انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** نمازِ جنازہ وتجہیز وتکفین جب غسل دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجہیز سے فراغت ہوئی تو صحابہؓ میں اختلاف ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہاں دفن کیا جائے،بعض کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان میں، حضرت ابوبکرصدیقؓ نے آکر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا ہے کہ ہر ایک نبی اُسی جگہ دفن کیا گیا ہے جہاں اس کی روح قبض کی گئی ہے،لوگوں نے یہ سُنتے ہی آپ کے فرش کو جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تھا اُٹھادیا اور اسی جگہ قبر کھودی گئی،قبر بغلی کھودی گئی،جب قبر تیار ہوگئی تو جنازہ کی نماز پڑھنی شروع ہوئی،اول مردوں نے پھر عورتوں نے،پھر لڑکوں نے نمازِ جنازہ پڑھی،کسی نے کسی کی امامت نہ کی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض کی شدت اورپھر انتقال کا حال سُن کر اُسامہ بن زیدؓ اوراُن کے تمام لشکر والے مدینہ میں چلے آئے تھے اور فوجی علم حجرہ مبارک کے دروازے پر کھڑا کردیا گیا تھا، نماز ِ جنازہ چونکہ حضرت عائشہ کے حجرے میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا اورجہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر تیار ہوئی تھی،پڑھی گئی لہذا ظاہر ہے کہ تمام مسلمان جو مدینہ میں موجود تھے،ایک مرتبہ نماز نہ پڑھ سکتے تھے،پھر یہ نمازِ جنازہ کسی کے زیر ِ امامت بھی ادا نہیں ہوئی ؛بلکہ الگ الگ ادا کی گئی ،لہذا یہ کسی طرح ممکن ہی نہ تھا کہ تمام مسلمان جو مدینہ میں موجود تھے،تمام لشکرِ اُسامہؓ تمام عورتیں ،تمام لڑکے،تمام غلام، گروہ درگروہ حجرہ میں آ آ کر نمازِ جنازہ پڑھتے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال کے بعد فوراً ہی دفن کردئے جاتے،نمازِ جنازہ کا سلسلہ یقیناً اگلے دن تک برابر جاری رہا ہوگا اوراس لئے اس پر ذرا بھی متعجب نہیں ہونا چاہئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات دو شنبہ کو ہوئی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم اگلے روز سہ شنبہ کو دفن کئے گئے، بعض ضعیف روایتوں میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سہ شنبہ اورچہارشنبہ کی درمیانی شب میں دفن کئے گئے جو اسلامی حساب کے موافق چہارشنبہ کی شب تھی،تب بھی کسی حیرت اور تعجب کا مقام نہیں ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن میں اس طرح ۳۶ گھنٹہ کا فاصلہ زیادہ سے زیادہ مانا جاسکتا ہے اور وہ جو اس حالت کے اعتبار سے اوپر مذکور ہوئی کچھ زیادہ نہیں ہے۔