انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اخلاق وعادات تقویٰ حضرت ابوبکر صدیق ؓ فطرۃ اخلاق حمیدہ سے متصف تھے،ایام جاہلیت میں عفت پارسائی،رحمدلی،راست بازی اوردیانت داری ان کے مخصوص اوصاف تھے یہی وجہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں دیت کی تمام رقم ان ہی کے پاس جمع ہوتی تھی،شراب نوشی، فسق وفجور گو اس زمانہ میں عالمگیر تھا تاہم اس کا دامن عفاف کبھی ان دھبوں سے داغدار نہیں ہوا،فیاضی،مفلس وبے نواکی دستگیری،قرابت داروں کاخیال ،مہمان نوازی، مصیبت زدوں کی اعانت،غرض اس قسم کے تمام محاسن ومحامدان میں پہلے سے موجود تھے،شرف ایمان نصیب ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نے ان اوصاف کو اوربھی چمکادیا۔ ورع وتقویٰ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے معدن اخلاق کا سب سے درخشاں گوہر ہے،ایک دفعہ زمانہ جاہلیت میں ایک شخص کسی نامعلوم راستہ سے لے چلا اور بولا اس راہ میں ایسے آوارہ منش وبدمعاش رہتے ہیں کہ اس طرف سے گزرنے بھی حیادامن گیر ہوتی ہے۔’’ یہ سننا تھا کہ زمین نے پاؤں پکڑلئے اور یہ کہہ کر لوٹ آئے میں ایسے شرمناک راستہ سے نہیں جاسکتا۔ (کنز العمال ج۶ : ۱۳۲) ایک دفعہ آپ کے ایک غلام نے کھانے کی کوئی چیز لاکر پیش کی جب تناول فرماچکے تو انہوں نے کہا"آپ جانتے ہیں کہ یہ کس طرح حاصل ہوا؟ فرمایابیان کرو، بولے میں نے جاہلیت میں ایک شخص کی فال کھولی تھی،فال کھولنا تو جانتا نہ تھا صرف اس کو دھوکہ دیا تھا ؛لیکن آج اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے اس کے صلہ میں یہ کھانا دیا، یہ سرگزشت سنی تو منہ میں انگلی ڈال کر جوکچھ کھایا تھا قئے کردیا(بخاری باب بنیان الکعبہ ج ۱ : ۵۴۲)فرمایا کرتے تھے کہ جو جسم اکل حرام سے پرورش پاتا ہے جہنم اس کا بہترین مسکن ہے۔" حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں عید کے روز انصار کی دولڑکیاں جنگ بعاث کے تاریخی اشعار گارہی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منہ پھیر کر فرش پر استراحت فرماتھے، اسی حالت میں ابوبکر صدیق تشریف لائے ،ان کے کمال اتقاء نے اسے بھی پسند نہ کیا حضرت عائشہ ؓ کو ڈانٹ کر بولے"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ مزمارشیطان؟ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ابوبکر انہیں گانے دو،ہرقوم کے لئے عید ہے اور یہ ہماری عید ہے۔ (ایضا کتاب العید ین باب سنۃ العیدین لاہل الاسلام : ۱۳۰) انسان کا کمال اتقاء یہ ہے کہ جس طرح اس کے اعضاء جوارح اعمال شنیعہ وافعال ناپسندیدہ سے مجتنب رہتے ہیں اوراس کا دل تخیلات باطلہ سے محترز رہتا ہے،اسی طرح اس کی زبان بھی کبھی کلمات ناملائم سے آلودہ نہ ہونے پائے،حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا ورع وتقویٰ اسی منتہائے کمال پرتھا کہ درشت وناملائم الفاظ سے ہمیشہ پرہیز فرماتے تھے، اگر اتفاقاً غیظ وغضب کی حالت میں کوئی سخت کلمہ زبان سے نکل جاتا تو نہایت ندامت وپشیمانی ہوتی اورجب تک اس کی تلافی نہ ہوجاتی چین نہ آتا۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق ؓ سے کوئی نزاع درپیش تھی،اثنائے گفتگو میں کوئی سخت جملہ نکل گیا؛لیکن خود ہی ندامت دامن گیر ہوئی اور نہایت اصرار کے ساتھ عفو خواہ ہوئے،حضرت عمر ؓ نے انکار کیا تو ان کی پریشانی کی کوئی انتہا نہ تھی اسی وقت دامن اٹھائے آستانہ نبوت پرحاضر ہوئے اوروجہ پریشانی بیان کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تین مرتبہ اس بشارت سے طمانیت دی،ابوبکر ؓ خدا تمہیں بخش دے گا،ابوبکر ؓ خدا تمہیں بخش دےگا، ابوبکر ؓ خدا تمہیں بخش دے گا، اسی اثنا میں حضرت عمر ؓ کو بھی اپنے انکار سے ندامت ہوئی اورحضرت ابوبکر ؓ کو ان کے مکان پر تلاش کرتے ہوئے دربار نبوت میں حاضر ہوئے ان کو دیکھ کر حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہونے لگا،حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے یہ تیور دیکھے تو ددزانو بیٹھ کرالتجا کی،"یارسول اللہ!خداکی قسم!میں ہی ظالم تھا،میری ہی زیادتی تھی،اس طریقہ سے گوغیظ وغضب کی طغیانی فروہوگئی تاہم ارشاد ہوامیں معبوث ہوا تو تم سب نے مجھے جھٹلایا؛لیکن ابوبکر ؓ نے تصدیق کرکے جان ومال سے میری غمخواری کی کیا تم مجھ سے میرے ساتھی کو چھڑادوگے؟ (بخاری کتاب المناقب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لوکنت متخذا خلیلا ج۱ : ۵۱۶) حضرت ربیعہ بن جعفر اورحضرت ابوبکر صدیق ؓ میں ایک درخت کے لئے باہم اختلاف ہوا،حضرت ابوبکر ؓ نے اثنائے بحث میں کوئی جملہ ایسا کہہ دیا کہ جو ان کی ناگواری کا باعث ہوا؛لیکن جیسے ہی غصہ فروہواکہنے لگے"ربیعہ!تم بھی مجھے کوئی ایسی ہی سخت بات کہدو،انہوں نے انکار کیا تو دربار نبوت میں حاضر ہوئے،حضرت ربیعہ ؓ بھی ساتھ تھے،حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے مفصل روئدادسن کرفرمایا"ربیعہ !تم کوئی سخت جواب نہ دو؛لیکن یہ کہہ دو، وغفراللہ لک یاابابکر،یعنی ابوبکر خداتمہیں معاف کردے،حضرت ابوبکر ؓ پر اس واقعہ کا اس قدر اثرتھا کہ زار وقطار رورہے تھے اورآنکھوں سے سیل اشک رواں تھا۔ (فتح الباری ج ۷ :۱۸) زہد امارت،دنیا طلبی وجاہ پسندی سے قطعی نفرت تھی،خلافت کابارِگراں بھی محض امت مرحومہ کو تفریق واختلاف سے محفوظ رکھنے کے لئے اٹھالیا تھا ورنہ دل سے اس ذمہ داری کے متمنی نہ تھے،انہوں نے بارہا اپنے خطبوں میں اس حقیقت کی تصریح فرمادی تھی اوراعلان کردیا تھا کہ اگر کوئی اس بار کو اٹھانے کے لئے تیار ہوجائے تو وہ نہایت خوشی کے ساتھ سبکدوش ہوجائیں گے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث ،۱۵۰) حضرت رافع طائی ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے کہا کہ آپ سن رسیدہ بزرگ ہیں،مجھے کچھ وصیت فرمائیں، بولے"خدا تم پررحمت وبرکت نازل فرمائے،نمازیں پڑھو، روزے