انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** دوسری شہادت پھر یہ صرف اخبار (خبروں) میں ہی نہیں،احکام (کرنے والے کاموں) میں بھی بہت سے ایسے حکم نازل ہوئے جن کی وحی متلورہی ہے،مدینہ منورہ کے مشرقی جانب چند میل کے فاصلے پر بنو نضیر (یہود) آباد تھے۔ (یہ لوگ یہاں کے رہنے والے نہ تھے لیکن ان کے بزرگوں نے سنا تھا کہ پیغمبر آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم اس علاقے میں تشریف لائیں گے تو وہ ان پر ایمان لانے اوران کی نصرت و اعانت کے ارادے سے یہاں آکر آباد ہوگئے تھے پھر جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو افسوس کہ ان کی اولاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں پیش پیش ہوگئی، ارض عرب ان کا وطن نہ پہلے تھا نہ بعدمیں رہا بلکہ ایک وقت آیا کہ کل یہود جزیرہ عرب سے نکال دیئے گئے،لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام فی اخرحیاتہ،اخرجوا الیھود من جزیرۃ العرب)۔ انہوں نے مسلمانوں سے عہد شکنی کی،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جنگ کا ارادہ فرمایا: یہ لوگ اپنے مضبوط قلعوں میں جابیٹھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی کہ ان کے درخت کاٹے جائیں اورباغ اجاڑے جائیں؛ تاکہ یہ لوگ بے چین ہوکر قلعوں کے دروازے کھول دیں اورحالات کے چہرے سے نقاب اُٹھ جائے؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا، جنگ کی نوبت نہ آئی اور یہ لوگ وہاں سے خیبر کی طرف نکال دیئے گئے،قرآن کریم میں اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں ملتا ہے: "مَاقَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْتَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ"۔ (الحشر:۵) ترجمہ: اور(اس دن) جو کاٹ ڈالے تم نے کھجور کے درخت یا انہیں اپنی جڑوں پر کھڑے رہنے دیا سو (یہ سب) اللہ کے حکم سے تھا۔ قرآن کریم میں اللہ کا یہ حکم کہیں نہیں ملتاکہ"یہ درخت کاٹ دیئے جائیں اوریہ رہنے دیئے جائیں، لیکن اس حکم کا حوالہ قرآن کریم میں بے شک موجود ہے، وہ حکم خدا وندی جس کے تحت درختوں کے کاٹنے کا یہ عمل کیا گیا تھا وحی غیر متلو (جس کی تلاوت جاری نہیں ہوئی) تھی جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک میں القاء ہوئی تھی، بظاہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان درختوں کے کاٹنے کا حکم فرمارہے تھے،لیکن قرآن کریم کی رو سے آپ کی یہ حدیث حقیقۃ اذن الہٰی تھا اوریہ خدا کا حکم تھا جو وحی غیر متلو کی صورت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا گیا تھا،قرآن کریم یہاں اسے ہی اذن الہٰی کہہ رہا ہے،قرآن کریم سچ کہتا ہے۔ "هَذَا كِتَابُنَا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِّ"۔ (الجاثیہ:۲۹) ترجمہ: یہ ہماری کتاب جو تم پر حق بولتی ہے۔ یہاں کتاب سے مراد اعمالنا مے ہیں جو ٹھیک ٹھیک لکھے جارہے ہیں،ہاں عموم الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ خدائی دفتر میں غلطی راہ نہیں پاتی؛ سو!ہم یقین کرنے پر مجبور ہیں کہ حضورﷺ کا یہ عمل بے شک اذن الہٰی سے تھا، قرآن کریم کی اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے وحی قرآن کے علاوہ بھی آپ سے بارہا کلام فرمایا ہے اورآپ پر احکام اتارے ہیں،یہی حدیث ہے اوراسے ہی وحی غیر متلو کہتے ہیں،خدا تعالی کی یہ وحی غیرمتلو (Unworded Revelation) ہے جو تلاوت میں نہیں آتی اور حکم میں پھیلتی ہے۔