انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حدیث کا غریب ہونا اس کی صحت کے منافی نہیں یادرکھیئے حدیث کا غریب ہونا اس کی صحت کے منافی نہیں، حدیث غریب حدیث صحیح کی ہی ایک قسم ہے، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ مقدمہ مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں: "الحديث الصحيح إن كان راويه واحدا يسمى غريبا وإن كان اثنين يسمى عزيزا وإن كانوا أكثر يسمى مشهورا ومستفيضا وإن بلغت رواته في الكثرة إلى أن يستحيل في العادة تواطؤهم على الكذب يسمى متواترا ويسمى الغريب فردا أيضا..... وعلم مماذكر أن الغرابة لاتنافي الصحة ويجوز أن يكون الحديث صحيحا غريبا بأن يكون كل واحد من رجاله ثقة"۔ (مقدمہ مشکوٰۃ:۶، دہلی، وقدیقع بمعنی الشاذ) ترجمہ: حدیث صحیح کاراوی اگرایک ہی ہوتو اسے غریب کہیں گے، دوہوں توبھی اسے عزیز کہیں گے اور اگرراوی دوسے زیادہ ہوں تواسے مشہور اور مستفیض کہیں گے اور اگراسکے راوی کثرت میں اس درجے تک پہنچیں کہ عادۃ ان کا جھوٹ پر اتفاق کرلینا محال ٹھہرے تواسے متواتر کہیں گے، حدیث غریب کوفرد بھی کہتے ہیں (اکیلی) اور اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی حدیث کا غریب ہونا اس کے صحیح ہونے کے منافی نہیں اور ہوسکتا ہے کہ ایک حدیث صحیح بھی ہو اور غریب بھی کہ راوی تواس کے ایک ایک ہی ہوں لیکن سب ثقہ ہوں۔ امام ترمذیؒ نے کتاب العلل میں حدیث غریب پر بحث کی ہے، جن وجوہ غرابت کا آپ نے ذکر کیا ہے (کتاب العلل:۶۴۰، لکھنؤ) وہ حدیث صحیح میں بھی ہوسکتے ہیں، حدیث کی یہ مختلف قسمیں مختلف درجوں کا علم بخشتی ہیں، حدیث متواتر سے اس یقینی درجے کا علم حاصل ہوتا ہے کہ اس کا منکر بے شک کافر ٹھہرتا ہے، حدیث احاد مشہور کے درجہ تک پہنچے تواس کا منکرسخت گمراہ قرار پائے گا، سند کی قلت وکثرت کے باعث ان روایات سے جس درجے کا ثبوت ملے گا اس سے علم کے مختلف درجات قائم ہوں گے، اخبار احاد کتنی ہی کیوں نہ ہوں ان سے حاصل شدہ علم علم ظنی ہی شمار ہوگا؛ لیکن یہ ظن اس درجے میں نہیں کہ اسے یونہی ٹھکرادیا جائے، اس سے جوعلم حاصل ہوتا ہے اپنی جگہ عمل کے لیئے کافی ہے اورخبرِواحد اگرصحیح ہوتوسوائے گمراہ کے اس کا کوئی منکر نہ ہوگا۔