انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت علی مرتضیؓ تعارف نام،نسب،خاندان علی نام، ابوالحسن اورابوتراب کنیت،حیدر (شیر)لقب،(صحیح مسلم کتاب الجہاد باب غزوہ ذی قردوغیرہا)والد کا نام ابوطالب اوروالدہ کا نام فاطمہ تھا،پوراسلسلہ نسب یہ ہے،علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مروہ بن کعب بن لوی،چونکہ ابوطالب کی شادی اپنے چچا کی لڑکی سے ہوئی تھی اس لئے حضرت علی ؓ نجیب الطرفین ہاشمی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچازاد بھائی تھے۔ خاندانِ ہاشم کو عرب اورقبیلہ قریش میں جو وقعت وعظمت حاصل تھی وہ محتاجِ اظہار نہیں،خانہ کعبہ کی خدمت اوراس کا اہتمام بنوہاشم کا مخصوص طغرائے امتیاز تھا اوراس شرف کے باعث ان کو تمام عرب میں مذہبی سیادت حاصل تھی۔ حضرت علی مرتضی ؓ کے والد ابو طالب مکہ کے ذی اثر بزرگ تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی کی آغوش شفقت میں پرورش پائی تھی اوربعثت کے بعد ان ہی کے زیر حمایت مکہ کے کفرستان میں دعوتِ حق کا اعلان کیا تھا، ابو طالب ہر موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے رہے اور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کے پنجہ ظلم ستم سے محفوظ رکھا، مشرکین قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پناہی اورحمایت کے باعث ابوطالب اوران کے خاندان کو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچائیں،ایک گھاٹی میں ان کو محصور کردیا، کاروبار اورلین دین بند کردیا، شادی بیاہ کے تعلقات منقطع کرلئے،کھانا پینا تک بند کردیا، غرض ہر طرح پریشان کیا،مگر اس نیک طینت بزرگ نے آخری لمحہ حیات تک اپنے عزیز بھتیجے کے سر سے دستِ شفقت نہ اُٹھایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی آرزو تھی کہ ابو طالب کا دل نورِ ایمان سے منور ہوجائے اور انہوں نے اپنی ذات سے دنیا میں مہبط وحی(صلی اللہ علیہ وسلم )کی جو خدمت وحمایت کی ہے اس کے معاوضہ میں ان کو نعیم فردوس کی ابدی اورلامتناہی دولت حاصل ہو،اس لئے ابو طالب کی وفات کے وقت نہایت اصرار کے ساتھ کلمہ توحید کی دعوت دی،ابوطالب نے کہا عزیز بھتیجے! اگر مجھے قریش کی طعنہ زنی کاخوف نہ ہوتا تو نہایت خوشی سے تمہاری دعوت قبول کرلیتا،(سیرت ابن ہشام ج۱ : ۲۲۸)سیرت ابن ہشام میں حضرت عباس ؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ نزع کی حالت میں کلمۂ توحید ان کی زبان پر تھا،مگر یہ روایت کمزور ہے،بہر حال ابو طالب نے گو اعلانیہ اسلام قبول نہیں کیا، تاہم انہوں نے حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی جس طرح پرورش وپرداخت کی اورکفار کے مقابلہ میں جس ثبات اور استقلال کے ساتھ آپ کی نصرت وحمایت کا فرض انجام دیا، اس کے لحاظ سے اسلام کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ شکر گزاری اوراحسان مندی کے ساتھ لیا جائے گا۔ حضرت علی ؓ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ ؓ بنت اسد نے بھی حضرت آمنہ ؓ کے اس یتیم معصوم کی ماں کی طرح شفقت ومحبت سے پرورش کی، مستند روایات کے مطابق وہ مسلمان ہوئیں اورہجرت کرکے مدینہ گئیں،ان کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفن میں اپنی قمیص مبارک پہنائی اور قبر میں لیٹ کر اس کو متبرک کیا،لوگوں نے اس عنایت کی وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ ابو طالب کے بعد سب سے زیادہ اسی نیک سیرت خاتون کاممنونِ احسان ہوں۔ ( ترجمہ اسدالغابہ ج ۵ : ۵۱۷) حضرت علی ؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دس برس پہلے پیدا ہوئے تھے، ابو طالب نہایت کثر العیال اورمعاش کی تنگی سے نہایت پریشان تھے، قحط وخشک سالی نے اس مصیبت میں اور بھی اضافہ کردیا، اس لئے رحمۃاللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے محبوب چچا کی عسرت سے متاثر ہوکر حضرت عباس ؓ سے فرمایا کہ ہم کو اس مصیبت وپریشان حالی میں چچا کا ہاتھ بٹانا چاہئے؛چنانچہ حضرت عباس ؓ نے حسب ارشاد جعفر کی کفالت اپنے ذمہ لی اور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہِ انتخاب نے علی ؓ کو پسند کیا؛چنانچہ وہ اس وقت سے برابر حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ (زرقافی جلد ۱ : ۲۸۰)