انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** دعاء جب یہ بات یقینی ہے اور مانی ہوئی ہے کہ اس دنیا کا سارا کارخانہ اللہ ہی کے حکم سے چل رہا ہے اور سب کچھ اسی کے قبضہ اورقدرت میں ہے تو ہر چھوٹی بڑی ضرورت میں اللہ سے دعا کرنا بالکل فطری بات ہے، اسی لیے ہر مذہب کے ماننے والے اپنی ضرورتوں میں اللہ تعالی سے دعاکرتے ہیں، لیکن اسلام میں اس کی خاص طورسے تعلیم اورتاکید فرمائی گئی ہے، قرآن شریف میں ایک جگہ ارشاد ہے: "وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ"۔ (غافر:۶) اورفرمایا تمہارے پروردگارنے کہ مجھ سے دعاکرو،میں قبول کروں گا۔ دوسری جگہ ارشادہے: "قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَاؤُکُمْ"۔ (الفرقان:۷۷) کہدوکیاپرواتمہاری میرے رب کو اگر نہ ہوں تمہاری دعائیں۔ پھر دعاکے حکم کے ساتھ یہ بھی اطمینان دلایاگیا ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں سے بہت قریب ہے،وہ ان کی دعاؤں کو سنتا اورقبول کرتا ہے۔ "وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَـنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِیْبٌo اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ"۔ (البقرۃ:۱۸۶) اوراے رسول!جب تم سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیں تو(انہیں بتاؤ)کہ میں ان سے قریب ہوں پکارنے والا جب مجھے پکارے تو میں اس کی پکارسنتاہوں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو یہ بھی بتلایا ہے،کہ اپنی ضرورتوں کو اللہ تعالی سے مانگنا اوردعاکرنا اعلی درجے کی عبادت ہے،بلکہ عبادت کی روح اوراس کا مغز ہے،چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ: "دعاعبادت ہے"(اور ایک روایت میں ہے کہ دعا عبادت کا مغز اورجوہرہے)۔ (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الدُّعَاء،حدیث نمبر:۳۲۹۳،۳۲۹۴، شاملہ، موقع الإسلام) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کے یہاں دعاسے زیادہ کسی چیز کا درجہ نہیں"۔ (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الدُّعَاء،حدیث نمبر:۳۲۹۲، شاملہ، موقع الإسلام) اور اسی لیے اللہ تعالی اس شخص سے ناراض ہوتا ہے جو اپنی ضرورتیں اس سے نہ مانگے،چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ: "اللہ تعالی اس بندے پر ناراض ہوتا ہے جو اپنی حاجتیں ضرورتیں اس سے نہیں مانگتا"۔ (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الدُّعَاء،حدیث نمبر:۳۲۹۵، شاملہ، موقع الإسلام) سبحان اللہ!دنیا میں کوئی آدمی اگر اپنے کسی گہرے دوست سے یا اپنے کسی عزیز قریب سے بھی باربار اپنی ضرورتوں کا سوال کرے تو وہ اس سے تنگ آکر خفا ہوجاتا ہے؛لیکن اللہ پاک اپنے بندوں پر ایسا مہربان ہے کہ وہ نہ مانگنے پر خفا اورناراض ہوتا ہے،ایک اورحدیث میں ہے کہ: "جس شخص کے لیے دعا کے دروازے کھل گئے(یعنی اللہ کی طرف سے جس کو دعا کی توفیق ملی اوراصلی دعاکرنا جسے نصیب ہوگیا)تو اس کے لیے اللہ کی رحمت کے دروازے کھل گئے"۔ (ترمذی،باب فِي دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم،حدیث نمبر:۳۴۷۱، شاملہ، موقع الإسلام) بہرحال کسی ضرورت اورمقصد کے لیے اللہ تعالی سے دعاکرنا جس طرح اس کو حاصل کرنے کی ایک تدبیر ہے اسی طرح وہ ایک اعلی درجے کی عبادت بھی ہے جس سے اللہ تعالی بہت راضی اورخوش ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے،یہ شان ہردعاکی ہے خواہ کسی دینی مقصد کے لیے کی جائے یا کسی دنیا وی ضرورت کے لیے،مگر شرط یہ ہے کہ کسی برے اورناجائز کام کے لیے نہ ہو،ناجائز کام کے لیے دعا کرنا بھی ناجائز اورگناہ ہے۔ یہاں ایک بات یہ بھی یادرکھنے کی ہے کہ دعا جس قدر دل کی گہرائی سے اور اپنے کو جس قدر عاجز اوربے بس سمجھ کر اوراللہ کی قدرت اوررحمت کے جتنے یقین کے ساتھ کی جائے گی اسی قدر اس کے قبول ہونے کی زیادہ امید ہوگی،جودعادل سے نہ کی جائے بلکہ رسمی طورپر صرف زبان سے کی جائے وہ دراصل دعا ہی نہیں ہوتی، حدیث شریف میں ہے کہ: "اللہ تعالی وہ دعا قبول نہیں کرتا جو دل کی غفلت کے ساتھ کی جائے"۔ (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي جَامِعِ الدَّعَوَات،حدیث نمبر:۳۴۰۱، شاملہ، موقع الإسلام) اگرچہ اللہ تعالی ہر وقت کی دعاسنتا ہے لیکن حدیثوں سے معلوم ہوتا ہےکہ بعض خاص وقتوں میں دعازیادہ مقبول ہوتی ہے،مثلا فرض نمازوں کے بعد اوررات کے آخری حصے میں یا روزہ کے افطار کے وقت یا ایسے ہی کسی اور نیک کام کے بعد،یاسفرکی حالت میں خاصکر جب سفردین کے لیے اور اللہ کی رضا کے لیے ہو۔ یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ دعاکے قبول ہونے کے لیے آدمی کا ولی ہونا یا متقی ہونا شرط نہیں ہے،اگرچہ اس میں شبہ نہیں کہ اللہ کے نیک اور مقبول بندوں کی دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں،لیکن ایسا نہیں ہے کہ عام لوگوں اورگنہگاروں کی دعائیں سنی ہی نہ جاتی ہوں،اس لیے کسی کو یہ خیال کرکے دعا چھوڑنی نہ چاہئے کہ ہم گنہگاروں کی دعا سے کیا ہوگا اللہ رحیم وکریم جس طرح اپنے گنہگاربندوں کو کھلاتا پلاتا ہے اسی طرح ان کی دعائیں بھی سنتا ہے اس لیے اللہ سے دعا سب کو کرنا چاہئے،ابھی بتلایا جاچکا ہے کہ دعا مستقل عبادت بھی ہے،اس لیے دعاکرنے والے کو ثواب توبہرحال ملےگا، اور اگر چند دفعہ دعاکرنے سے مقصدحاصل نہ ہوتو بھی مایوس اورناامید ہوکردعاچھوڑنہ دینا چاہئے،اللہ تعالی ہماری خواہش کا پابندنہیں ہے،کبھی کبھی اس کی حکمت کا تقاضا یہی ہوتا کہ دعادیر سے قبول کی جائے اور بندے کی بہتری بھی اس میں ہوتی ہے لیکن بندہ اپنی نادانی کی وجہ سے اسکو جانتا نہیں اس لیے جلد بازی کرتا ہے اور مایوس ہوکر دعاکرنا چھوڑدیتا ہے،الغرض بندے کو چاہئے کہ اپنی ضروریات اوراپنے مقاصد کے لیے اللہ تعالی سے دعاکرتاہی رہے،معلوم نہیں اللہ تعالی کس دن اورکس گھڑی سن لے رسول اللہﷺ نے دعا کے متعلق ایک بات یہ بھی بتلائی ہے کہ: "دعاضائع اوربیکار نہیں جاتی،لیکن اس کے قبول ہونے کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بندہ جس چیز کی دعاکرتا ہے اس کو وہی مل جاتی ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اس بندے کو وہ چیز دینا بہتر نہیں سمجھتے اس لیے وہ تو ملتی نہیں لیکن اس کے بجائے کوئی اور نعمت اس کو دے دی جاتی ہے،یا کوئی آنے والی بلا اور مصیبت ٹال دی جاتی ہے، یا اس دعا کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنادیا جاتا ہے (لیکن چونکہ بندے کو اس راز کی خبر نہیں ہوتی، اس لیے وہ سمجھتا ہے کہ میری دعا بیکا رگئی) اورکبھی ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنادیتا ہے،یعنی بندہ جس مقصد کے لیے دعا کرتا ہے وہ تواللہ تعالی اس دنیا میں اس کو نہیں دیتا لیکن اس کی اس دعا کے بدلہ آخرت کا بہت بڑا ثواب اس کے لیے لکھ دیا جاتا ہے۔" (مسند احمد،مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:۱۰۷۰۹، شاملہ، موقع الإسلام) ایک حدیث میں ہے کہ "بعض لوگ جن کی بہت سی دعائیں دنیا میں قبول نہیں ہوئی تھیں جب آخرت میں پہنچ کر اپنی ان دعاؤں کے بدلے میں ملے ہوئے ثواب اورنعمتوں کے ذخیرہ دیکھیں گے تو حسرت سے کہیں گے کہ کاش دنیا میں ہماری کوئی دعا بھی قبول نہ ہوئی ہوتی اورسب کا بدلہ ہمیں یہیں ملتا"۔ بہرحال اللہ تعالی پر ایمان رکھنے والے ہر بندے کو اللہ کی قدرت اور اس کی شان کریمی پر پورا یقین رکھتے ہوئے قبولیت کی پوری امید اور بھروسہ کے ساتھ اپنی ہر ضرورت کے لیے اللہ تعالی سے دعاکرنی چاہئے اور بالکل یقین رکھنا چاہئے کہ دعا ہر گز ضائع نہیں جائے گی۔ جہاں تک بن پڑے دعا ایسے اچھے الفاظ میں کرنی چاہئے جن سے اپنی عاجزی وبیچارگی اوراللہ تعالی کی عظمت اورکبرایائی ظاہرہو،قرآن شریف میں ہمیں بہت سی دعائیں بتلائی گئی ہیں اور ان کے علاوہ حدیثوں میں بھی رسول اللہ ﷺ کی سیکڑوں دعائیں آئی ہیں، سب سے اچھی دعائیں قرآن وحدیث کی یہی دعائیں ہیں،ان میں سے چالیس مختصر اورجامع دعائیں اس کتاب کے آخر میں بھی درج ہیں۔