انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سجاح اورمالک بن نویرہ بنو تمیم چند قبائل پر مشتمل اورچند بستیوں میں سکونت پذیر تھے،ان کے علاقے پر حیات نبوی صلی اللہ علیہ میں چند عامل جو کہ اُنہیں کی قوم کے مقرر تھے جن کے نام مالک بن نویرہ ،وکیع بن مالک ،صفوان بن صفوان ،قیس بن عاصم وغیرہ تھے،جب وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر مشہور ہوئی تو قیس بن عاصم مرتد ہوگیا، مالک بن نویرہ نے بھی اس خبر کو سُن کر مسرت کا اظہار کیا ،صفوان بن صفوان اسلام پر قائم رہے اور قیس وصفوان میں جنگ شروع ہوگئی،اسی اثنا میں سجاح بنت الحرث بن سوید نے جو قبیلۂ تغلب سے تعلق رکھتی تھی،نبوت کا دعویٰ کیا، اوربنی تغلب کے سردار ہذیل بن عمران نے اوربنی تمر کے سردار عقبہ بن ہلال اوربنی شیبان کے سردار سلیل بن قیس نے اس کے دعوے کو قبول کیا، سجاح کے پاس چار ہزار کے قریب لشکر جمع ہوگیا، وہ اس لشکر کو لے کر مدینہ پر حملہ کرنے کے ارادے سے چلی، بنو تمیم کے اندر اختلاف پیدا ہو ہی گیا تھا،مالک بن نویرہ نے سجاح سے مصالحت کرکے اس کو مشورہ دیا کہ بنو تمیم کے دوسرے قبائل پر حملہ کرے اوراس طرح بنو تمیم کو مجبور کرکے اپنے ساتھ لے کر مدینہ کی طرف جائے،سجاح نے بنو تمیم پر حملہ کیا،بنو تمیم نے مقابلہ کرکے اُس کے لشکر کو شکست دی مگر پھر صلح ہوگئی۔ اب سجاح مالک بن نویرہ اوروکیع بن مالک کو ہمراہ لے کر چلی تھوڑی دور جاکر اور کچھ سوچ کر یہ دونوں سردار بنو تمیم کے جدا ہوکر واپس چلے گئے ،سجاح اپنے لشکر کو لئے ہوئے آگے بڑھی ،سجاح نے اپنے پیروؤں کے لئے پنجوقتہ نماز تو لازمی رکھی تھی ،مگر سوّر کا گوشت کھانا،شراب پینا اورزنا کرنا جائز قرار دے دیا تھا،بہت سے عیسائی بھی اپنا مذہب چھوڑ کر اُس کی جماعت میں شامل ہوگئے تھے۔ اب سجاح کو بنی تمیم کی بستیوں سے آگے بڑھ کر معلوم ہوا کہ خالد بن ولیدؓ لشکر اسلام لئے ہوئے اس طرف تشریف لارہے ہیں ، ادھر مسیلمہ کذاب کی جماعت کثیرہ کا حال سن کر اس کو تردد ہوا کہ کہیں وہ بھی نبوت کا مدعی ہونے کے سبب رقابت اورمخالفت پر آمادہ نہ ہوجائے،مسیلمہ کذاب نے جب سجاح کے لشکر کا حال سنا، تو وہ بھی اپنی جگہ متردد ہوا کہ ایک طرف اسلامی لشکر کا خطرہ ہے اور دوسری طرف سجاح عظیم لشکر لئے ہوئے نکلی ہے،اگر اس طرف متوجہ ہوگئی تو بڑی دقت پیش آئے گی،ادھر عکرمہؓ اورشرجیل بھی اپنی جمعیت لئے ہوئے یمامہ کے قریب پہنچ چکے تھے اور مسیلمہ وسجاح کو ایک دوسرے کا شریک کا رسمجھ کر احتیاط کو کام میں لارہے تھے،بالآخر مسیلمہ نے سجاح کو خط لکھا کہ تمہارا ارادہ کیا ہے،سجاح نے جواب دیا کہ میں مدینہ منورہ پر حملہ کرنا چاہتی ہوں میں نبی ہوں اور سنا ہے کہ آپ بھی نبی ہیں،لہذا مناسب یہ ہے کہ ہم دونوں مل کر مدینہ پر حملہ کریں، مسیلمہ نے فوراً پیغام بھیجا کہ جب تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ تھے اُس وقت تو میں نے آدھا ملک اُن کے لئے چھوڑدیا تھا اورآدھے ملک کو اپنا علاقہ سمجھتا تھا،اب اُن کے بعد تمام ملک پر میرا حق ہے،لیکن چونکہ تم بھی نبوت کی مدعی ہو لہذا میں آدھی پیغمبری تم کو دے دوں گا ،بہتر یہ ہے کہ اپنے لشکر کو وہیں چھوڑ کر تنہا میرے پاس چلی آؤ تاکہ تقسیم پیغمبری اورمدینہ پرحملہ آوری کے متعلق تم سے تمام گفتگو اورمشورہ ہوجائے۔