انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** غزوہ قرقرۃ الکدر یا بنی سُلیم(محرم۳ہجری) طبقات ابن سعد کے مطابق نصف محرم ۳ ہجری کو حضور ﷺکو اطلاع ملی کہ عرب کے دو اہم قبیلے سُلیم اور غطفان، ارحضیہ کے قریب ایک موضع قر قرۃ الکدر میں جو مدینہ سے کوئی (۸۰) میل دور تھا جمع ہو رہے ہیں ، ان کے اجتماع سے خطرہ لاحق ہوا کہ یہ لوگ مدینہ پر حملہ نہ کردیں ، آپﷺ دو سو صحابہ ؓ کے ہمراہ ۱۴ یا ۱۵ محرم ۳ ہجری کو مدینہ سے روانہ ہوئے ، عَلم حضرت علی ؓ کے پاس تھا، حضرت عبداللہ ؓ بن اُم مکتوم کو مدینہ میں نائب مقرر کیا، حضور رﷺتین چار روز کے بعد منزل پر جا پہنچے لیکن وہا ں دشمن کا نشان تک نہ تھابلکہ ان کے پانچ سو اونٹ تھے جو صحرا میں چر رہے تھے، اس لئے لڑائی کی نوبت نہیں آئی، آپ ﷺنے فرمایا کہ یہی اونٹ ان کی سواریاں ہیں جن پر چڑھ کر وہ مدینہ پر حملہ کر سکتے ہیں ، اس لئے انہیں ہانک کر لے چلو، چنانچہ وہ ہانک کر لائے، حضور ﷺ نے بیت المال کے لئے خمس یعنی ایک سو اونٹ رکھ کر باقی چار سو اونٹ ہمراہیوں میں بانٹ دئیے، اس غزوہ کے دوران ایک غلام یسار ہاتھ آیا تھا جسے حضورﷺ نے آزاد کر دیا، اس سلسلہ میں آپﷺ پندرہ شب مدینہ سے باہر رہے۔ غزوہ غطفان ( ربیع الاول ۳ہجری) اس غزوہ کو ذی امر اور انمار بھی کہا جاتا ہے، بنو غطفان ، نجد کا ایک جنگجو قبیلہ تھا، بنو سُلیم کا قبیلہ بھی ان کے قریب ہی آباد تھا ، غزوہ قر قرۃالکدر سے دو ماہ بعد حضور ﷺ کو طلاع ملی کہ بنو غطفان کے دو خاندان بنی ثعلبہ بن ذبیان اور بنی محارب بن حفص کے لوگ مدینہ پر حملہ کی خاطر ذو امر میں جمع ہو رہے ہیں اور بنو محارب کے سردار دعثور بن عمر حارث نے مدینہ پر حملہ کا منصوبہ بنایا ہے، اس اطلاع کے ساتھ ہی حضور صلی اللہ علیہ و سلم ۱۲ ربیع الاول ۳ ہجری کو (۴۵۰) صحابہ ؓ کے ہمراہ مدینہ سے نکلے اورمدینہ میں حضرت عثمانؓ بن عفان کو اپنا نائب مقرر فرمایا، راستہ میں مقام ذی القصہ میں ایک شخص جیار نامی پکڑا گیا، جس نے بتایا کہ مسلمانوں کی آمد کی اطلاع پا کر وہ لوگ پہاڑوں میں روپوش ہو گئے ہیں، حضورﷺ نے اس شخص کو اسلام کی دعوت دی چنانچہ اس شخص نے اسلام قبول کر لیا، انہیں حضرت بلالؓ کے سپرد کیا گیا، راستوں کی تلاش میں ان سے بڑی مدد ملی۔ اس سفر میں بارش ہوئی جس کی وجہ سے سب کے کپڑے بھیگ گئے، حضور ﷺ نے بھی اپنے کپڑے سُکھانے کے لئے ایک درخت سے لٹکا دیئے اوراس کے سایہ میں آرام فرمانے لگے، ایسے میں دبے پاؤں دعثور وہاں جا پہنچا اور تلوار سونت کر حضور ﷺ کے سر پر کھڑا ہو گیا اور بلند آواز سے کہنے لگا : بتا اے محمد ! تجھے اب کون بچائے گا؟ حضور ﷺ نے بے ساختہ جواب دیا : اللہ، معاً جبرئیل ؑ نے دعثور کے سینہ میں اس زور سے ہتڑ رسید کیا کہ اس کی تلوار گر گئی جسے حضورﷺ نے فوراً تھام لیا اور پوچھا ! بتا اب تجھے کون بچائے گا؟ کہنے لگا کوئی نہیں اور ساتھ ہی کلمہ پڑھ کر اسلام لایا، پھر وہ اپنی قوم میں آیا اور ان کو اسلام کی دعوت دینے لگا، چونکہ یہ سب جنگجو قبائل تھے اس لئے آپﷺ تقریباً ایک مہینہ وہاں ٹھہرے رہے تا کہ انہیں مسلمانوں کی طاقت اور مستقل مزاجی کا اندازہ ہو جائے ، پھر واپس ہوئے۔