انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** نجاشی حبش نجاشی حبش کا ایک غیر مسلم مگر عادل حکمران تھا، اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جب مسلمانوں کو تختۂ مشق ستم بنایاگیا تو رسول اکرم ﷺ نے صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کو مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے اور اس کی حمایت میں زندگی بسر کرنے کا حکم دیاتھا، حضور اکرم ﷺ کے الفاظ یہ تھے : تم لوگ ملک حبش کی طرف نکل جاؤ کیونکہ وہاں ایسا بادشاہ حکمراں ہے جو کسی پر ظلم نہیں ہونے دیتا اور وہ سرزمین عدل ہے۔ چنانچہ وہاں بہت سے صحابہ ؓ تشریف لے گئے جن میں حضرت عثمانؓ ، حضرت زبیرؓ اور حضرت جعفرؓ شامل تھے ،یہ اصحاب وہاں رسول اکرم ﷺ کےہجرت مدینہ کے بعد بھی امن و اطمینان کی زندگی بسر کرتے رہے؛ چنانچہ حضرت جعفرؓ اور ان کے چند ساتھی تو ۷ ہجری میں فتح خیبر کے بعد پہنچے ، ان مہاجرین کے اعلیٰ اخلاق و اعمال سے نجاشی کافی متاثر ہوا، چنانچہ صلح حدیبیہ کے بعد جب رسول اکرم ﷺ نے اس کو دعوت اسلام دی تو اس نے اس دعوت کوبہ سرو چشم قبول کیا ، ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب مظلوم مسلمان ایک غیر مسلم مگر عادل بادشاہ کے ملک میں ہجرت کر سکتے ہیں تو جو لوگ وہاں کے اصل باشندے ہیں ان کے وہاں سے منتقل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، خلفائے راشدین کے زمانہ میں غیر مسلم علاقوں میں جو لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے ان کو بھی ترک وطن کا حکم نہیں دیا گیا۔ ۲)کسی غیر مسلم علاقہ سے ترک وطن کرکے مسلم حکومت میں چلاجانا ہجرت نہیں کہلاسکتا جب تک مقصد اﷲ تعالیٰ کی رضاجوئی اور احکام خداوندی پر عمل نہ ہو ، اگر کوئی شخص بلاد کفر سے اس لئے ہجرت کرتا ہے کہ اسے مال و دولت یا عہدہ و عزت یا کوئی دوسرا دنیوی مفاد حاصل ہو تو اسے ہرگز ہجرت کا ثواب نہیں مل سکتا ۔ خود عہد نبوی میں ایک صاحب مکہ معظمہ سے ترک وطن کرکے مدینہ منورہ پہنچے ، مقصد یہ تھا کہ ایک بی بی اُم قیس سے شادی کریں جو ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئی تھیں ، رسول اﷲﷺ کو معلوم ہوا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کسی کی ہجرت طلب دنیا کے لئے ہوگی یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے تو اس کی ہجرت اسی مقصد کے لئے سمجھی جائے گی دین سے اس کا تعلق نہ ہوگا (متفق علیہ )چنانچہ ان صاحب کا نام ہی مہاجر اُم قیس مشہور ہوگیا۔ ۳)زمانہ حال کے ایک ممتاز مفسّر علامہ رشید رضاء کی رائے یہ ہے کے چونکہ ہجرت کا اصل مقصد احکام اسلام پر عمل کی آزادی حاصل ہونا ہے اسی لئے ہجرت غیر مسلم علاقہ ہی سے مخصوص نہیں ہے، اگر کسی ملک میں جس کا اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ یہ آزادی برقرار نہ رہے اور جو اصحاب علم امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ اد ا کرنا چاہیں ان پر پابندیاں عائد کردی جائیں اور وہ اصلاح حال سے قاصر ہوں تو ان کو بھی اس ملک سے ہجرت کرنی چاہیے۔ ۴) ہجرت کرکے جانے کے لئے بھی مسلم ملک ہی ضروری نہیں ہے ؛بلکہ غیر مسلم ملک کی طرف بھی ہجرت کی جاسکتی ہے اگر وہاں احکام اسلام پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہو، ظاہر ہے کہ ملک حبش ایک غیر اسلامی ملک تھا اور جب مسلمانوں نے وہاں ہجرت کی تو شاہ حبش بھی غیر مسلم ہی تھا ؛لیکن اس نے مسلمانوں کو اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے وہاں رہنے کی اجازت دی،