انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** شہر مدینہ میں داخلہ جمعہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبا اور بنی عمروبن عوف یعنی قبا والوں سے رخصت ہوکر شہر مدینہ میں قیام کے ارادے سے چلے،مدینہ کے ہر محلہ میں ہر ایک خاندان اس امر کا خواہاں تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں مقیم ہوں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو سالم بن عوف کے محلہ میں تھے کہ نماز جمعہ کا وقت آگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں ایک میدان میں سوآدمیوں کے ساتھ نمازِ جمعہ ادا فرمائی،یہ مدینہ میں آپ کا پہلا جمعہ اورپہلا خطبہ تھا،اس جگہ بھی بعد میں ایک مسجد تیار ہوگئی۔ نمازِ جمعہ ادا فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہوگئے،قبیلۂ بنو سالم بن عوف کے لوگوں نے آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی مہار پکڑ لی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے یہاں ٹھہرانا چاہا،دوسرے قبیلوں اور دوسرے محلوں کے لوگوں نے اپنے اپنے یہاں جانے کا اصرار کیا اوراس طرح بحث و تکرار شروع ہوئی،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے ناقہ کو نہ روکو اس کی مہار چھوڑدو،اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم مل چکا ہے،جہاں میری ناقہ بیٹھ جائیگی میں وہیں ٹھہروں گا؛چنانچہ ناقہ چلنے لگی ،تمام انصار ومہاجرین ناقہ کے آگے پیچھے داہنے بائیں،ساتھ ساتھ چلے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہار بالکل ڈھیلی چھوڑدی اورناقہ اپنی خوشی سے آہستہ آہستہ چلتی رہی،سب کی نگاہیں ناقہ کی طرف تھیں کہ دیکھیں یہ کہاں بیٹھتی ہے؛چلتے چلتے ناقہ جب قبیلۂ بنو بیاضہ کے محلہ میں پہنچی تو اس قبیلہ کے سردار زیاد بن لبید اور عُروہ بن عمرو نے آگے بڑھ کر ناقہ کی مہار پکڑنی چاہی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعوھا فانھا مامورۃ (اسے چھوڑدو اس کو حکم ملا ہوا ہے)اس کے بعد ناقہ بنو ساعدہ کے محلہ میں پہنچی ،قبیلہ بنو ساعدہ کے سردار سعد بن عبادہ اورمنذر بن عمرو نے روکنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی الفاظ فرمائے کہ دعوھا فانھا مامورۃ اس کے بعد اونٹنی قبیلہ بنو الحارث بن الخزرج کے محلہ میں پہنچی،یہاں سعد بن الربیع خارجہ بن زید، عبداللہ بن رواحہ نے روکنا چاہا،اُن کو بھی وہی حکم ملا،وہاں سے روانہ ہوکر ناقہ بنو عدی بن النجار کے محلہ میں پہنچی،ان لوگوں میں چونکہ عبدالمطلب کی ننھیال تھی اس لئے ان کو بڑا دعویٰ تھا کہ عبدالمطلب کی ماں سلمیٰ بنت عمرو ہمارے قبیلہ کی لڑکی تھی لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں قیام فرمائیں گے؛چنانچہ سلیط بن قیسؓ اوراسیرۃ بن ابی خارجہؓ سرد ارانِ بنو عدی نے آگے بڑھ کر ناقہ کی مہاری پکڑی ان کو بھی وہی جواب ملا کہ ناقہ کا راستہ چھوڑدو،اس کو خدائے تعالیٰ کا حکم ملا ہوا ہے،یہاں تک کہ ناقہ بنو مالک بن النجار کے محلہ میں جاکر ایک غیر آباد افتادہ زمین میں بیٹھ گئی اورفوراً پھر کھڑی ہوگئی کھڑی ہوکر پھر کچھ دُور تک چلی چل کر خود بخود پھر لوٹی اور ٹھیک اسی جگہ جہاں پہلے بیٹھی تھی واپس آئی اور بیٹھ گئی،اب کی مرتبہ اونٹنی نے بیٹھ کر جُھر جُھری لی،گردن نیچے ڈال دی اوردُم ہلانے لگی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سے اُتر آئے۔ اس افتادہ زمین کے قریب حضرت ابو ایوب خالد بن زید انصاریؓ کا مکان تھا،وہ خوشی خوشی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسباب اُٹھا کر اپنے مکان میں لے گئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کے یہاں قیام فرمایایہ افتادہ زمین سہل وسہیل دو یتیم لڑکوں کی ملکیت تھی،جس میں چند درخت کھجور کے کھڑے تھے اورچند قبریں مشرکین کی تھیں اور چار پایوں کا ریوڑ بھی اس جگہ آکر بیٹھا کرتا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ جگہ کس کی ملکیت ہے،معاذ بن عفراء نے عرض کیا کہ میرے رشتہ دار دو یتیم لڑکے اس زمین کے مالک ہیں اورمیرے ہی پاس پرورش پارہے ہیں میں اُن کو رضا مند کرلوں گا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں شوق سے مسجد بنائیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم اس کو قیمتاً خریدنا چاہتے ہیں،بلا قیمت نہ لیں گے؛چنانچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسی وقت اس زمین کی قیمت ادا کردی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے موافق کھجور کے درخت کاٹ دئے گئے،قبریں مشرکین کی ہموار کردی گئیں اورمسجد کی تعمیر کا کام شروع ہوگیا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس خود مسجد کی تعمیر کے کام میں مصروف ہوتے تھے،مہاجرین و انصار بڑی خوشی اورجوش وشوق کے ساتھ اس کام میں لگے رہتے تھے،مسجد کی دیواریں پتھر اورگارے سے بنائی گئیں،چھت کھجور کی لکڑی اورکھجور کے پتوں سے بنائی گئی،جب تک مسجد اور اس کے قریب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مکان تیار ہوا اس وقت تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابو ایوب ؓ انصاری کے مکان میں فروکش اورانہیں کے مہمان رہے یہ وہی ابو ایوب انصاری ہیں جن کی قبر قسطنطنیہ میں موجود ہے،یہ ۴۸ھ میں امیر معاویہ ؓ کے عہدِ خلافت میں محاصرہ قسطنطنیہ کے وقت شہید ہوئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ مہینے اورچند روز ابو ایوبؓ کے مکان میں رہے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی بنی ہوئی یہ مسجد حضرت عمرؓ کے عہد خلافت تک اُسی حالت میں رہی،حضرت عمرؓ نے اس کو وسیع کیا،حضرت عثمانؓ نے اپنے عہد خلافت میں اس کی دیواروں کو پختہ بنایا،اس کے بعد ولید بن عبدالملک کے زمانہ میں یہ اور زیادہ وسیع کی گئی اورازواج مطہرات نبوی کے مکانات بھی اُس میں داخل کئے گئے،مامون الرشید عباسی نے اس کو خوب آراستہ وپیراستہ کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابھی حضرت ابو ایوبؓ ہی کے مکان میں تشریف فرما تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارث اورابو رافع کو بھیج کر حضرت فاطمہؓ ،حضرت ام کلثومؓ،حضرت سودہ بنت زمعہؓ،حضرت اسامہ بن زیدؓ، ان کی والدہ ام ایمنؓ کو بلوایا،انہیں کے ہمراہ عبداللہ بن ابی بکرؓ بھی اپنے عزیزوں سمیت چلے آئے،طلحہؓ بن عبید اللہ بھی انہیں کے ہمراہ تشریف لے آئے،ان سب کے آنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نو تعمیر مکان میں تشریف لے آئے۔