انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امام ابوحنیفہ ؒ کا حدیث کے معاملہ میں احتیاط امام صاحبؒ روایتِ حدیث کے سلسلے میں بے حدمحتاط تھے اور اس نکتہ سے خوب واقف تھے کہ روایت میں جس قدر واسطے ہوتے ہیں؛ اسی قدر تغیر وتبدل کا احتمال بڑھتا جاتا ہے، اس لیے امام ابوحنیفہؒ نے روایت حدیث کے بارے میں بڑے حزم واحتیاط سے کام لیا ہے؛ چنانچہ خطیب بغدادیؒ نے اپنی سند کے ساتھ یحییٰ بن معین سے نقل کیا ہے کہ ان سے سوال کیا گیا کہ اگرکوئی شخص اپنے خط سے لکھی ہوئی حدیث پائے؛ لیکن وہ اسے یاد نہ ہوتو وہ کیا کرے؟ یحییٰ بن معینؒ نے فرمایا: "امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ وہ اس کوبیان کرنے کا مجاز نہیں ہے، وہ صرف وہی حدیث بیان کرسکتا ہے جواسے یاد ہو"۱؎۔ سفیان ثوریؒ فرماتے تھے: "امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ علم کے حاصل کرنے میں بڑے سخت محتاط اور حدود الہٰی کی بے حرمتی سے بہت اجتناب کرنے والے تھے، وہ صرف وہی حدیث لیتے تھے جوثقہ راویوں سے مروی اور صحیح ہوتی تھی، وہ آنحضرتﷺ کے آخری فعل کولیا کرتے تھے اور اس فعل کولیا کرتے تھے جس پر علماء کوفہ کوعمل کرتے ہوئے دیکھتے تھے"۔ حضرت وکیع بن الجراح رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "لقد وجدالورع عن ابی حنیفۃ فی الحدیث مالم یوجد عن غیرہ"۲؎۔ جیسی احتیاط امام ابوحنیفہ سے حدیث میں پائی گئی کسی دوسرے سے نہ پائی گئی۔ اور صاحب تحفۃ الاحوذی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: "حدیث کی قیود وشرائط کے بارے میں جتنی تشدید، پابندی اور احتیاط امام ابوحنیفہؒ نے کی ہے کسی اور نے اس کا ثبوت نہیں دیا"۳؎۔ امام حاکم نے یہ تصریح کی ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کا حدیث کے متعلق یہ اصول ہے کہ کسی شخص کے لیے حدیث بیان کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہے، جب تک کہ وہ محدث سے بالمشافہ حدیث نہ سنے؛ پھروہ بیان کرنے کے وقت تک اسے مسلسل یاد رکھے رہے، یہ شرط امام صاحبؒ نے ایسے حالات میں لگائی تھی؛ جب کہ اکثر شیوخ کا حلقۂ درس نہایت وسیع ہوتا تھا؛ یہاں تک کہ ایک ایک مجلس میں دس دس ہزار سامعین جمع ہوتے تھے، اس وقت متعدد مستملی یعنی نائب جابجا بٹھائے جاتے تھے؛ تاکہ شیخ کے الفاظ کودوروالوں تک پہنچائیں، بہت سے ایسے لوگ ہوتے تھے، جن کے کانوں میں شیخ کا لفظ بھی نہیں پہنچتا تھا، وہ صرف مستملی کے الفاظ کوسن کر حدیث روایت کرتے تھے، اس وقت محدثین کے درمیان یہ بحث چلی کہ جس شخص نے صرف مستملی سے سنا اور شیخ سے کچھ نہ سن سکا توشیخ کی طرف نسبت کرکے حدثنا کہہ سکتا ہے یانہیں؟ اکثر ارباب روایت کا مذہب ہے کہ کہہ سکتا ہے؛ جب کہ امام ابوحنیفہؒ اس کے قائل نہیں تھے۴؎۔ امام ابوحنیفہؒ کواس شرط لگانے پر جس چیز نے مجبور کیا تھا وہ یہ تھی کہ ان کے زمانہ تک روایت بالمعنی کا رواج عام تھا، بہت کم لوگ تھے جوالفاظ حدیث کی پابندی کرتے تھے، اس لیے معانی کے تغیروتبدل کا احتمال ہرواسطہ میں بڑھتا جاتا تھا، کم از کم یہ کہ ہرروایت پہلے واسطہ میں جس قدر قوی ہوتی ہے دوسرے واسطہ میں اس کا وہ پایہ قائم نہیں رہ سکتا تھا۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مستملی کے کام کرنے کا طریقہ قائم رکھنا ضروری تھا؛ کیونکہ اکثر موقعوں پر بغیر مستملی کے کام نہیں چل سکتا تھا؛ لیکن ناانصافی تھی کہ جس شخص نے بلاواسطہ شیخ سے سنا ہو اور جس نے مستملی سے روایت کی ہو دونوں کا ایک ہی درجہ قرار دے دیا جائے، مستملی کبھی کبھی نہایت غافل بے سمجھ بھی ہوتے تھے، اس لیے غلطیوں کا احتمال اور بھی زیادہ ہوجاتا تھا، اس پس منظر میں امام صاحب کی وہ شرط، جس کی وضاحت امام حاکم نے اپنی کتاب المدخل میں کی ہے وہ بجا معلوم ہوتی ہے؛ اگرچہ فی نفسہ یہ شرط سخت ہے؛ مگراس میں جس قسم کا احتیاط ہے اہلِ علم سے مخفی نہیں۔ اسی طرح محدثین کے درمیان یہ رائج تھا کہ وہ شیوخ وصحابہ کی نسبت حدثنا کا لفظ استعمال کرتے تھے اور مراد یہ لیتے تھے کہ ان کے شہروالوں نے ان شیوخ سے سنا تھا، محدث بزار نے لکھا ہے کہ حسن بصریؒ نے ان لوگوں سے روایت کی ہے، جن سے وہ کبھی نہیں ملے اور تاویل یہ کرتے تھے کہ ان کی قوم نے وہ حدیث ان لوگوں سے سنی تھی، یہ امر علاوہ اس کے کہ ایک قسم کی غلط بیانی تھی اور حدیث کی سند اس کی وجہ سے مشتبہ ہوجاتی تھی؛ کیونکہ راوی نے خود شیخ سے حدیث نہیں سنی، توبیچ میں کوئی واسطہ ہوگا اور چونکہ راوی نے اس کا نام نہیں بتایا کہ اس کے ثقہ اور غیرثقہ ہونے کا حال نہیں معلوم ہوسکتا، صرف حسن ظن پر مدار رہ جاتا ہے کہ ایسے شخص نے جس سے سنا ہوگا وہ ضرور قابل استناد ہوگا اور بس۔ امام ابوحنیفہؒ نے اس طریقہ کوجائز قرار نہیں دیا اور یہ شرط لگائی کہ جب تک بلاواسطہ کسی محدث سے حدیث نہ سنے اسے حدثنا یااخبرنا کے ذریعہ حدیث بیان کرنا درست نہیں ہے، یہ شرط بھی اس وقت کے ماحول کے اعتبار سے اگرچہ سخت ہے؛ لیکن اس میں جواحتیاط ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں، اسی طرح جب کسی شخص سے کوئی محدث کچھ حدیثیں سنے اور اسے قلمبند کرکے ان اجزاء کی صورت میں ان کومحفوظ کرلے تواس کوروایت کرنا وہ جائز سمجھتے تھے؛ خواہ قلمبند کرنے کے بعد راوی کوان حدیثوں کے الفاظ ومعانی یاد رہے ہوں یانہ رہے ہوں، محض اجزاء کے موجود ہونے کی بناء پر ان کی روایت کرسکتا ہے، امام ابوحنیفہؒ نے اگرچہ اس طریقہ کوقائم رکھا؛ لیکن یہ قید لگائی کہ حدیث کے الفاظ ومطالب سننے کے وقت سے بیان کرنے کے وقت تک وہ محفوظ ہونے چاہئیں؛ ورنہ روایت جائز نہیں۵؎۔ اسی طرح امام ابوحنیفہؒ نے روایت بالمعنی کے متعلق نہایت معتدل طریقہ اختیار کیا ہے، امام صاحبؒ نے ان حدیثوں کواگرچہ قبول کیا ہے؛ لیکن اس میں یہ قید لگائی کہ رواۃِ حدیث فقیہ ہوں یعنی الفاظ کے معنی ومطالب سے واقف ہوں؛ مگرجن احادیث کے رواۃ غیرفقیہ ہوں، ان کی روایت کوغیرمعتبر قرار نہیں دیا؛ بلکہ یہ فرمایا کہ غیرفقیہ ثقہ راویوں کی روایت بھی معتبر ہے؛ لیکن ان کا درجہ فقیہ ثقہ راویوں سے کم ہوگا؛ چنانچہ امام اوزاعیؒ کے مناظرہ میں آپؒ نے حضرت حماد اور ابراہیم کوفقاہت کی وجہ سے حضرت نافع پر ترجیح دی۶؎؛ جب کہ اس طرح کا فرق دیگر محدثین کے یہاں نہیں پایا جاتا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ نے جس طرح سلسلۂ سند کے راویوں کے ثقہ ہونے کا لحاظ کیا؛ اسی طرح متونِ حدیث کوجانچنے کے لیے درایت کے لحاظ سے بھی کچھ اصول وضوابط متعین کیئے؛ جب کہ اس سے پہلے کسی محدث نے درایت کے اصول وضع نہیں کئے تھے، آپ کواس میں سبقت حاصل ہے؛ چنانچہ آپ نے اصول درایت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: (۱)مضمونِ حدیث، قرآنی آیت کے خلاف نہ ہو۔ (۲)مضمونِ حدیث، عقل قطعی کے خلاف نہ ہو۔ (۳)مضمونِ حدیث واقعات اور اصول مجمع علیہا کے مخالف نہ ہو۔ (۴)مضمونِ حدیث میں حس ومشاہدہ کے خلاف کوئی بات نہ ہو۔ (۵)مضمونِ حدیث میں شانِ نبوت کے منافی کوئی امر نہ ہو۔ (۶)اسی طرح روز مرہ کے عبادات ومعاملات میں حضورؐ ﷺ کی طرف کوئی قول منسوب ہوتواکثر صحابہؓ کا اس سے واقف رہنا ضروری ہے؛ اگرکسی روز مرہ عبادات یامعاملات میں کوئی حدیث سامنے آئی توامام ابوحنیفہؒ اس خیال سے کہ اس سے اور صحابیوں کا واقف رہنا ضروری ہے، شہادت طلب کرتے تھے؛ اگرشہادت پیش نہ کی جاتی توقواعد درایت سے اس حدیث کی جانچ وتحقیق فرمایا کرتے۷؎۔ ان اصول درایت پر ذرا غور کیا جائے کہ وضاعین وکذابین نے نبی کریمﷺ پر جس قسم کا افتراء کیا ہے، اس کے جانچنے کے لیے کیسے اہم اصول امام صاحب ؒنے وضع کیئے تھے اور اس کی روشنی میں جس طرح حدیث منقح ہوجاتی ہے، وہ محتاج بیان نہیں، اس لیے حضرت امام بخاریؒ وامام ابوداؤدؒ کے استاذ علی بن جعدؒ فرمایا کرتے تھے: "ابوحنیفۃ اذا جاء الحدیث جاء بہ مثل الدر"۸؎۔ امام ابوحنیفہؒ جب حدیث بیان کرتے ہیں تووہ موتی کی طرح آبدار ہوتی ہے۔ اگر اس احتیاط کی وجہ سے آپ نے احادیث کم بیان کیں توطعن کرنا درست نہیں ہے؛ جیسا کہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان غنیؓ مکثرین حدیث میں نہیں ہیں، کیا ان جیسے اجلۂ صحابہؓ کے بارے میں یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ انھوں نے احادیث سے بے اعتنائی برتی اور انھیں حدیث معلوم نہ تھی؟ بلاشبہ یہی نظریہ امام ابوحنیفہؒ کے بارے میں قائم کرنا قرینِ صواب اور انصاف ہوگا۔ (۱)ماتمس الیہ الحاجہ:۱۱۔ (۲)ماتمس الیہ الحاجہ:۱۱۔ (۳)تحفۃ الاحوذی:۲/۱۵۔ (۴)ماتمس الیہ الحاجہ:۱۱۔ (۵)سیرت ائمہ اربعہ:۱۲۴۔۱۲۶۔ (۶)امام ابوحنیفہؒ:۵۳۔ (۷)امام ابوحنیفہؒ:۵۳۔ (۸)امام ابن ماجہ اور علم حدیث:۱۶۵۔