انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** غدار مسلم عاملوں کی عیسائیوں کی ہمت افزائی ۱۸۴ھ کے آخر میں حکم کو مشکل سے اطمینان حاصل ہوا تھاکہ چند ہی روز کے بعد۱۸۵ھ میں عیسائیوں نے شمالی اندلس میں پھر ہلچل پیدا کردی اور بعض شمالی شہروںکے عاملوں نے شالیمین کو خلیفہ بغداد کا دوست اور ایجنٹ سمجھ کر اور اس کی حمایت واعانت کو جائز جان کر سلطان حکم کے خلاف آمادہ ہوجانا ہی ثواب کا کام سمجھا؛کیونکہ سلطانحکم کی مذہبیت اور دینداری پر عام لوگوں کوشک تھا اوراکثر اسپر اعتراضات ہوتے رہتے تھے،اس موقعہ پر ان جاسوسوں نے بھی جو خلیفہ بغداد کی طرف سےاندلس میں مامور تھےکام کرنے کا خوب موقع پایااور نتیجہ یہ ہوا کہ وشقہ،گیرون،لون،لربدہ،اور ترکونہ وغیرہ شمالی شہروں کے عاملوں نہ شہنشاہ فرانس کواپنا شہنشاہ تسلیم کرکے سلطان حکم کی فرماص برداری سے انکار اور شارلیمین کے احکام کی اطاعت کا اقرار کیا ،اس طرح یکایک ریاست گاتھ مارچ اندلس کے شمالی میدانوں میں وسیع ہوکر اوران مسلمانوں کو مطیع پاکر خوب طاقتور اور مضبوط ہوگئی۔ اسی طرح جلیقیہ اورساحل بسکی کے عاملوں نے جس میں حاکم سرقسطہ بھی شامل تھا عیسائی سلاطین کی اطاعت کا اعلان اور حکم سے بغاوت کا اظہار کیا اس نئی مصیبت کے مقابلہ کو سلطان حکم خود اس لیے قرطبہ سے حرکت نہ کرسکا کہ یہاں دارالحکومت کی بھی ہوا خراب ہورہی تھی اور ضروت تھی کہ سلطان دارالحکومت میں مقیم رہ کر بغاوت وسرکشی کے انجراثیم کا علاج کرے کجو ملک کے گوشہ گوشہ میمں سرایت کرگئے تھے اورجن کو خود سلطانکے رشتہ داروں اور مسلمانوں نے تقویت پہنچائی تھی،شمالی حصہ ملک کے بچانے اور عیسائیوں کے قبضے سےنکالنے کےلیے اپنے سپہ سالار ابراہیم کو روانہ کیا ابراہیم نے اول جلیقیہ وسرقسطہ کی جانب فوج کشی کی اور اس علاقہ کو بہت سی لڑائیوں اور خون ریزیوں کے بعد عیسائیوں سےواپس چھینا،باغی عامل عیسائی فوج اور عیسائی باشندوں کے ساتھ بھاگ بھاگ کر شارلیمین کے پاس فرانس پہنچے اور ان کو اندلس پر حملہ آور ہونے کی ترغیب دی ابراہیم بھی جلیقیہ وسرقسطہ وغیرہ کی طرف اس طرح مصروف ہوا کہ اندلس کے شمالی ومغربی حصے کی طرف متوجہ نہ ہوسکا ان مسلمان عاملوں نے جو سارلیمین کے پاس پہنچ گئے تھے اس کو مصورہ دیا کہ اندلس کے قدیمی گاتھک دارالسلطنت کو آپ بآسانی قبضہ میں لاسکتے ہیں اور ہم اس کام میں آپ کی رہنمائی اور امداد کرنے کو موجود ہیں ،مسلمان عاملوں کی اس ہمت افزائی نے عیسائیوں کے حوصلوں کوبہت بلند کردیا؛چنانچہ ایک مجلس مشورت فرانس میں منعقد ہوکر یہ قرار پایا کہ ریاست گاتھک ماچ کی حدود میں برشلونہ کی بندرگاہ کو بھی ضرور شامل کرلیا جائے برشلونہ کا عامل زید بھی شارلیمین اور کونٹ لوئی سے خط وکتابت رکھتا اور ان کی طرف داری کاا قرارکرچکا تھا،چنانچہ ۱۸۸ھ کے آخر ایام میں عیسائی فوجیں گاتھک مارچ کی فوجوں کے ساتھ شامل ہوکر اندلس کے شمالی ومشرقی صوبہ کو پامال کرتی ہوئی برشلونہ تک پہنچیں یہاں کے عاملزید نے ان فوجوں کے آنے پر برسلونہ کے دروازوں کو بند کرلیا اور عیسائیوں کے قبضے میں دینے سے صاف انکار انکار کردیا عیسائی افواج نے بشلونہ کا محاصرہ کرلیا ،عیسائیوں نے برشلونہ ک مضافات کو تباہ وبرباد کرکے محاصرہ میں سختی سے کام لیا زید کو کوئی امداد کسی طریقہ سے نہیں پہنچی ،آخر برشلونہ پر عیسائیوں نے اس شرط کے ساتھ قبضہ پالیا کہ وہ مسلمانوں کو وہاں سے اپنے اسباب منقولہ کے ساتھ نکل جانے دیں گے مسلمانوں نے برشلونہ کو خالی کردیاعیسائی فوجیں اس میں داخل ہوگئیں اور شاہ ایکیو ٹین نے قلعہ برشلونہ کو خوب مضبوط کرکے وہاں ایک گورنر مقرر کردیا یہ نومفتوحہ تمام علاقہ گاتھک مارچ کی ریاست میں شامل ہوگیا،اسلامی فوجوں کے لیے شمالی اندلس میں اب دو محاذجنگ قائم ہوگئے،ایک ریاست ایسٹریاس اور صوبہ جلیقیہ کی سرکش عیسائی آبادی کا جن کو فرانس کی جانب سے برابر امداد پہنچتی رہی تھی ادھر جنوب میں سازشوں کا جال پھلا ہوا تھا اور مسلمان مولویوں نے نہایت سخت مشکلات پیدا کردی تھیں فوجیں جو عیسائیوں کی مدافعت کے لیے روانہ کی گئیں وہ کسی ایک محاذ پر عیسائیوں کے مقابلہ میں مصروف رہ سکتی تھیں چنانچہ صوبہ جلیقیہ کی طرف جاکر انہوں نے عیسائیوں کو ہزیمت دی تو دوسرا محاذ خالی رہا اور برشلونہ قبضہ سے نکل گیا،اسی طرح اگر وہ برشلونہ کی طرف متوجہ ہوتیں توقرقسطہ وجلیقیہ وغیرہ پر عیسائیوں کا قبضہ قائم رہتا اور وہ مزید پیش قدمی کرتے۔ ۱۸۹ھ میں اندلس کے مسلمان باغی عاملوں نے عیسائیوں کو ترغیب دے کر طلیطلہ پر حملہ کرایا عیسائیوں نے برشلونہ اور شمالی شہروں سے طلیلط کی طرف حرکت کی ادھر یوسف بن عمر نے مدافعت پر مقتعدی ظاہر کی آخر عیسائیوں نے طلیطلہ کا محاصرہ کرلیا اور شہر طلیطلہ اور اس کے نواح کے عیسائی آبادی نے حملہ آوروں کے لیے ہر قسم کی سہولت بےم پہنچاکر یوسف بن عمر طلیطلہ کو عیسائیوں کے ہاتھ میں گرفتار اور عیسائیوں کا طلیطلہ پر قبضہ کرادیا عیسائیوں نے یوسف بن عمر کو صخرہ قیس میں قید کردی اور ملک اندلس کے قدیمی دارالسلطنت پر قابض ہوکر بے حد مسرورہوئے،طلیطلہ کی خبر یوسف بن عمر کے باپ عمر بن یوسف کو پہنچی تو وہ سرقسطہ کی جانب سے ایک جرار فوج لےکر طلیطلہ کی جانب چلا یہاں آکر معرکہ عظیم کےبعد طلیطلہ کو فتح کیا یوسف بن عمر کو آزاد کرایا اور عیسائیوں کو وہاں سے ماربھگایا طلیطلہ پر عیسائیوں کا قبضہ کرانے میں باشندگان طلیطلہ نے جن میں زیادہ تر عیسائی ہی تھے زیادہ مؤثر کوشش کی تھی ،لہذا سب سے زیادہ عتاب و عذاب کے مستحق عیسائیان طلیطلہ ہی تھےجنھوں نے طلیطلہ کی حکومت کو بےحد مخدوش بنارکھاتھا مگر عمر بن یوسف نے دور اندیشی اور ہوشیاری سے کام لےکر ان غداروں کو کچھ نہیں کہا اور جو جو عذرات باردہ پیش کیے سب کو منظور کرکے ان کو مطمئن بنادیا۔