انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت قبیصہ بن عقبہؒ نام ونسب قبیصہ نام اورابو عامر کنیت تھی (المعارف لابن قتیبہ :۲۲۹)نسب نامہ یہ ہے،قبیصہ بن عقبہ بن محمد بن سفیان بن عقبہ بن ربیعہ بن جنید بن رثاب بن حبیب بن سواءۃ بن عامر بن صعصعہ (تہذیب التہذیب:۸/۳۴۷) جیسا کہ اس شجرہ نسب سے ظاہر ہے،ان کا نسبی تعلق بنو سواۃ سے تھا، اسی باعث سوائی کہلاتے ہیں۔ (اللباب فی تہذیب الانساب:۱/۵۷۴) ولادت اوروطن ان کے سنہ ولادت کے بارے میں کوئی تصریح تذکروں میں نہیں ملتی،لیکن بعض قرائن کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ: ۱۳۸ھ یا ۱۴۰ھ میں ان کی ولادت ہوئی،حافظ ابن حجر نے یحییٰ بن یعمر کا یہ قول نقل کیا ہے کہ امام قبیصہ یحییٰ بن آدم سے دو ماہ بڑے تھے (تہذیب :۸/۳۴۸) اورقاضی یحییٰ بن آدم کے سالِ ولادت کے بارے میں علماء کا قوی قرینہ مذکور ہ بالا سنین ہیں،بہرحال اتنا تو شک سے بالا ہے کہ قبیصہ کو امام ابن آدم کی معاصرت حاصل تھی،وہ کوفہ کے رہنے والے تھے۔ علم وفضل علمی کمالات کے اعتبار سے ممتاز اتباع تابعین کی جماعت میں داخل تھے انہوں نے تابعین عظام سے شرف لقا کے حصول کے ساتھ ان سے استفاضہ کی سعادت بھی حاصل کی تھی اوراکابر علماء کے فیض تربیت نے انہیں بلند علمی منصب عطا کردیا تھا۔زہد وورع، حفظ وذہانت،عبادت وریاضت اوراس کے ساتھ ثقاہت وعدالت،تمام اوصاف سے متصف تھے، یوں توحدیث ان کا اصل تمغہ امتیاز تھی،لیکن اس کے علاوہ بھی دوسرے علوم میں دسترس ومہارت رکھتے تھے،امام احمد فرمایا کرتے تھے کہ کونسا علم ہے جو قبیصہؒ کے پاس نہیں (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۴۲)اسحاق بن یسار بیان کرتے ہیں: مارأیت شیخا احفظ منہ (العبر فی خبر من غبر:۱/۳۶۸) میں نے ان سے بڑھ کر حافظِ حدیث نہیں دیکھا۔ ابن عماد الحنبلی "العابد الثقۃ احد الحفاظ"اورحافظ ذہبی "الحافظ الثقہ المکثر" لکھ کر ان کے علم وفضل کا اعتراف کرتے ہیں۔ (شذرات الذہب:۲/۳۵،وتذکرۃ الحفاظ:۱/۳۴۲) حدیث اوپر مذکور ہوا کہ امام قبیصہؒ کے فکر ونظر کی اصل جو لانگاہ حدیثِ نبویﷺتھی اس کی تحصیل انہوں نے نہ صرف عالی مرتبہ تبع تابعین سے کی تھی ؛بلکہ متعدد تابعین کے دامنِ فیض سے وابستہ رہ کر اس فن کے نکات واسرار میں مہارت پیدا کی تھی، اس کا اندازہ ان کے شیوخ حدیث کی درجِ ذیل فہرست سے بخوبی ہوجاتا ہے: مسعر بن کدام، عیسیٰ بن طہمان(تابعین) امام شعبہ،جراح بن ملیح (امام وکیع کے والد)سفیان ثوری،اسرائیل بن یونس، حماد بن سلمہ، یونس بن اسحاق،عبدالعزیز ابن الماجشون یحییٰ بن سلمہ ،حمزہ بن حبیب الزیات اوروہب بن اسماعیلؒ۔ (تہذیب التہذیب:۸/۳۴۷،وتذکرۃ الحفاظ:۱/۳۴۲) تلامذہ خود امام قبیصہؒ سے مستفیض ہونے اورسماعِ حدیث کرنے والے تشنگانِ علم کا دائرہ بہت وسیع ہے ان کے آفتابِ علم کی کرنوں سے امام بخاری اورابوزرعہ جیسے اعیان حفاظِ حدیث کے قلوب بھی منور ہوئے،کچھ نامور علماء کے نام یہ ہیں: ابوبکر بن ابی شیبہ حارث بن اسامہ،یحی بن بشر البلخی،ھناد بن السری، محمود بن غیلان،عثمان بن ابی شیبہ،محمد بن خلف،محمد بن یونس النسائی، بکر بن خلف،ابو عبید القاسم بن سلام، احمد بن حنبل، عباس الدوری، جعفر بن محمد الصائغ،اسحاق بن یسارؒ (تہذیب التہذیب:۸/۳۴۸) مرویات کا پایہ ماہرین جرح وتعدیل نے ان کی ثقاہت اورتثبت واتقان کو کثرتِ رائے سے تسلیم کیا ہے ،امام احمد فرماتے ہیں۔ کان قبیصۃ ثقۃ صالحاً لابأس بہ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۴۲) قبیصہ ثقہ صالح تھے ان کی روایات قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ابن خراش کا قول ہے "صدوق صالح" امام نسائی " لیس بہ باس" کہتے ہیں۔ جو بعض علماء ان کی مرویات کے قابلِ حجت ہونے پر کلام کرتے ہیں،وہ بھی علی الاطلاق انہیں ناقابلِ استناد نہیں قرار دیتے ؛بلکہ صرف مرویات سفیان ثوری کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ چونکہ قبیصہؒ نے امام ثوریؒ سے نہایت صغر سنی میں حدیث کا سماع کیا تھا اس لیے خاص امام سفیانؒ سے ان کی روایات کا پایہ ثقاہت اتنا بلند نہیں جتنا دوسرے شیوخ سے ان کی مرویات کا ہے؛چنانچہ ابن معین کا بہت صریح بیان ہے کہ: قبیصہ ثقۃ فی کلی شیئی الا فی حدیث سفیان فانہ سمیع منہ وھو صغیرٌ (تہذیب التہذیب:۸/۳۴۸) قبیصہ امام سفیان ثوری کی حدیث کے علاوہ ہر باب میں ثقہ ہیں ہاں سفیان سے انہوں نے صغر سنی میں سماعت کی تھی،(اس لیےوہ معتبر نہیں) لیکن خود امام قبیصہ کا بیان ہے کہ انہوں نے امام سفیان ثوری سے جس وقت شرفِ صحبت حاصل کیا ان کی عمر سولہ سال تین ماہ تھی(ایضاً:۳۴۶)اگر یہ صحیح ہے تو پھر ان کی سفیان ثوری سے روایت کردہ حدیثوں کے قابلِ حجت نہ ہونے کا کوئی سوال نہیں ہے ؛کیونکہ اس عہد میں سولہ سال کی عمر میں طالبانِ علم نہ صرف مسند نشین درس وافتاء ہوجاتےتھے ؛بلکہ ان کے فضل وکمال کا شہرہ چاردانگِ عالم میں پھیل جاتا تھا،مثال کے لیے امام شافعی کا نام کافی ہے۔ علامہ ابن سعد قبیصہ کی ثقاہت کے بارے میں رقمطراز ہیں: کان ثقۃ صدوقاً کثیرا الحدیث عن سفیان الثوری (طبقات ابن سعد:۱/۲۸۱) وہ ثقہ صدوق اورامام ثوری سے بکثرت روایت کرنے والے تھے۔ حافظ ابن اثیر الجزری لکھتے ہیں کہ وہ ثقہ اورکثیر الروایت تھے۔ (اللباب فی تہذیب الانساب:۱/۵۷۴) مناقب وفضائل وہ علم وفضل میں بلند پایہ ہونے کے ساتھ گوناگوں اخلاقی اور عملی محامد کا مجموعہ بھی تھے،عبادت وصالحیت،زہد وتقوی اورتواضع وانکسار ان کے خاص جوہر تھے،اسی باعث زاہد اورراہب کوفہ کے لقب سے ملقب ہوگئے تھے(شذرات الذہب:۲/۳۵) ان کے تلمیذ رشید ہناد السری جب بھی اپنے شیخ کا ذکر کرتے تو ان کی آنکھیں اشک آلود ہوجاتیں اورفرماتے کہ وہ نہایت صالح انسان تھے۔ (العبر فی خبر من غبر :۱/۳۶۸) حق گوئی اوربے باکی میں بھی اپنی مثال خود تھے، اربابِ سطوت وشوکت کے سامنے حق بات کہنے سے باز نہ رہتے تھے،جعفر بن حمدویہ اس سلسلہ کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار امیر ابودلف کا لڑکا دلف خدم وحشم کے ساتھ امام قبیصہ سے ملاقات کرنے ان کے گھر گیا،لیکن امام صاحب باہر نہیں نکلے،کسی نے حاضر ہوکر عرض کیا،حضرت! جبل کا شاہزادہ باہر کھڑا ہے اورآپ گھر سے نہیں نکلے ،راوی کا بیان ہے کہ شیخ اس عالم میں باہر تشریف لائے،کہ ان کی لنگی سے ایک خشک روٹی کا ٹکڑا لٹک رہا تھا اورفرمایا: من رضی بھذا ما یصنع بابن ملک الجبل وَاللہ لا احدثہ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۴۳) جو اس (روٹی کے ٹکڑے)پر راضی اورخوش ہے اسے شاہزادہ جبل سے کیا غرض بخدا میں اس سے ہرگز روایت بیان نہ کرونگا۔ وفات بروایتِ صحیح صفر۲۱۵ھ میں بمقام کوفہ وفات پائی،اس وقت مامون رشید اورنگ خلافت پر دادِ حکمرانی دے رہا تھا (طبقات ابن سعد:۲/۲۸۱) ابن اثیر نے صفر کی بجائے محرم کا ذکر کیا ہے۔ (اللباب فی تہذیب الانساب:۱/۵۷۵)