انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** دولتِ قرامطۂ باطنیۂ فارس قرامطٔ بحرین کا حال اوپر مذکور ہوچکا ہے،اُن کی سلطنت کے برباد ہونے کے بعد قرامطہ کے عقائد و اعمال میں ایک خاص تبدیلی پیدا ہوئی،اگرچہ قرامطۂ بحرین کے بادشاہ اعظم کے اعمال و عقائد دوسرے قرامطہ سے جُدا تھے اوراُس کو مصر کے عبیدی بادشاہ سے سخت نفرت تھی،لیکن قرامطہ کی عام جماعت مصر کے عبیدی فرماں روا کو محبت و عقیدت کی نظر سے دیکھیتی اور اُس کو اپنا خلیفہ مانتی تھی،اب جبکہ بحرین کی حکومت اُن کے قبضے سے نکل گئی اور عراق وشام میں اُن کے لئے کوئی جائے پناہ نہ رہی تو انہوں نے خفیہ طور پر اپنی انجمنیں قائم کیں اوربظاہر مسلمانوں میں ملے جلے رہے اُن خفیہ جماعتوں کے ذریعہ انہوں نے اپنی تبلیغ اوراپنی جماعت کے ترقی دینے کا سلسلہ جاری کیا، عبید یوں کی طرح انہوں نے جا بجا اپنے داعی مقرر کردئیے، ان داعیوں کی جماعت اپنے رازوں کو بہت محفوظ رکھتی تھی زاہدوں اور پیروں کے لباس میں یہ لوگ نظر آتے اور لوگوں کو اپنا مرید بناتے پھرتے تھے،ان مریدوں میں جس شخص کو وہ اپنے ڈھب کاپاتے اُس کو رفیق کا خطاب دیتے اوراپنے مخصوص عقائد تعلیم کرتے رہتے تھے،اس طرح ان میں دو طبقے تھے،ایک داعیوں کا اور دوسرا رفیقوں کا شام، عراق،فارس اورخراسان میں ہر جگہ داعی پھیل گئے،مصر کے عبیدی بادشاہ نے ان کی سر پرستی اور ہر قسم کی امداد کی؛چنانچہ مصر سے ان داعیوں کے پاس خفیہ طور پر ہر قسم کی امداد پہنچتی رہتی تھی اورسلطنت اسلامیہ کی بربادی کے لئے عبیدیوں نے اسلامی ممالک میں قرامطہ کے داعیوں کا ایک جال غیر محسوس طریقہ پر پھیلادیا تھا،ادھر سلجوقی خاندان ممالک اسلامیہ پر قابض ومتسلط ہورہا تھا اوراس پوشیدہ دشمن سے قطعاً بے خبر تھا،قرامطہ بحرین کی حکومت کے مٹنے کے بعد قرامطہ کی تمام تعلیم یافتہ اورہوشیار جماعت داعیوں کے لباس میں تبدیل ہوگئی تھی اوراسی لئے عبیدی سلطنت کو مصر سے عراق (خراسان کی طرف آدمیوں کے بھیجنے کی ضرورت پیش نہیں آئی؛چونکہ یہ لوگ ایک مٹی ہوئی سلطنت کے سوگوار تھے،اس لئے موقعہ پاکر ڈاکہ ڈالنے اور لوگوں کو قتل کرنے میں اُنہیں کوئی باک نہ تھا؛چنانچہ یہی داعی یا پیراپنے رفیقوں یعنی خاص مریدوں کے مدد سے رہزنوں اور ڈاکوؤں کے لباس میں بھی تبدیل ہوجاتے تھے،اُنہوں نے اپنے مُریدوں کو تعلیم دی تھی کہ ہر اُس شخص جو ہمارا ہم عقیدہ نہیں ہے قتل کرنا کوئی جرم کا کام نہیں، اسی لئے ان کے وجود سے مسلمانوں کو سخت مصائب وشدائد میں مبتلا ہونا پڑا؛چونکہ ان کی کماحقہ،سرکوبی ابتدا میں نہ ہوسکی اس لئے ان کے حوالے بہت بڑھ گئے تھے،مسلمان سرداروں کو چُھپ چُھپ کر قتل کرنا اُنہوں نے اپنا خاص شیوہ بنالیا تھا،جس جگہ کوئی حاکم نہایت چست اورچوکس ہوتا وہاں یہ بالکل خاموش اور روپوش رہتے،لیکن جس جگہ انتظام سلطنت کو کسی قدر کمزور پاتے وہاں قتل وغارت کے ہنگاموں سے قیامت برپا کردیتے ؛چونکہ قرامطہ نے منافقت اورتقیہ کا لباس پہن لیا تھا اور مسلمانوں کو دھوکہ دینا وہ کار خیر سمجھتے تھے اس لئے اُن کو یہ بھی مواقع مل جاتا تھا کہ وہ سلطنت وحکومت کی اہل کاریوں اورسرداریوں پر بھی فائز ہوجاتے تھے؛چنانچہ نواح ہمدان میں ان کا ایک شخص کسی قلعہ کا قلعہ دار مقرر کردیا گیا،اُنہوں نے اُس قلعہ کو اپنا مامن بناکر اُس کے نواح میں خوب زور شور سے ڈاکہ زنی اورلوٹ مار شروع کردی،چونکہ اُن کی جماعت خفیہ طور پر اپنا کام کرتے تھی اس لئے ان کو باطینہ گروہ کہنے لگے،ان باطینوں نے رفتہ رفتہ ترقی کرکے اصفہان کے قلعہ شاہ ورپر قبضہ کرلیا، تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ باطینہ کے داعیوں میں ایک مشہور اور ہوشیار شخص عطاش نامی تھا جو اپنےہم چشموں میں علم وفضل کے اعتبار سے ممتاز تھا،اُسی نے حسن بن صلح کو اپنے عقائد کی تعلیم دی اوراپنا شاگرد خاص بنایا تھا۔