انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت ابو بصیرؓ نام ونسب عتبہ نام، ابو بصیر کنیت، نسب نامہ یہ ہے، عتبہ بن اسید بن جاریہ بن اسید بن عبداللہ ابن ابی سلمی بن غیرہ بن عوف بن ثقیف ،ماں کا نام سالمہ تھا،نانہالی شجرہ یہ ہے سالمہ بنت عبد بن یزید بن ہاشم بن مطلب اسلام اور قید محن ابو بصیر اس زمانہ میں مشرف باسلام ہوئے،جب تعزیراتِ مکہ میں اس کی ادنی سزا قید وبند تھی؛چنانچہ ابو بصیر اسلام کے جرم میں قید محن میں ڈال دیئے گئے۔ (سیرۃ ابن ہشام :۴/۱۷۲،۱۷۳) صلح حدیبیہ کے زمانہ میں جب آنحضرتﷺ مکہ تشریف لائے،تو ابو بصیر کسی نہ کسی طرح قید سے چھوٹ کر آپ کے پاس پہنچے، اس وقت صلح ہوچکی تھی،اس کی دفعات میں ایک دفعہ یہ بھی تھی کہ جو مسلمان مشرکین کے پاس سے بھاگ کر رسول اللہ کے پاس چلا جائے گا، اس کو آپ واپس کردیں گے،اس لیے ان کے آنے کے بعدہی ازہر بن عبد عوف اوراخنس بن شریق نے آنحضرتﷺ کے پاس آدمی بھیجے کہ و ہ معاہدہ کے رو سے ابو بصیرکو واپس لے آئیں،آنحضرتﷺ کو ابو بصیر کی واپسی کے نتائج معلوم تھے ،لیکن معاہدہ کی پابندی کے خیال سے آپ نے ابو بصیر سے فرمایا کہ "ہم نے ان لوگوں سے جو معاہدہ کیا ہے وہ تم کو معلوم ہے ،ہمارے مذہب میں بد عہدی اورفریب بہت بری چیز ہے،اس لیے اس وقت تم واپس چلے جاؤ، آئندہ خدا تمہاری اور دوسرے ناتواں اور مظلوم مسلمانوں کی رہائی کا کوئی نہ کوئی سامان کردیگا۔ ابو بصیر مشرکین کے مظالم کا تجربہ کرچکے تھے، اس لیے عرض کیا یا رسول اللہ !آپ مجھ کو مشرکین کے حوالہ کرتے ہیں کہ وہ میرے مذہب یں مجھے فتنہ میں مبتلا کریں،آپ نے فرمایا ابو بصیر جاؤ عنقریب اللہ تعالی تمہارے اور دوسرے کمزور مسلمانوں کے لیے کوئی راہ نکال دیگا، اس مکرر حکم کے بعد چون وچرا کی گنجائش نہ تھی،اس لیے راضی برضا ہوکر قریش کے آدمیوں کے ساتھ واپس چلے گئے۔ ذوالحلیفہ پہنچ کر ساتھ لیجانے والے آدمی کھجوریں کھانے کیلئے ٹھہر گئے،ابو بصیر نے ان میں سے ایک سے کہا واللہ تمہاری تلوار کتنی اچھی ہے،دوسرے نے بھی ان کی تائید کی، تلوار میان سے کھینچ کر کہا ہاں واللہ نہایت عمدہ تلوار ہے،میں نے اس کا بارہا تجربہ کیا ہے ابو بصیر نے کہا لاؤ ذرا میں بھی دیکھوں اورتلوار لیکر ایک شخص کو وہیں ڈھیر کردیا،دوسرا آدمی خوف سے بھاگ نکلا اورمدینہ جاکر مسجد نبویﷺ میں پہنچا،آنحضرتﷺ نے اسے بدحواس دیکھ کر فرمایا یہ خوف زدہ معلوم ہوتا ہے،قریب جاکر اس شخص نے واقعہ بیان کیا کہ میرا ایک ساتھی اس طرح سے مارڈالا گیا اورمیری جان بھی خطرہ میں ہے، ابھی یہ شخص واقعہ بیان کررہا تھا کہ ابو بصیر پہنچ گئے اورعرض کیا یا نبی آپ کو خدا نے ذمہ داری سے سبکدوش کردیا، آپ نے مجھے معاہدہ کے مطابق واپس کردیا تھا، خدا نے مجھے نجات دلادی، آنحضرتﷺ نے ان کی باتیں سن کر فرمایا کہ یہ شخص بھی آتش جنگ بھڑکانے کا آلہ ہے،اگر اسے کچھ مدد گار اورساتھی مل جائیں ،ابو بصیر نے یہ سنا تو سمجھے کہ آپ پھر لوٹا دینگے، اس لیے مدینہ سے ساحلی مقامات کی طرف نکل گئے ،کچھ دنوں کے بعد اسی قسم کے ایک اور ستم رسیدہ بزرگ حضرت ابو جندلؓ بھی پہنچ گئے، ان دونوں نے دوسرے بلا کشانِ ستم کے لیے راستہ کھول دیا اور مظلوم مسلمان قریش کے پنجہ ظلم سے بھا گ بھاگ کر یہاں جمع ہونے لگے،چند دنوں میں ان کی خاصی جماعت ہوگئی، اتفاق سے قریش کے کاروانِ تجارت کا گذر گاہ یہی تھا، جب کوئی قافلہ گذرتا تو یہ لوگ اہل قافلہ کو قتل کرکے سامان لوٹ لیتے، اس سے قریش کی تجارت خطرہ میں پڑ گئی؛چنانچہ انہوں نے عاجز آکر آنحضرتﷺ کے پاس آدمی بھیجا کہ خدا اور صلہ رحمی کا واسطہ اس مصیبت سے ہم کو نجات دلایے،آیندہ سے جو مسلمان بھاگ جائے گا وہ آزاد ہے اس پر کلام اللہ کی یہ آیت نازل ہوئی: وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ (الفتح:۲۴) ترجمہ:وہی ہے جس نے مشرکین کا ہاتھ تم سے اورتمہارا ہاتھ ان سے روک دیا۔ (بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد المصالح مع اہل الحرب وسیرۃ ابن ہشام حالات صلح حدیبیہ) وفات اس کے بعد آنحضرتﷺ نے اس آزاد گروہ کے پاس لکھ بھیجا کہ ابو جندل اورابو بصیر ہمارے پاس چلے آئیں اوردوسرے لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں،یہ خط ایسے وقت پہنچا کہ حضرت ابو بصیرؓ بستر مرگ پر تھے، خط ہاتھ میں لیکر پڑھتے پڑہتے روحِ قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی،ابو جندلؓ نے نماز جنازہ پڑھا کر اسی ویرانہ میں سپرد خاک کیا، اوریاد گار کے طور پر قبر کے پاس ایک مسجد بنادی۔ (استیعاب:۲/۲۴۶)