انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** معروف اہلِ فن سے اخذ روایات اہلِ علم میں جن اساتذہ کی کسی خاص فن میں شہرت ہو اس فن میں انہی کی طرف رجوع کرے،کاملینِ فن کے ساتھ مختصر ساوقت بھی بسر ہوجائے توطالب علم صحیح سمت چل پڑتا ہے، حضرت عبدالرحمن بن یزید بن جابر (۱۵۳ھ) ارشاد فرماتے ہیں: "لايؤخذ العلم إلاعمن شهد له بطلب الحديث"۔ (الکفایہ فی علوم الروایہ:۱۶۱) علم انہی لوگوں سے حاصل کیا جائے جوعلمِ حدیث میں شہرت پاچکے ہوں۔ یہ ملحوظ رہے کہ ان مشائخ نے یہ علم باقاعدہ اساتذہ سے حاصل کیا ہو؛ محض مطالعہ اور تجربہ سے نہ سیکھا ہو، دین کی اساس لٹریچر نہیں وارثینِ انبیاء سے باقاعدہ تعلیم وتعلم ہے، خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں: "ويجب أن يكون حفظه مأخوذا عن العلماء لاعن الصحف"۔ (الکفایہ فی علوم الروایہ:۱۶۲) ضروری ہے کہ اس کی یادداشت علماء سے ماخوذ ہولٹریچر سے نہیں۔ حافظ عبدالرحمن ابوزرعۃ دمشقی (۲۸۱ھ) حضرت سعید بن عبدالعزیز سے روایت کرتے ہیں: "لايؤخذ الحديث مِن صَحَفِي"۔ (تاریخ ابی زرعہ الدمشقی:۱/۳۱۸) حدیث لٹریچر والوں سے نہ لی جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم دین کی اساس علماء اور وارثینِ انبیاء ہیں، لٹریچر اور رسالوں سے دین حاصل نہیں کیا جاسکتا، صحافی قسم کے لوگوں سے علم دین حاصل کرنے کی کوشش بے فائدہ اور بے ثمر رہے گی، امیرالمؤمنین فی الحدیث امام شعبہ (۱۶۰ھ) فرماتے ہیں: "خذوا العلم من المشتهرين"۔ (الکفایہ فی علوم الروایہ:۱۶۱) علم ان لوگوں سے حاصل کروجو اس علم میں مشہو ہوچکے ہوں۔ حضرت سلمان بن موسیٰ نے نصیحت فرمائی: "لَاتَأخُذُوْا العِلْمَ مِنَ الصُّحُفِيِّين.... لایوخذ العلم من صحفی"۔ (الکفایہ فی علوم الروایہ:۱۶۲) ترجمہ:علم صحافی قسم کے لوگوں سے جولٹریچر اُٹھائے پھرتے ہوں ہرگز نہ لو، علم لٹریچر سے نہیں (علماء سے)لیا جاتاہے۔