رکھو، زکوٰۃ دو،حج کرو،اورسب سے بڑی نصیحت یہ ہے کہ کبھی امارت وسیادت نہ قبول کرو،دنیا میں امیر کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے،نیز قیامت کے روز اس کا محاسبہ نہایت سخت ہوگا اورفرد عمل زیادہ طویل ہوگی۔" ایک مرتبہ انہوں نے پینے کے لئےپانی مانگا، لوگوں نے پانی اورشہد لاکر پیش کیا ؛لیکن جیسے ہی منہ کے قریب لے گئے،بے اختیار آنکھوں میں آنسو بھرآئے اوراس قدرروئے کہ تمام حاضرین پر رقت طاری ہوگئی،جب کسی قدر سکون ہوا تو لوگوں نے گریہ وزاری کی وجہ پوچھی، بولے ایک روز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کو دور دور کہہ رہے تھے ،میں عرض کیا،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا چیز ہے جس کو دور فرمارہے ہیں میں تو کچھ نہیں دیکھتا،ارشاد ہوا کہ"ظاہر فریب دنیا مجسم ہوکر میرے سامنے آئی تھی میں نے اس کو دور کردیا"، اس وقت یکایک یہ واقعہ مجھے یاد آگیا اورڈرا کہ شاید اس کے دام تزویر میں پھنس جاؤں۔ (اسد الغابہ ج ۳ : ۲۱۷) حضرت ابوبکر ؓ نے اپنی تمام دولت راہ خدا میں لٹادی ،یہاں تک کہ زمانہ خلافت میں ان پر بیت المال کا چھ ہزار روپیہ قرض چڑھ گیا ؛لیکن بے نیازی دیکھو کہ مسلمانوں کا ایک حبہ بھی اپنی ذات پر صرف کرنا یا اولاد کےلئےچھوڑجاناگوارہ نہ ہوا،وفات کےوقت وصیت فرمائی توسب سےپہلےیہ فرمایاکہ میرا فلاں باغ بیچ کر بیت المال کا قرض اداکردیا جائے اورمیرے مال میں جو چیز فاضل نظر آئے وہ عمر بن خطاب ؓ کے پاس بھیج دی جائے ،حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ وفات کے بعد جائزہ لیا گیا تو صرف یہ چیزیں زیادہ نکلیں، ایک غلام،ایک لونڈی اور دو اونٹنیاں؛چنانچہ یہ تمام چیزیں اسی وقت حضرت عمر ؓ کے پاس بھیج دی گئیں، خلیفہ دوم کی آنکھوں سے عبرت کے آنسو نکل آئے،روکر بولے ابوبکر ؓ !خدا تم پر رحم کرے،تم نے پاس ازمرگ بھی زہد کا دامن نہ چھوڑا اورکسی کو نکتہ چینی کا موقع نہ دیا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جز وثالث) تواضع نہایت متواضع اورخاکسار تھے اورکسی کام سے ان کو عار نہ تھا،اکثر بھیڑ بکریاں تک خود ہی چرالیتے اورمحلہ والوں کی بکریاں دوہ دیتے تھے، چنانچہ منصب خلافت کے لئے جب ان کا انتخاب ہوا تو سب سے زیادہ محلہ کی ایک لڑکی کو فکر لاحق ہوئی اوراس نے تاسف آمیز لہجے میں کہا" اب ہماری بکریاں کون دوہے گا؟حضرت ابوبکر ؓ نے سنا تو فرمایا خدا کی قسم! میں بکریاں دوہوں گا،امید ہے کہ خلافت مجھے مخلوق کی خدمت گزاری سے باز نہ رکھے گی۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث : ۱۳۷) حضرت ابوبکر ؓ کپڑے کی تجارت کرتے تھے،خلیفہ ہونے کے بعد بھی حسب معمول کندھےپر کپڑوں کے تھان رکھ کر بازار کی طرف روانہ ہوئے،راہ میں حضرت عمر فاروق ؓ اورحضرت ابوعبیدہ ؓ سے ملاقات ہوئی،انہوں نےکہا یا خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں؟ بولے بازار! انہوں نے کہا اب آپ مسلمانوں کے حاکم ہیں ،چلئے ہم آپ کے لئے کچھ وظیفہ مقرر کر دیں گے۔" (ایضاً) لیکن بخاری کی روایت ہے کہ جب خلافت کی ذمہ داریوں کی وجہ سے آپ اپنا ذاتی کام نہ کرسکے توصحابہ ؓ سے فرمایا کہ میری قوم جانتی ہے کہ میرا پیشہ میرے اہل و عیال کا بار اٹھانے سے قاصر نہ تھا اور اب میں مسلمانوں کے کام میں مصروف ہوگیا ہوں اس بنا پر آل ابوبکر اس مال میں سے کھائیں گے اور مسلمانوں کے لئے تجارت کریں گے،صحابہ ؓ نے اسے منظور کرلیا۔ (بخاری کتاب الاحکام باب رزق الحاکم والعالین علیہا) دارالخلافہ سے کوئی فوجی مہم روانہ ہوتی تو حضرت ابوبکر ؓ ضعیف وکبرسنی کے باوجود دور تک پاپیادہ ساتھ جاتے،اگر کوئی افسر تعظیما گھوڑے سے اتر نا چاہتا توروک کرفرماتے"اس میں کیا مضائقہ ہے،اگر میں تھوڑی دور تک راہ خدا میں اپنا پاؤں غبار آلودکروں"،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو پاؤں غبار آلود ہوتے ہیں،خداان پر جہنم کی آگ حرام کردیتا ہے۔ (طبری : ۱۸۵۰،ومسند دارمی باب فصل الغبار فی سبیل اللہ) عجز وتواضع کی انتہا یہ تھی کہ لوگ جانشین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے تعظیم وتوقیر کرتے تو آپ کو تکلیف ہوتی اورفرماتے مجھے لوگوں نے بہت بڑھا دیا ہے،کوئی مدح وستائش کرتا تو فرماتے "اے خدا! تومیرا حال مجھ سے زیادہ جانتا ہے اور میں اپنی کیفیت ان لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں،خدایا تو ان کے حسن ظن سے مجھے بہتر ثابت کر،میرے گناہوں کو بخش دے اورلوگوں کی بے جا تعریف کا مجھ سے مواخذہ نہ کر"(اسد الغابہ ج ۳ : ۲۱۷) غایت تواضع سے تکبر وغرور کی علامت سے بھی خوف زدہ ہوجاتے ،ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"جو تکبر سے اپنا کپڑا کھینچتے ہوئے چلتا ہے،قیامت کے روز خدا اس کی طرف نگاہ نہ کرے گا،حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا"میرا دامن بھی کبھی کبھی لٹک جاتا ہے،ارشاد ہوا"تم تکبر سے ایسا نہیں کرتے" (بخاری کتاب المناقب ابی بکر ؓ) انفاق فی سبیل اللہ مال ودولت اگر صحیح مصرف اورمناسب موقع پر صرف ہو تو اس کی قدر وقیمت غیر متناہی ہوجاتی ہے،روٹی کا ایک خشک ٹکڑاشدت بھوک میں خوان نعمت ہے؛لیکن آسودگی میں الوان نعمت بھی بے حقیقت شئے ہے، یہی وجہ ہے کہ فتح مکہ سے پہلے جن لوگوں نے اپنی جان ومال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعانت کی ہے ان کو قرآن کریم نے مخصوص عظمت وفضیلت کا مستحق قراردیا ہے: لَایَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَo اُولٰئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا "تم میں وہ لوگ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے خدا کی راہ میں خرچ کیا اور وہ دوسرے مسلمانوں کے برابر نہیں ہوسکتے؛بلکہ یہ ان لوگوں سے درجہ میں بڑے ہیں جنہوں نے فتح مکہ میں خرچ کیا اورلڑے۔" حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس قبول اسلام کے وقت چالیس ہزار درہم نقد موجود تھے،انہوں نے یہ تمام دولت راہ خدا میں صرف کردی(ابن سعد جزو۳ قسم اول : ۱۲۳)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہا اس فیاضی کے برمحل ہونے کا اعتراف فرمایا: مانفعنی مال اعدقط ما نفعنی مال ابی بکر ( کنزالعمال : ۳۱۶ ج ۶) "ابوبکر کے مال سے زیادہ کوئی مال میرے لئے مفید نہ ہوا"۔ اس فیاضی کے ساتھ اخلاص کا یہ عالم تھا کہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم جب بطورتشکروامتنان فرماتے: انہ لیس من الناس احد امن علی فی نفسہ ومالہ من ابی بکر (کنزالعمال ج ۶ : ۳۱۶) "یعنی جان ومال کے لحاظ سے مجھ پر ابوبکر ؓ سے زیادہ کسی کا احسان نہیں۔" توآبدیدہ ہوکر عرض کرتے "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جان ومال سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے لئے ہے۔" آغاز اسلام میں جن لوگوں نے داعی توحید صلی اللہ علیہ وسلم کو لبیک کہاتھا،ان میں ایک بڑی تعداد غلاموں اورلونڈیوں کی تھی جو اپنے مشرک آقاؤں کے پنجۂ ستم میں گرفتار تھی،حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اکثروں کو آزاد کرایا جن میں بعض کے نام یہ ہے:بلال ؓ، عامر بن فہیرہ نذیرہ ؓ،جاریہ بنی مومل ؓ،نہدیہ ؓ،بنت نہدیہ ؓ وغیرہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ صدقات وخیرات میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے، حضرت عمر ؓ بارہا مسابقت کی کوشش کی؛لیکن وہ کبھی بھی ان کے مقابلہ میں کامیاب نہ ہوئے، ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو صدقہ نکالنے کا حکم دیا،حضرت عمر ؓ کے پاس معمول سے زیادہ سرمایہ موجود تھا،انہوں نے خیال کیا کہ آج ابوبکر ؓ سے سبقت لے جانے کا موقع ہے؛چنانچہ وہ اپنا نصف مال لے کر آستانہ نبوت پر حاضر ہوئے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم نے اہل وعیال کے لئے کس قدر رہنے دیا ہے؟بولے"اسی قدر"لیکن حضرت ابوبکر ؓ اپنا کل سرمایہ لائے تھے،ان سے جب سوال کیا تو انہوں نے عرض کیا،ان کے لئے خدا اوراس کا رسول ہے ،اس ایثار وقربانی پر حضرت عمر ؓ کی آنکھیں کھل گئیں،بولے اب میں کبھی ان سے سبقت نہیں لے جاسکتا۔ (ترمذی مناقب ابی بکر ؓ) صدقات میں اخفا واظہار دونوں جائز ہیں"اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِىَo وَاِنْ تُخْفُوْھَا وَتُؤْتُوْھَا الْفُقَرَاءَ فَھُوَخَیْرٌ لَّکُمْ،" لیکن اظہار میں ریاء وتفاخر کا امکان ہے،اس لئے حضرت ابوبکر ؓ صدقات میں اخفاء کا لحاظ رکھتے تھے اور ہمیشہ اس کاخیال رہتا تھا کہ ان کی تمام کائنات خدا کی امانت وودیعت ہے؛چنانچہ ایک دفعہ نہایت مخفی طورپر صدقہ لے کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا،یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے علاوہ خدا تعالی کی اورامانت بھی میرے پاس ہے۔ (کنز العمال جلد ۶: ۳۱۷) حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی فیاضی کا سلسلہ آخری لمحہ حیات تک جاری رہا یہاں تک کہ وفات کے وقت بھی آپ نے فقراء ومساکین کو فراموش نہ کیا اور اپنے مال میں ان کے لئے ایک خمس کی وصیت فرمادی۔ (ایضاً) خدمت گزاری خلق خلق اللہ کی نفع رسانی اورخدمت گزاری میں ان کو خاص لطف حاصل ہوتا تھا، اکثر محلہ والوں کا کام کردیتے تھے، بیماروں کی تیمارداری فرماتے اور اپنے ہاتھ سے ضعیف وناتوان اشخاص کی خدمت انجام دینے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے، اطراف مدینہ میں ایک ضعیف نابینا عورت تھی،حضرت عمرفاروق ؓ روز علی الصبح اس کے جھونپڑے میں جاکر ضروری خدمات انجام دیتے تھے، کچھ دنوں بعدانہوں نے محسوس کیا کہ کوئی شخص ان سے بھی پہلے اس کارثواب سے بہرہ یاب ہوجاتا ہے،ایک روز بہ نظر تفتیش کچھ رات رہتے ہوئے آئے تو دیکھا خلیفہ اول یعنی حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس ضعیفہ کی خدمت گذاری سے فارغ ہوکر جھونپڑے سے باہر نکل رہے ہیں،بولے :انت العمری یاخلیفۃ رسول اللہ! قسم ہے کیا روز آپ ہی سبقت کرجاتے ہیں؟ (ایضا ج ۶ : ۳۱۲) مذہبی زندگی حضرت ابوبکر ؓ رات رات بھر نمازیں پڑھتے تھے، دن کو اکثر روزے رکھتے ،خصوصاً موسم گرما روزوں ہی میں بسرہوتا،خضوع وخشوع کا یہ عالم تھا کہ نماز میں لکڑی کی طرح بے حس وحرکت نظر آتے،رقت اس قدر طاری ہوتی کہ روتے روتے ہچکی بندھ جاتی تھی،خوف محشر اورعبرت پذیری سے دنیاکا ذرہ ذرہ ان کے لئے سرمایۂ عبرت تھا،کوئی سرسبز درخت دیکھتے تو کہتے کاش! میں درخت ہی ہوتا کہ عاقبت کے جھگڑوں سے چھوٹ جاتا،کسی باغ کی طرف گزرتے اورچڑیوں کو چہچہاتے دیکھتے تو آہِ سرد کھینچ کرفرماتے پرندو!تمہیں مبارک ہو کہ دنیا میں چرتے چگتے ہو درخت کے سایہ میں بیٹھتے ہو اور قیامت کے روز تمہارا کوئی حساب کتاب نہیں،کاش ابوبکر بھی تمہاری طرح ہوتا۔ (کنز العمال،ج ۶ : ۳۱۲) قرآن شریف کی تلاوت فرماتے تو بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے اوراس قدر پھوٹ پھوٹ کر روتے کہ آس پاس کے تمام لوگ جمع ہوجاتے نرم دلی اوررقت قلب کے باعث بات بات پر آہ سرد کھینچتے تھے،یہاں تک کہ "اواہ منیب "ان کا نام ہوگیا تھا۔ نیکو کاری وحصول ثواب کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے، ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓ سے پوچھا،آج تم میں سے روزہ سے کون ہے؟ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا میں ہوں، پھر فرمایا"آج کسی نے جنازہ کی مشایعت کی ہے؟"کسی نے مسکین کوکھانا دیا ہے؟ اورکسی نے مریض کی عیادت کی ہے؟ ان سوالوں کے جواب میں جو زبان گویا ہوئی وہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی تھی،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا"جس نے ایک دن میں اس قدرنیکیاں جمع کی ہوں وہ یقینا جنت میں جائے گا۔ (مسلم فضائل ابی بکر ؓ)