کوتکلیف دینا خلافِ مروّت ہے آپ خود اُٹھے اور تیل کاکوزہ اُٹھاکر چراغ میں تیل ڈالا اور اس کوجلاکر پھراپنی جگہ آبیٹھے اور فرمایا کہ میں اب بھی وہی عمر بن عبدالعزیز ہوں جوپہلے تھا، یعنی چراغ جلانے سے میرے مرتبہ کوکوئی نقصان نہیں پہنچا۔ عطا کہتے ہیں ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ رات کے وقت فقہا کوجمع فرماتے اور موت وقیامت کا ذکر کرکے اس قدر روتے کہ گویا ان کے سامنے کوئی جنازہ رکھا ہوا ہے، عبداللہ بن غبرا کہتے ہیں کہ ایک روز آپ نے خطبہ میں فرمایا کہ لوگو! اپنی پوشیدہ باتوں میں اصلاح کرو ظاہری باتوں میں خود اصلاح ہوجائے گی، آخرت کے واسطے عمل کرو اور دنیا کے لیے اسی قدر توجہ کرو، جتنی ضرورت ہو اور یادرکھو کہ تمہارے آبا واجداد کوموت کھاچکی ہے، آپ فرمایا کرتے تھے کہ سلفِ صالحین کی راہ پرعمل کرو؛ کیونکہ وہ تم سے اچھے اور زیادہ عالم تھے، جب آپ کے صاحبزادے عبدالملک نے انتقال کیا توآپ ان کی تعریف کرنے لگے، مسلمہ نے کہا کہ کیوں ان کی توآپ تعریف کرتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ دیکھنا یہ ہے کہ وہ مرحوم میری ہی نظروں میں قابل تعریف تھا یا اور بھی اسے قابل تعریف سمجھتے ہیں؛ کیونکہ باپ کی نظروں میں بیٹا ہمیشہ قابل تعرفی ہوتا ہے اس لیے اس کے اندازے کا اعتبار نہیں ہے، اسامہ بن زید کی صاحبزادی آپ کے پاس آئیں آپ نے ان کا استقبال کیا اور ان کے سامنے مؤدب بیٹھ گئے انھوں نے جوکچھ طلب کیا ان کوعطا فرمایا۔ ایک مرتبہ آپ کے قریبی رشتے داروں نے کہا کہ ہم مزاج وخوش طبعی کے ذریعہ امیرالمؤمنین کواپنی طرف متوجہ کرلیں گے؛ چنانچہ کئی شخص جمع ہوکر آپ کے پاس پہنچے، ایک شخص نے خوش طبعی کی راہ سے کوئی بات کہی دوسرے نے اس کی تائید کی، حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم لوگ ایک نہایت ذلیل بات پرجمع ہوئے ہو جس کا انجام دشمنی ہے، بہتر یہ ہے کہ قرآن شریف پڑھو اس کے بعد حدیث شریف دیکھو اور معانی حدیث میں تدبر کرو۔ یحییٰ عّانی کہتے ہیں کہ آپ نے خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کوایک خارجی کے قتل سے منع فرمایا اور رائے دی کہ اس کواس وقت تک قید رکھیے جب تک کہ یہ توبہ کرے، سلیمان نے اس خارجی کوبلایا اور کہا کہ بولو اب کیا کہتے ہو اس نے کہا کہ اے فاسق ابن فاسق پوچھ کیا پوچھتا ہے، سلیمان نے کہا کہ عمر بن عبدالعزیز کی رائے سے مجبور ہوں؛ پھران کوبلایا اور کہا کہ دیکھو! یہ کہتا ہے خارجی نے پھرانھیں الفاظ کا اعادہ کیا، سلیمان نے کہا بتاؤ اب اس کے لیے کیا کہتے ہو، حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے کسی قدر سکوت کے بعد کہا کہ امیرالمؤمنین جس طرح اس نے آپ کوگالی دی ہے، آپ بھی اسے گالی دے لیجئے، خلیفہ سلیمان نے کہا نہیں یہ مناسب نہیں ہے؛ چنانچہ حکم دیا کہ اس کوقتل کردیا جائے وہ قتل کردیا گیا، آپ وہاں سے نکلے توراستے میں آپ کوخالد کوتوال ملا اور کہنے لگا کہ آپ نے عجیب رائے دی کہ امیرالمؤمنین بھی اس کوویسی ہی گالی دے دی جیسے اس نے دی ہے، میں توڈرگیا تھا کہ کہیں امیرالمؤمنین آپ کی گردن اُڑانے کا حکم نہ دے دیں، حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اگرمیری گردن اُڑانے کا حکم ملتا توتم میری گردن اُڑادیتے، خالد نے کہا کہ میں ضرور آپ کوقتل کردیتا، جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کوخلافت پہنچی توخالد حسب معمول اپنے مرتبہ پرآکر ان کے سامنے کھڑا ہوا، آپ نے خالد کوحکم دیا کہ یہ تلوار رکھ دو اور اپنے آپ کومعزول سمجھو؛ پھرمرو بن مہاجر انصاری کوبلایا اور کوتوال مقرر کرکے کہا کہ میں اس کواکثر قرآن شریف پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور اس کوایسی جگہ نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے جہاں کوئی اس کونہ دیکھ سکتا تھا، حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جوشخص غصہ نزاع اور طمع سے دور رہا وہ فلاح پاگیا۔ کسی نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اگرآپ اپنے لیے کوئی نافقہ مقرر کرلیں اور کھانے پینے میں احتیاط رکھیں توبہت اچھا ہو، آپ نے فرمایا کہ الہٰی اگرمیں قیامت کے سوا کسی اور چیز سے ڈرتا ہوں تومجھے اس سے امن میں نہ رکھنا، ایک مرتبہ آپ نے فرمایا ہ لوگو! خدا سے ڈرو! اور طلب رزق میں مارے مارے نہ پھرو، رزق مقسوم اگرپہاڑ یازمین کے نیچے بھی دبا ہوا ہوگا توپہنچ کررہے گا ازہر کہتے ہیں کہ میں نے آپ کوخطبہ پڑھتے ہوئے دیکھا، آپ کے قمیص میں پیوند لگے ہوئے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے عمر بن قیس سکونی کولشکر صائفہ کا سپہ سالار بناکر روانہ کیا اور رخصت کرتے ہوئے فرمایا کہ وہاں کے نیک لوگوں کی بات سننا اور بدوں سے درگذر کرنا جاتے ہی ان کاقتل نہ شروع کردینا اور آخر میں بدنامی نہ اُٹھانا متوسط حالت اخیات رکنا کہ وہ تمہارا مرتبہ بھول نہ جائیں اور تمہاری باتیں سننے کی تمنا کرتے رہیں، جراح بن عبداللہ عامل خراسان نے آپ کولکھا کہ اہلِ خراسان بہت ناہموار لوگ ہیں یہ بغیر تلوار کے سیدھے نہ ہوں گے، آپ نے جواب لکھا کہ تم یہ جھوٹ کہتے ہو کہ اہلِ خراسان بغیر تلوار کے اصلاح پرنہ آئیں گے، عدل اور حق رسانی وہ چیزیں ہیں کہ خود درست ہوجائیں گے پس ان میں انھیں دوچیزوں کی اشاعت کرو۔ صالح بن جبیر کہتے ہیں کہ کبھی ایسا اتفاق ہوتا کہ میں کوئی بات امیرالمؤمنین سے ہتا اور وہ مجھ سے ناراض ہوجاتے ایک مرتبہ ان کے سامنے ذکر ہوا کہ ایک کتاب میں لکھا ہے کہ باداشاہ کی ناراضی سے ڈرنا چاہیے اور جب بادشاہ کا غصہ اُتر جائے تب اس کے سامنے جانا چاہیے، آپ نے یہ سن کرفرمایا کہ صالح میں تجھے اجازت دیتا ہوں کہ تومیرے ساتھ اس کی پابندی نہ کر۔ ذہبی رحمہ اللہ کتہے ہیں کہ میلان نے حضرت عمربن عبدالعزیز کے عہد خلافت میں قدر کا انکار کیا آپ نے اس کوبلاکر توبہ کرنے کا حکم دیا، اس نے کہا کہ اگرمیں گمارہ ہوتا توآپ کا یہ ہدایت کرنا مناسب تھا، آپ نے فرمایا کہ الہٰی اگریہ شخص سچا ہے توخیرورنہ اس کے ہاتھ اور پیر کاٹ اور اس کوسولی پرچڑھا، یہ فرماکر اس کوچھوڑد یا، وہ اپنے عقیدہ پرقائم رہا اور اس کی اشاعت بھی کرتا رہا؛ مگرخلیفہ ہشام بن عبدالملک نے اس کواس عقیدے کے جرم میں پکڑکر اس کے اعضا کٹوائے اور سولی پرچڑھادیا۔ ایک مرتبہ بنومروان حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے دروازے پرجمع ہوئے اور آپ کے صاحبزادے سے کہا کہ اپنے والد سے جاکرکہو کہ آپ سے پہلے جتنے خلیفہ ہوتے رہے ہیں وہ سب ہمارے لیے کچھ عطایا اور جاگیریں محضوص کرتے رہے ہیں؛ لیکن آپ نے خلیفہ ہوکر ہم پرتمام چیزیں حرام کردیں، آپ کے صاحبزادے نے یہ پیغام جاکر کہا توآپ نے فرمایا کہ ان سے جاک رکہدو کہ میرا باپ کہتا ہے کہ: قُلْ إِنِّيَ أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ۔ (الأنعام:۱۵) ترجمہ:کہہ دو کہ اگرمیں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تومجھے ایک زبردست دن کے عذاب کا خوف ہے۔ (توضیح القرآن:۱/۳۸۵، مفتی تقی عثمانی، فریدبکڈپو،نیودہلی)