انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** صحابہ ؓ اور دوسرے راویوں میں فرق سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب دوسرے راویوں کے لیے جرح وتعدیل کی میزان ہے تو صحابہ اس قاعدہ سے کیوں نکل گئے؟نہ ان سے اتصال روایت کے مطالبہ ہے نہ ان پر جرح کی اجازت ہے نہ ان کی روایت کسی اور تائیدکی محتاج ہے کیا یہ حضرات عام بشری کمزوریوں سے بالا تھے کہ ان میں اور عام راویوں میں اتنا بڑا فاصلہ پیدا ہوگیا اتنا بڑا فرق آخر کیسے قائم ہوگیا؟۔ واقعہ ہے کہ صحابہ کی بشریت سے انکار نہیں، ان میں بشری احساسات بھی تھے اور بشری نفوس بھی تھے؛ لیکن ان کے دلوں کی پاکیزگی پر کتاب اللہ کی کھلی شہادت موجود ہے، ان کی طہارت قلبی پر قسم کھائی جاسکتی ہے، سو وہ ان بشری کمزوریوں سے یقیناً بالا تھے جو سچ اور جھوٹ حق اور باطل امانت اور خیانت میں فرق نہ کرسکیں، ان کے نفوس بشریہ کا اقرار اسی صورت میں لائق ذکر ہے کہ ساتھ ہی ان کی طہارت قلبی کا اعتراف ہو، ایک ایسے ہی مبحث سے حضرت ملا علی قاری کو گزرنا پڑا تو فرمایا: "اعلم ان الصحابۃ مع نزاھۃ بواطنھم وطہارۃ قلوبھم کانوا بشرا کانت لھم نفوس والمنفوس صفات تظہر فقد کانت نفوسھم تظہر بصفۃ وقلوبھم منکرۃ لذلک لیرجعون الی حکم قلوبھم وینکرون ماکان عن نفوسھم"۔ (شرح فقہ اکبر:۸۲) اسلام میں اصل الاصول قرآن پاک کی ہدایات ہیں، قرآن کریم میں ہے کہ اللہ تعالی نے صحابہ کرام کی تعلیم وتربیت آنحضرتﷺ کی ایک ذمہ داری ٹھہرائی تھی اور ان کے باطن کو پاک کرنا آپ کے فرائض رسالت میں شمار کیا تھا تو اب ان کی طہارت قلبی کا اقرار نہ کرنا دوسرے لفظوں میں یہ کفری بات کہنا ہے کہ آنحضرتﷺ اپنے فرائض رسالت کو ادا نہ کرسکے اور آپ نے صحابہ کو عمومی پاکیزگی نہ بخشی یہ سراسر الحاد ہے، اس میں اخص صحابہ ہی مراد نہ تھے، جیسے حضرت ابو بکر اور حضرت علی المرتضی ان حضرات پر تو کفر کا ایک لمحہ بھی نہ گزرا تھا، اللہ تعالی نے تو ان لوگوں کا تزکیہ (دلوں کو پاک کرنا)آپ کے ذمہ لگایا تھا جو پہلے کھلی گمراہی میں تھے، قرآن کریم میں آپ کے فرض رسالت زیادہ تر انہی لوگوں سے متعلق ہیں جو پہلے کفر میں مبتلا تھے۔ "وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ"۔ (ال عمران:۱۶۴) ترجمہ:اور بے شک اس سے پہلے وہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے۔ آنحضرتﷺ نے اپنے فرائض رسالت اس خوبی سے سر انجام دئیے کہ آپ کا ایک صحابی بھی ایسا نہ تھا جو عمداً جھوٹ بولتا ہو اور غیر ثقہ ہو، شیخ الاسلام علامہ بدرالدین عینیؒ لکھتے ہیں "لیس فی الصحابۃ من یکذب وغیر ثقۃ" (عمدۃ القاری:۲/۱۰۵)صحابہ میں ایک بھی ایسا نہ تھا جو جھوٹ بولتا ہو اور ثقہ نہ ہو، یہ کسی عالم یا مجتہد کی بات نہیں، خود اللہ تعالی نے ان صحابہؓ کے باطن کی خبر دی تھی اور یہاں تک فرمایا کہ بے شک وہ اس کے اہل تھے: "وَاَلْزَمَہُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰى وَکَانُوْٓا اَحَقَّ بِہَا وَاَہْلَہَا"۔ (الفتح:۲۶) ترجمہ:اور قائم رکھا اللہ نے انہیں تقوی کی بات پر اور حق یہ ہے کہ وہ اس کے لائق تھے اوراس کے اہل تھے۔ یہ قرآن پاک کی شہادت ہے جس میں کسی قسم کا شک نہیں کیا جاسکتا جو شخص عام صحابہ کے بارے میں کلمہ تقوی لازم ہونے کا قائل نہ ہواور ان کی اہلیت میں اس لیے شک کرے کہ وہ پہلے کھلی گمراہی میں تھے وہ صریح طور پر منکر قرآن ہے، حدیث میں کلمۃ التقوی کی تفسیر لاالہ الاللہ سے کی گئی ہے؛ سو تقوے اور طہارت کی بنیاد یہی کلمہ ہے جس کو اٹھانے اور اس کا حق ادا کرنے کے لیے اللہ تعالی نے اصحاب رسول کو چن لیا تھا اور بلا شبہ اللہ کے علم میں وہی اس کے مستحق اور اہل تھے، اللہ تعالی نے صحابہ کرام کی شخصیات کریمہ کو اس طرح اخلاق فاضلہ سے جلا بخشی تھی کہ کفر گناہ اور نافرمانی سے انہیں طبعاً متنفرکردیا تھا اور ایمان کو ان کے دلوں کی طلب اور زینت بنادیا تھا،اللہ تعالی نے صحابہ کرام کو خطاب کرتے ہوئےفرمایا: "وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ"۔ (الحجرات:۷) ترجمہ:لیکن اللہ نے تمہارے دل میں ایمان کی محبت ڈالدی ہے اور اسے تمہارے دلوں میں پرکشش بنادیا ہے اور تمہارے اندر کفر کی اور گناہوں اور نافرمانی کی نفرت بٹھادی ہے۔