انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** صحابہ اور اجتہاد حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ:کَنِیْفُ مَلَئٍ عِلْمًا (المستدرک :۳/۳۱۸) قَالَ عَلِیٌ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ: فَقِیْہٌ فِیْ الدِّیْنِ ،عَالِمٌ بِالسُّنَّۃِ (الطبقا ت لابن سعد:۳/۱/۱۰) قَالَ اَبُوْ الدَّرْدَاءِ : مَاتَرَ کَ بَعْدَہٗ مِثْلُہٗ (اسد الغابۃ :۳/۴۰۰) تعارف عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ وہ ذہین وفطین اور صاحب الرائے انسان تھے جن کے چہرے پر عیاں آثارِ فطانت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظریں اس وقت پڑیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مکہ مکرمہ کے نواح میں ان کے پاس سے گزرے اس وقت یہ عقبہ بن ابی معیط کے مویشی چرارہے تھے آغاز شباب تھا دونوں حضرات نے ان سے کہا: او لڑکے! تمہارے پاس ہمیں پلانے کے لئے دودھ ہے؟ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب دیا میرے یہ مویشی کسی کی امانت ہے اس لیے میں آپ حضرات کو نہیں پلا سکتا اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کیا تمہارے پاس کوئی ایسی اونٹنی ہے جس سے سانڈ نے ابھی تک جفتی نہ کی ہو؟ عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اثبات میں جواب دیا، دونوں حضرات اونٹنی کے پاس چلے گئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پاؤں باندھ کر تھن پر دستِ مبارک پھیرا اور اللہ سے دعا کی؛ چنانچہ اونٹنی کا تھن دودھ سے لبریز ہوگیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک پیالہ نما پتھر لے آئے ا س میں اونٹنی کا دودھ نکالا گیا اور دونوں حضرات نے اسے نوش فر مایا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تھن کو سکڑ جانے کے لئے کہا چنانچہ تھن سکڑ گیا اور اپنی اصلی حالت پر عود کر آیا ۔ اس کرشمۂ قدرت اور معجزۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے دل پر بے حد اثر کیا، آگے بڑھے اور عرض کیا: مجھے بھی یہ "قول سکھادیجئے" ان کی مراد وہ دعا تھی جو حضور صلی اللہ نے مانگی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فر مایا: "اِنَّکَ غُلَامٌ مُعَلِّمٌ" یعنی تم نے تو بہت کچھ سیکھ رکھا ہے۔ (اسدالغابہ :۳/۳۹۴،۹۵۔ صفوۃ الصفوۃ:۱/۳۹۵) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس معجزہ نے ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی آنکھیں خیرہ کردی اور آپ جلدہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں میں شامل ہوگئے، جس میں آپکا چھٹا نمبر تھا۔ (بحوالہ سابق) حضرت عبد اللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ بحیثیت فقیہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ اول درجے کے فقیہ تھے اس بات کی گواہی اہل علم اور اہل فضل صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے دی ہے اور باوجود اس حقیقت کے ابن مسعودرضی اللہ عنہ کا ستارہ مدینہ منورہ میں اسقدر نہیں چمکا جس قدر عراق میں چمکا تھا کچھ تو اسلئے کہ مدینہ منورہ میں فتویٰ دینے والے بڑے بڑے اہل علم صحابہ رضی اللہ عنہ کی کثیر تعداد موجود تھی اور کچھ اس لئے کہ مدنی معاشرہ کی اس حالت میں کوئی بڑا تغیر نہیں آیا تھا جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے چھوڑ گئے تھے مگر اس کے باوجود مدینہ میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حیثیت ایک ایسے عالم کی تھی جنکی طرف لوگوں کی نظریں اٹھتی تھیں ۔ جب ابن مسعودرضی اللہ عنہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے حکم سے عراق منتقل ہوگئے تاکہ وہاں کے تہذیبی طوفان کا مقابلہ کریں اور نئے نئے مسائل جووہاں پیدا ہوں انہیں حل کرسکیں ، توآپ کی حیثیت سب سے بڑے اور سربرآوردہ عالم کی ہوگئی اور لوگ آپ کے چشمۂ علم سے فیضیاب ہونے کے لئے آپ کے گرد جمع ہوگئے اہل عراق کے بڑوں دانائی اور سربرآوردہ لوگوں نے آپ کو اپنی ذات کے لئے منتخب کرلیا آپ کو ان سے الفت ہوگئی اور انہیں آپ سے اور ان میں آپ کو اپنی ذات اور اپنی شخصیت کا پھیلاؤ نظر آنے لگا ، ا اور آپ نے انہیں اپنی محبت سے نوازا ان کے متعلق آپ کہا کرتے تھے "تم میرے دل کی جلاہو(صفوۃ الصفوۃ:۱/۴۱۳)آپ ان میں علم باٹنے میں کبھی بخل نہ کرتے جسکے نتیجے میں آپ کے ہاتھوں فقہاء کی ایک پوری جماعت تیار ہوگئی ، جن میں نمایا ترین آپ کے وہ مشہور فقہا ہیں جن کے نام یہ ہیں ، علقمہ بن قیس نخعی رحمہ اللہ ، اسودبن یزید نخعی رحمہ اللہ ،عبیدہ سلمانی رحمہ اللہ ، مسروق بن الاجدع رحمہ اللہ، عمر بن شرحبیل ہمدانی رحمہ اللہ اور حارث بن قیس جعفی رحمہ اللہ (ابن ابی شیبہ :۲/۱۶۵) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے والے دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے شاگردوں سے فوقیت لے گئے تھے؛ حتی کہ شعبی کا قول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی کے اتنے شاگرد نہیں تھے جتنے ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے تھے۔ (مصنف عبد الرزاق:۱۰/۲۶۹) ان شاگردوں نے ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے فتووں اور ان کے علم کو نہ صرف اپنے سینوں میں محفوظ کر لیا بلکہ انہیں تحریری شکل بھی دے دی اور ان کے مقاصد اور جہات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا ، ابن جریر طبری کا کہنا ہے کہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے سوا ایسا کوئی شخص نہیں گزرا جسکے حلقے درس میں اس قدر مشہورلوگ ہوں اور جنہوں نے استاذ کے فتووں اور فقہی مسلک کو تحریر ی شکل دے دیا (اعلام الموقعین :۱/۲۰) ان شاگردوں میں حضرت ابن مسعودؓ کی فقہ کے سب سے بڑے حافظ اور سب سے بڑے پیرکار علقمہ بی قیس نخعی رحمہ اللہ تھے ، اس لئے کہ وہی اپنے استاذ کے پاس سب سے زیادہ وقت گزاراکرتے تھے ، یہاں تک کہ رات بھی حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے پاس گزارتے، ان کی خدمت کرتے اور ان دین کا علم حاصل کرتے پھر علقمہ کی لاولدی بھی اس عمل کے لئے بڑی سازگار رہی کیونکہ ان پرکوئی ذمہ داری نہیں تھیں۔ اجماع اجماع کو عملی حیثیت سے رواج دینا گوکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ وحضرت عمر فاروقرضی اللہ عنہ کا خاص طغرا ئے امتیازہے ، تاہم اصول حیثیت سے پہلے حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے اس کو مستحسن قرار دیا اور فر مایا "مَارَأَی المُسْلِمُوْنَ حَسَناً فَھُوَ عِنْدَ اللہِ حَسَنُ وَمَارَأَوْا سَیِّأً فَھُوَعِنْدَ اللہِ سَیِّیٌٔ" (مسند احمد، حدیث نمبر:۳۴۱۸) جس چیز کو تمام مسلمان بہتر سمجھ لیں وہ خدا کے نزدیک بھی بہتر ہے اور جس کوبرا سمجھ لیں وہ خدا کے نزدیک بھی برا ہے اور یہی درحقیقت اجماع کی اصل روح ہے۔ قیاس اصول فقہ کا چوتھا رکن قیاس ہے جو درحقیقت قرآن پاک ،حدیث نبوی اور اجماع ہی کی ایک شاخ ہے؛ لیکن توسیع ِفقہ اور نئے نئے مسائل کی گتھیوں کو سلجھانے کے لحاظ سے وہ خاص اہمیت رکھتا ہے ، ظاہر ہے کہ قرآن مجید اور احادیث میں تمام جزئیات مذکور نہیں ، اور نہ اس قدر احاطہ ممکن تھا ، اس لئے علت مشترکہ نکال کر ان جزئیات غیر منصوصہ کو احکامِ منصوصہ پر قیاس کرنا فقیہ یا مجتہد کا سب سے اہم فر ض ہی اور در حقیقت یہی وہ موقع ہے جہاں اس قوتِ اجتہاد تفریع مسائل و استنباط احکام کا امتحان ہوتا ہے ، حضر عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے عملاً قیاس شرعی سے کام لے کر آئندہ نسلوں کے لیے ایک وسیع شاہراہ قائم کردی اور ضمناً بہت سے ایسے قاعدے مقرر کردئیے جو آج ہمارے علم اصولِ فقہ کی بنیاد ہیں ، ہم یہاں ان کے چند قیاسی مسائل نقل کرتے ہیں جن سے ان کی قوت ِ استنباط کاندازہ ہوگا،حج یا عمرہ کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی احرام باندھ لے اور دشمن کے سد راہ ہو جانے سے حج یا عمر ہ کے ارکان کو پورا نہ کر سکے تو وہ صرف قربانی کا جانور بھیج کر احرام کھول دے ، اور آئندہ جب کبھی موقع میسر آئے تو اپنے ارادے کو پورا کرے ، جیسا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عزوۂ حدیبیہ کے موقع پر کیا تھا لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ مجبوری کو علتِ مشترکہ قرار دے کر مریض یادوسرے مجبور اشخاص کے لئے بھی یہی حکم جاری فر ماتے ہیں ، چنانچہ ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ میں عمرہ کے لئے احرام باندھ چکا تھا کہ تفاقاً سانپ نے کاٹ کھایا اور اب جانے کی طاقت نہیں رہی بولے تم صرف قابانی بھیج کر احرام کھول دو اور جب ممکن ہو عمرہ اداکرو(مؤطا محمد :۲۳۲)اس وقیاس سے ضمناً دو نہایت اہم اصول منضبط ہوتے ہیں (۱) اشتراک ِ علت اشتراک ِ حکم کا باعث ہے ( ۲) سبب کا خاص ہونا حکم کی تعمیم پر کچھ اثر نہیں ڈالتا ۔ علم فرائض کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ میت سے جس کو زیادہ قرابت ہوگی اس کو وراثت میں ترجیح دی جائے گی، مثلاً حقیقی بھائی کو اخیافی یا علاتی بھائی پر صرف اس لئے ترجیح ہے کہ اول الذ کر کو ماں اور باپ دونوں کی طرف سی قرابت ہے بر خلاف اس کے دونوںمؤخرالذکر میں صرف ایک ہی حیثیت پائی جاتی ہے ، حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ اصول کودوسرے قرابت داروں میں بھی پیش نظر رکھتے ہیں ، مثلاً ایک میت نے زید اور بکر دو چچا زاد بھائی چھوڑے اور زید اس رشتہ کے علاوہ میت کا اخیافی بھائی بھی ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس صورت میں ازدیا د قربت کی علت مرجحہ نکال کر زید کو بکر پر ترجیح دیتے ہیں؛ لیکن جمہور علمائے اہل سنت عصبہ ہونے کی حیثیت سے ان دونوں میں کوئی تفریق نہیں کرتے۔ (ابن ابی شیبہ :۲/۱۸۱۔ المغنی:۶/۱۸۹) آپ استنباطِ احکام وتفریع مسائل پر غیر معمولی قدرت رکھتے تھے اور نصوص شرعیہ میں ناسخ ومنسوخ موقت ومؤبد کی تفریق کرکے استنباطِ حکم کا صحیح راہ پیدا کرلیتے تھے، مثلاً ایک دفعہ استفتاء آیا کہ ایک حاملہ عورت کے لئے جس کا شوہر مرگیا ہو عدت کیا ہے؟ چونکہ قرآن مجید میں عدت کے متعلق مختلف احکام ہیں سورہ بقرہ آیت: ۲۳۴/میں عام حکم یہ ہے "وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَاَشْہُرٍ وَّعَشْرًا" تم میں سے جو لوگ مرجائیں اور بیویاں چھوڑ یں تو وہ (عورت) اپنے آپ کو چار مہینے دس دن تک روکے رکھیں اور سورہ ٔ طلاق آیت:۴/ میں خاص حاملہ عورتوں کے لئے جن کے شوہر مرگئے ہوں یہ حکم ہے " (۲) مقتدی کی قرأت سے نماز میں توجہ قلب باقی نہیں رہتی ۔ (۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے "مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَتُهُ لَهُ قِرَاءَةٌ" (مسنداحمد، حدیث نمبر:۱۴۱۱۶) یعنی جو امام کے پیچھے ہو اس کے لیے امام کی قرأت کافی ہے ، ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ اشعریرضی اللہ عنہ کے پاس فرائض کا یہ استفتاء آیا کہ ایک میت نے ورثہ میں ایک لڑکی ایک پوتی اور ایک بہن چھوڑی ہے اس کی جائداد کس طرح تقسیم ہوگی، انہوں نے جواب دیا کہ لڑکی اور بہن نصف کی مستحق ہیں اور پوتی محروم الارث ہے ابوموسیٰرضی اللہ عنہ کے جواب کے ساتھ یہی استفتاء حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا انہوں نے فر مایا اگر میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر ابوموسیٰ کے قول کو ترجیح دوں تو میں گمراہ ہوں گا بیشک لڑکی نصف پائے گی لیکن دوثلث پورا کرنے کے لئے ایک سدس پوتی کو بھی ملے گا اور جو باقی رہے گا وہ بہن کا حصہ ہے (مسند احمد :۱/۴۲۸۔ بخاری: ۱/۹۹۷) یہ جواب حضرت ابوموسیٰ اشعریرضی اللہ عنہ کو معلوم ہو تو فر مایا جب تک یہ بڑا عالم ہم میں موجود ہے اس وقت تک ہم سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ، چنانچہ آج یہی فتویٰ تمام مسلمانوں کا معمول بہ ہے ۔ نامعلوم مسائل میں رائے زنی سے احتراز ایک طرف تو ان کی قوت ِ اجتہاد وجلالت ِ شان کا یہ حال تھا لیکن دوسری طرف حزم و احتیاط کا یہ عالم تھا کہ نا معلوم مسائل میں کبھی رائے زنی سے کام نہ لیتے اور اپنے شاگردوں کو ہمیشہ ہدایت فر ما یا کرتے کہ جس چیز کو تم نہ جانتے ہو اس کی نسبت یہ نہ کہا کرو کہ میری رائے یہ ہے یا میرا خیال یہ ہے بلکہ صاف کہدیا کرو کہ میں نہیں جانتا (اعلام الموقعین :۱/۶۴)مسروق جوان کے خاص تلامذہ میں سے ہیں بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ اکثر حسرت وافسوس کے ساتھ فر مایا کرتے تھے عنقریب ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جبکہ علماء باقی نہ رہیں گے اور لوگ ایسے جاہلوں کو سردار بنالیں گے جو تمام امور کو محض اپنی عقل و رائے سے قیاس کریں گے(اعلام الموقعین:۱ی/۶۴) ایک مرتبہ ان کے پاس یہ استفتاء آیا کہ ایک عورت کا نکاح ہوا لیکن اس میں مہر کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا یہاں تک کہ اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا اس کے لئے کیا حکم ہے وہ مہر ووراثت کی مستحق ہے یا نہیں ؟چونکہ ان کو اس کے متعلق واقفیت نہ تھی اس لئے لوگوں کے ضد اور اصرار کے باوجود تقریباً ایک مہینہ تک خاموش رہے اور اس مسئلے پرغور کرتے رہے لیکن جب زیادہ مجبور کئے گئے تو بولے میرا فیصلہ یہ ہے کہ وہ مہر مثل اور وراثت کی مستحق ہے اور اس کو عدت میںبیٹھنا چاہئے ، پھرفر مایا: اگر یہ صحیح ہے تو خدا کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تومیری طرف سے اور شیطان کی طرف سے ہے خدا اور اس کا رسولﷺ اس سے بری ہے اس وقت حاضرین میں صحابی حضرت جراحرضی اللہ عنہ اور حضرت ابوسنا ن رضی اللہ عنہ موجود تھے انہوں نے اٹھ کر کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ رسولﷺ نے بروع بنت واشق کے حق میں بھی یہی فیصلہ فر مایا تھا اس توافق سے حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کوغیر معمولی مسرت حاصل ہوئی ،راوی کہتے ہیں کہ یہ بات سن کر حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ جس قدر خوش ہوئے اتنا خوش میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا۔ (ابوداؤد: کتاب النکاح، باب فیمن تزوج ولم یسم صداقھا۔ ترمذی:کتاب النکاح۔ نسائی:کتاب النکاح۔ سنن بیہقی:۶/۷۱۴۔ مصنف ابن ابی شیبہ:۲/۱۳۹،۲۲۳) اس روایت میں جب حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے اس عورت کے مہر کے بارے میں پوچھا گیا جس کا مہر مقر رنہیں ہوا اور اس کا شوہر دخول سے پہلے مرگیا تو حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ نے فر مایا میں اس بارے میں قیاس واجتہاد کر کے جواب دوں گا ، پھر قیاس کرکے جواب دیا کہ اس عورت کا مہر بلاکم وبیش اس کا مہر مثل ہے اگر قیاس حجت نہ ہوتا تو حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ قیاس کرکے مسئلہ کا حکم نہ بیان فر ماتے ۔ ظہور خطا پر بے تامل فتوے سے رجوع کرنا بایں ہمہ اگرکبھی حضرت ابن مسعود فتو یٰ دیتے اور بعد میں اس کے خلاف ثابت ہوجا تا تو فوراً اس سے رجوع کرلیتے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی رائے تھی کہ صرف عقد نکاح سے بیوی کی ماں شوہر کے لئے حرام نہیں ہوجاتی جب تک ہم بستر ی نہ ہوجائے؛ لیکن آپ نے جلد ہی اس رائے سے رجوع کرلیا اور پھر آپ کا مسلک یہ ہوگیا کہ صرف عقد سے ہی حرمت پیدا ہوجاتی ہے ، اس میں دخول یا ہمبستری کی کوئی شرط نہیں ہے، آپ کی رائے میں تبدیلی کے پس منظر میں ایک مشہور واقعہ ہے ، ایک شخص بنو شمح بن فزارہ کی ایک عورت سے نکاح کرلیا پھر اس کی نظر اس عورت کی ماں پر پڑگئی جو اس کا دل لبھا گئی ، اس نے حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے مسئلہ پوچھا کہ میں فلاں عورت سے نکاح کیا تھا اور ابھی ہم بستری بھی نہیں ہوئی تھی کہ میری نظر اس کی ماں پر پڑ گئی جومجھے بہت اچھی لگی ، آیا میں اپنی بیوی کو طلاق دے کر اس سے نکاح کرسکتا ہوں ؟ آپ نے اثبات میں"جواب دیا" چنانچہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دیکر اس کی ماں سے نکاح کرلیا پھر آپ مدینہ منورہ گئے اور وہاں دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے استفسار کیا سب نے یہی کہا ایسا کرنا درست نہیں ہے؛پھر آپ کوفہ واپس گئے اور بنو شمخ میں جاکر اس شخص کو تلاش کیا اور اسے اپنی بیوی سے علیحدگی کا حکم دیا لوگوں نے عرض کیا اب تو یہ بہت مشکل ہے؛ چونکہ اس کے کئی بچے پیدا ہوچکے ہیں ، آپ نے فر مایا چاہے جوکچھ بھی ہو وہ ہرصورت اس مردسے علیحدگی اختیا ر کرے اس لئے کہ یہ اللہ کی طرف سے حرام ہے (مصنف عبد الرزاق :۶/۲۷۳۔ مصنف ابن شیبہ:۱/۲۰۲۔ تفسیر ابن کثیر:۱/۴۷۰) غرض آپ رضی اللہ عنہ نے حق کے سامنے آتے ہی قبولیت ِحق کے سلسلے میں بے نفسی کا مظاہر ہ کر تے ہوئے حق کے آگے سپر دگی کردی ۔ الغرض حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ان فاضل صحابہ میں ہیں جو فقہ کے مؤسس اوربانی سمجھے جاتے ہیں خصوصاً فقہ حنفی کی عمارت تمام تر حضرت عبد اللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ ہی کے سنگ اساس پر تعمیر ہوئی ، کیونکہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے مخصوص تلامذہ میں سے علقمہ رضی اللہ عنہ اور اسو د نے فقہ میں خاص شہرت حاصل کی ، پھر ان کے بعد ابراہیم نخعی نے کوفہ کی فقہ کو بہت کچھ وسعت دی یہاں تک کہ ان کو فقیہ العراق کا لقب ملا، ابراہیم نخعی کے پاس حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے فتاویٰ کا نہایت کافی ذخیرہ تھا جو ان کو تمام تر زبانی یاد تھا، ان سے حماد نے حاصل کیا اور حماد سے منتقل ہوکر وہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے حصہ میں آیا ، جنہوں نے اپنے علم واجتہاد سے اس کو اس قدر وسعت دی کہ آج اکثر دنیاء اسلام ان کے فیوض وبرکات سے مالا مال ہے ۔