انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** پٹی پر مسح اللہ تعالی نے فرمایا:‘ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍوہی ذات ہے جس نے تمہیں چنا اورتمہارے لئے دین میں کوئی مشقت نہیں رکھی۔ (الحج:۷۸) اگر کوئی عضو زخمی ہو جائے اور اسے پٹی سے باندھ دیا جائے اور اب پٹی والا نہ اس عضو کو دھو سکتا ہے اور نہ اس کا مسح کر سکتا ہے تو عضو پر بندھی ہوئی پٹی کے اکثر اوپری حصہ پر مسح کرے۔ حوالہ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَمْسَحُ عَلَى الْجَبَائِرِ(دار قطني باب مَا فِى الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ بِغَيْرِ تَوْقِيتٍ ۷۹۹) بند اور زخم کے بھرنے تک مسلسل مسح کرتا رہے۔ حوالہ عن الاشعث قال سألت إبراهيم عن المسح على الجبائر فقال امسح عليها مسحا فالله أعذر بالعذر(مصنف عبد الرزاق باب المسح على العصائب والجروح ۶۲۲) بند پٹی کو پاکی کی حالت میں باندھنا شرط نہیں۔ حوالہ عن إبراهيم ، « أنه قال في الرجل يجنب وعليه الجبائر قال :يمسح عليهما ، وكذلك إن توضأ مسح على الجبائر »(الاثار لابي يوسف باب المسح على الخفين ۷۵/۱) بند اسی طرح جب عضو ٹوٹ جائے اور اس پر پٹی باندھی جائے تو زخم بھرنے تک پٹی پر مسح کیا جائے گا، پٹی کو پاکی پر باندھنا شرط نہیں ، دوپیروں میں سے ایک پیر کی پٹی پر مسح کرنا اور دوسرے پیر کو دھونا جائز ہے۔حوالہ عن عاصم بن سليمان قال دخلنا على أبي العالية الرياحي وهو وجع فوضؤوه فلما بقيت إحدى رجليه قال امسحوا على هذه فإنها مريضة وكان بها حمرة والحمرة الورم (مصنف عبد الرزاق باب المسح على العصائب والجروح ۶۲۸) بند زخم بھرنے سے پہلے پٹی کے گرنے سے مسح باطل نہیں ہوتا، اس پٹی کو دوسری پٹی سے بدلنا جائز ہے ، اس پر مسح کا لوٹانا ضروری نہیں ، لیکن بہتر یہ ہے کہ پٹی بدلنے کے بعد مسح کو لوٹا یا جائے۔حوالہ فَإِنْ سَقَطَتْ لَا عَنْ بُرْءٍ فِي الصَّلَاةِ مَضَى عَلَيْهَا ، وَلَا يَسْتَقْبِلُ ، وَإِنْ كَانَ خَارِجَ الصَّلَاةِ يُعِيدُ الْجَبَائِرَ إلَى مَوْضِعِهَا ، وَلَا يَجِبُ عَلَيْهِ إعَادَةُ الْمَسْحِ ، وَكَذَلِكَ إذَا شَدَّهَا بِجَبَائِرَ أُخْرَى غَيْرَ الْأُولَى ، بِخِلَافِ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ إذَا سَقَطَ الْخُفُّ فِي حَالِ الصَّلَاةِ أَنَّهُ يَسْتَقْبِلُ ، وَإِنْ سَقَطَ خَارِجَ الصَّلَاةِ يَجِبُ عَلَيْهِ الْغَسْلُ ، وَالْفَرْقُ أَنَّ هُنَاكَ سُقُوطَ الْغَسْلِ لِمَكَانِ الْحَرَجِ كَمَا فِي النَّزْعِ ، فَإِذَا سَقَطَ فَقَدْ زَالَ الْحَرَجُ ، وَهَهُنَا السُّقُوطُ بِسَبَبِ الْعُذْرِ ، وَأَنَّهُ قَائِمٌ فَكَانَ الْغَسْلُ سَاقِطًا ، وَإِنَّمَا وَجَبَ الْمَسْحُ ، وَالْمَسْحُ قَائِمٌ ، وَإِنَّمَا زَالَ الْمَمْسُوحُ ، كَمَا إذَا مَسَحَ عَلَى رَأْسِهِ ، ثُمَّ حَلَقَ الشَّعْرَ أَنَّهُ لَا يَجِبُ إعَادَةُ الْمَسْحِ ، وَإِنْ زَالَ الْمَمْسُوحُ كَذَلِكَ هَهُنَا (بدائع الصنائع مَطْلَبُ نَوَاقِضِ الْمَسْحِ عَلَى الْجَبَائِرِ: ۵۴/۱) بند اگر کسی کو آشوب چشم ہو جائے اور اس کو ماہر مسلم، ڈاکٹر آنکھوں کو دھونے سے منع کردے تو اس کے لئے مسح کرنا جائزہے۔حوالہ عن بن جريج قال قلت لعطاء أرأيت إن اشتكيت أذني فاشتد علي أن أغسلها قال لا تنقها وأمسها الماء فقط (مصنف عبد الرزاق باب المسح على العصائب والجروح ۶۲۷) بند موزوں ، پٹی اور سر پر مسح میں نیت شرط نہیں ، نیت تو تیمم میں شرط ہے۔حوالہ موزوں، پٹی اور سرپرمسح اصل یعنی وضو کے اجزا ہیں اور وضو کے لیے نیت ضروری نہیں؛ اس لیے کہ وضو پانی سے ہوتا ہے اور پانی کی خلقت ہی طہارت کے لیے ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے : وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ (الانفال: ۱۱)وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا (الفرقان: ۴۸) اور جب اس کی فطرت ہی پاک کرنا ہوتو نیت کی ضرورت نہیں ہے؛ جیسا کہ مذکورہ آیات سے معلوم ہوا؛ البتہ نیت کرنے سے ثواب ملے گا اور مٹی اصلاً پاکی کے لیے نہیں بنائی گئی؛ بلکہ مجبوراً اور ضرورۃ اسے پاکی کے لیے استعمال کی اجازت دی گئی؛ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا (النساء: ۴۳) اس لیے تیمم میں نیت کوشرط قرار دیا گیا۔ بند