انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** درجاتِ جنت (تعداد، عظمت شان، مستحقین) مؤمنین کے درجات مختلف ہیں: اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَاذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَاتُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَo الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَo أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ۔ (الأنفال:۲،۳،۴) ترجمہ:بس ایمان والے توایسے ہوتے ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو (اس کی عظمت کے استحضار سے) ان کے قلوب ڈرجاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کوپڑھ کرسنائی جاتی ہیں تووہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ (مضبوط) کردیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پرتوکل کرتے ہیں، جوکہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے ان کوجوکچھ دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں (زکوٰۃ وصدقات وغیرہ میں ) سچے ایمان والے یہ لوگ ہیں ان کے لیے بڑے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور (ان کے لیے) مغفرت ہے اور عزت کا رزق ہے۔ حضرت ضحاکؒ لہم درجات مماعملوا کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ بعض جنتی بعض سے افضل ہوں گے جس جنتی کوفضیلت بخشی گئی ہوگی وہ تواپنے کم درجہ والے کودیکھ سکے گا اور کم درجہ کا جنتی اعلیٰ درجہ والے کونہیں دیکھ سکے گا (تاکہ اس کویہ صدمہ نہ ہو کہ) اس پربھی لوگوں میں سے کسی کوفضیلت بخشی گئی ہے۔ (زوائد زہد امام ابن مبارک:۲۸۶۔ صفۃ الجنۃ لابن ابی الدنیا:۱۹۴) فائدہ:اس کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ اپنے سے اعلیٰ درجہ کے جنتی کی زیارت بھی نہ ہوسکے گی، زیارت ضرور ہوگی مگر اس کی تفصیل اہلِ جنت کی باہمی ملاقات کے باب میں پڑھئے۔ اعلیٰ درجہ کے بعض مؤمنین کے مقامات: حدیث:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَتَرَاءَوْنَ أَهْلَ الْغُرَفِ مِنْ فَوْقِهِمْ كَمَا يَتَرَاءَوْنَ الْكَوْكَبَ الدُّرِّيَّ الْغَابِرَ فِي الْأُفُقِ مِنْ الْمَشْرِقِ أَوْالْمَغْرِبِ لِتَفَاضُلِ مَابَيْنَهُمْ قَالُوا يَارَسُولَ اللَّهِ تِلْكَ مَنَازِلُ الْأَنْبِيَاءِ لَايَبْلُغُهَا غَيْرُهُمْ قَالَ بَلَى وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ رِجَالٌ آمَنُوا بِاللَّهِ وَصَدَّقُوا الْمُرْسَلِينَ۔ (بخاری،كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ،بَاب مَاجَاءَ فِي صِفَةِ الْجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ،حدیث نمبر:۳۰۱۶، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: جنت والے اپنے اوپر بالاخانوں میں رہنے والوں کواپنے اعمال کی کمی بیشی کی وجہ سے ایسے دیکھیں گے جس طرح سے (لوگ) مغرب یامشرق کے افق میں غائب ہونے والے چمکدار ستارے کودیکھتے ہیں، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یارسول اللہﷺ! کیا یہ انبیاء کرام کی منازَ ہوں گی جن میں ان کے سوا کوئی نہیں پہنچ سکے گا؟ فرمایا: کیوں نہیں؟ مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے (ان غرف یعنی بالاخانوں میں) وہ لوگ رہیں گے جواللہ پر ایمان (کامل اور اعلیٰ درجہ کا) لائے اور اس کے رسولوں کی تصدیق کی (کامل طور پر)۔ متحابین فی اللہ کے درجات: حدیث: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: إِنَّ الْمُتَحَابِّينَ لَتُرَى غُرَفُهُمْ فِي الْجَنَّةِ كَالْكَوْكَبِ الطَّالِعِ الشَّرْقِيِّ أَوْالْغَرْبِيِّ فَيُقَالُ مَنْ هَؤُلَاءِ فَيُقَالُ هَؤُلَاءِ الْمُتَحَابُّونَ فِي اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ۔ (مسنداحمد بن حنبل، مسند أبي سعيد الخدري رضي الله عنه،حدیث نمبر:۱۱۸۴۷، شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ: آپس میں (اللہ تعالیٰ کے لیے) محبت کرنے والے (مسلمانوں) کوجنت کے غرفات میں ایسے (بلند وبالا) دیکھا جائے گا جیسے مشرق یامغرب میں طلوع ہونے والے ستارے کودیکھا جاتا ہے (ان غرفات) کو دیکھ کر پوچھا جائے گا یہ حضرات کون ہیں؟ توکہا جائے گا یہ حضرات خالص اللہ عزوجل کے لیے آپس میں محبت کرتے تھے۔ جنت کے سودرجے: حدیث:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: إِنَّ فِي الْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ لَوْأَنَّ الْعَالَمِينَ اجْتَمَعُوا فِي إِحْدَاهُنَّ لَوَسِعَتْهُمْ۔ (ترمذی، كِتَاب صِفَةِ الْجَنَّةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي صِفَةِ دَرَجَاتِ الْجَنَّةِ،حدیث نمبر:۲۴۵۵، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جنت کے سودرجے ہیں اگرتمام جہان ان میں سے کسی ایک میں جمع ہوجائیں تب بھی وہ درجہ ان سے وسیع رہے۔ جنت کے درجات آیاتِ قرآن کے برابر ہیں: حدیث:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِذَادَخَلَ الْجَنَّةَ اقْرَأْ وَاصْعَدْ فَيَقْرَأُ وَيَصْعَدُ بِكُلِّ آيَةٍ دَرَجَةً حَتَّى يَقْرَأَ آخِرَ شَيْءٍ مَعَهُ۔ (مسنداحمد بن حنبل، مسند أبي سعيد الخدري رضي الله عنه،حدیث نمبر:۱۱378، شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ:حافظ قرآن جب جنت میں داخل ہوگا (تواس کو) کہا جائے گا پڑھتا جا اور چڑھتا جا تووہ پڑھے گا اورہرآیت کی جگہ ایک درجہ اوپر چڑھے گا حتی کہ اس کوجتنا یاد ہوگا اس کا آخری حصہ بھی پڑھ لے گا۔ فائدہ:اس سے معلوم ہوا کہ حافظ قرآن (جوقرآن پرعمل بھی کرتا ہو) جنت کے اعلیٰ درجات پرفائز ہوگا؛ بشرطیکہ اس کوقرآن پاک کا کافی حصہ یاد ہولاپرواہی سے بھول نہ جائے (تفصیل کے لیے ہماری فضائل حفظ القرآن ملاحظہ کریں جواس موضوع میں اُردوزبان کی واحد مفصل اور مدلل کتاب ہے)، امداد اللہ۔ نیزاس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنت کے درجات سو سے زائد ہیں اور اگرسودرجات ہیں جیسا کہ دیگراحادیث میں وارد ہے توپھر ان سودرجات میں مزید بہت سے درجات ہوں گے جن کی طرف اس حدیث شریف میں وضاحت فرمائی گئی ہے۔ مجاہدین کے درجات: حدیث:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے جناب رسول اللہﷺ سے ارشاد فرماتے ہوئے سنا: مائة درجة في الجنة مابين الدرجتين مابين السماء والأرض أوبعد مابين السماء والأرض قلت يارسول الله لمن قال للمجاهدين في سبيل الله۔ (عبدبن حمید فی المنتخب:۹۲۲۔ حادی الارواح:۱۱۴) ترجمہ:جنت کے سودرجات میں ہردودرجوں کے درمیان آسمان وزمین کے فاصلہ کے برابر فاصلہ ہے یاآسمان وزمین سے بھی زیادہ فاصلہ جتنا فاصلہ ہے، میں نے عرض کیا یارسول اللہ یہ درجات کن کے لیے ہوں گے؟ فرمایا: اللہ کے راستہ (یعنی اسلام) میں جہاد کرنے والوں کے لیے۔ فائدہ:اس حدیث کا اصل مصداق مجاہدین ہیں، جولوگ اسلام کی سربلندی کے لیے دنیا میں جتنے طریقوں سے محنت کررہے ہیں دوسرے درجہ میں وہ بھی اس کے مصداق ہیں۔ جنت کے دودرجوں کا درمیانی سفر: حدیث:حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ان الجنَّة مائةُ درجةٍ مابَيْنَ كلِّ درجةٍ مسيرةُ مائة عام۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۲/۶۳۔ مسنداحمد:۲/۲۹۲۔ ترمذی:۲۶۴۹) ترجمہ:جنت کے سودرجات ہیں (ان میں سے) ہردرجہ کا درمیانی فاصلہ سوسال چلنے کے برابر ہے۔ فائدہ:ایک حدیث میں جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جنت کے دودرجوں کا درمیانی فاصلہ آسمان وزمین کے فاصلہ کے برابر ہے۔ (صفۃ الجنۃ، ابونعیم:۲/۶۴۔ مسنداحمد:۵/۳۱۶۔ مصنف ابن ابی شیبہ:۱۳/۱۳۸) اور ایک حدیث میں حضرت ابوہریرہؓ سے مرفوعاؒ روایت ہے کہ ہردوجنتوں کے درمیان پانچ سوسال کا فاصلہ ہے۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۲/۶۷۔ الجامع الصغیر:۱/۱۴۵) فائدہ سے اوپر حدیث اور اس میں سوسال اور پانچ سوسال کا کوئی تضاد نہیں ہے یہ ہلکی اور تیز چال پرموقوف ہوگا۔ ادنی جنتی کے درجات: حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ان أدنى أهْلُ الجنةِ لِمَن له سَبْعُ درجاتٍ، هُوَعَلى السادسةٍ، وفوقه السابعة۔ (مسنداحمد:۲/۵۳۷۔ نہایہ ابن کثیر:۲/۴۳۰۔ مجمع الزوائد:۱۰/۴۰۰۔ صفۃ الجنۃ، ابونعیم:۲/۶۸) ترجمہ:ادنی درجہ کے جنتی کے سات درجات ہوں گے یہ ان میں سے چھٹے درجہ میں ہوگا ساتواں درجہ اس سے اوپر ہوگا۔ معلوم ہوا کہ نچلے چھ درجات ادنی درجہ کے جنتیوں کے لیے ہوں گے، ساتویں درجہ سے جنت کے اعلیٰ درجات شروع ہوتے ہیں۔ سب سے اعلیٰ درجہ: حدیث:حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ان فی الجنۃ مائۃ درجۃ بین کل درجتین کمابین السماء والارض والفردوس اعلاہا درجۃ بین کل درجتین کمابین السماء والارض والفردوس اعلاہا درجۃ ومن فوقہا یکون العرش، ومنہا تفجر انہار الجنۃ الاربعۃ فاذا سالتم اللہ فاسلوہ الفدوس۔ (البدورالسافرہ:۴۸۵، بحوالہ ترمذی:۲۵۳۱۔ مسنداحمد:۵/۳۱۶) ترجمہ:جنت کے سودرجے ہیں ہردودرجوں کے درمیان آسمان وزمین کے فاصلہ جتنا فاصلہ ہے اور فردوس ان سے اعلیٰ درجہ کی ہے، اس سے اوپرعرش ہے؛ اسی سے جنت کی چاروں نہریں پھوٹیں گی؛ پس جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کروتو اس سے فردوس مانگا کرو۔ فردوس عرش سے کتنا قریب ہے: حدیث:حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: سلو اللہ الفردوس فانہ سرۃ الجنۃ وان اہل الجنۃ یسمعون اطیط العرش۔ (البدورالسافرہ:۱۶۹۹، بحوالہ طبرانی:۸/۲۹۴۔ مجمع الزوائد:۱۰/۳۹۸) ترجمہ:تم اللہ تعالیٰ سے فردوس مانگا کرو؛ کیونکہ یہ جنت کا عمدہ حصہ ہے (اس فردوس کے) رہنے والے جنتی عرش کی چرچراہٹ (کی آوازیں) سنیں گے۔ جنت کے درجات کس چیز کے ہیں: حدیث:جناب نبی کریمﷺ ارشارد فرماتے ہیں: في الجنة مائة درجة، بين كل درجتين مابين السماء والأرض، أول درجة منها دورُها وبيوتها وأبوابها وسرُرُها ومغاليقها، من فضة، والدرجة الثانية: دورها وبيوتها وسُرُرها ومغاليقها من ذهب، والدرجة الثالثة: دورها وبيوتها وأبوابها وسُرُرها ومغاليقها من ياقوت ولؤلؤ وزبرجد، وسَبْع وتسعون درجة، لايعلم ماهي إلا اللہ۔ (ابدورالسافرہ:۱۷۰۱۔ بحوالہ ابن وہب وبمثلہ رواہ ابونعیم فی صفۃالنۃ:۲/۲۳۴) ترجمہ:جنت کے سودرجے ہیں ان میں کے ہردرجہ کا درمیانی فاصلہ آسمان وزمین کے فاصلہ کے برابر ہے، ان میں سے پہلے درجہ کے گھر، کمرے، اس کے دروازے پلنگ اور ان کے تالے (سب) چاندی کے ہوں گے اور دوسرے درجہ کے گھر، کمرے، اس کے دروازے اس کے پلنگ اور اس کے تالے سونے کے ہوں گے اور تیسرے درجہ کے گھر اس کے کمرے اس کے دروازے، اس کے پلنگ اور اس کے تالے یاقوت، لؤلؤ اور زبرجد کے ہوں گے اور باقی ستانوے درجے کس چیز سے بنے ہیں سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔ درجات بلند کرنے والے اعمال: حدیث:حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: أَلَاأَدُلُّكُمْ عَلَى مَايَمْحُو اللَّهُ بِهِ الْخَطَايَا وَيَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ قَالُوا بَلَى يَارَسُولَ اللَّهِ قَالَ إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ فَذَلِكُمْ الرِّبَاطُ۔ (مسلم،كِتَاب الطَّهَارَةِ،بَاب فَضْلِ إِسْبَاغِ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ،حدیث نمبر:۳۶۹، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:کیا میں تمھیں وہ عمل نہ بتاؤں جس سے اللہ تعالیٰ خطائیں مٹاتے ہیں اور درجات بلند کرتے ہیں؟ (صحابہ کرامؓ) نے عرض کیا یارسول اللہ کیوں نہیں؟ فرمایا: وضو کوسردی اور تکالیف کے وقت اچھی طرح سے کرنا، مسجد تک زیادہ قدم کرکے جانا، نماز پڑھ کراگلی نماز کی انتظار میں رہنا، یہ ہے گناہوں سے بچنے کا موقعہ اور طریقہ۔ حافظ کا درجہ جنت: حدیث:حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَاكُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا فَإِنَّ مَنْزِلَتَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَأُ بِهَا۔ (ترمذی، كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ،بَاب مَاجَاءَ فِيمَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ الْقُرْآنِ مَالَهُ مِنْ الْأَجْرِ،حدیث نمبر:۲۸۳۸، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:حافظ قرآن کوفرمایا جائے گا پڑھتے جاؤ اور (جنت کے درجے) چڑھتے جاؤ اور (قرآن اس طرح سے) ترتیل سے (ٹھہر ٹھہر کر) پڑھ جس طرح سے تم دنیا میں ترتیل کے ساتھ پڑھا کرتے تھے بلاشبہ (جنت میں) تمہاری منزل اس آخری آیت پرہوگی جس کوتوپڑھے گا۔ فائدہ:اس لیے حفاظ قرآن کو چاہیے کہ وہ قرآن پاک کودنیا میں خوب یادرکھیں اور اپنی اولاد کوبھی قرآن کا حافظ بنائیں اللہ تعالیٰ اولاد کے حفظ قرآن کی برکت سے آپ کوبھی جنت کے اعلیٰ درجات نصیب فرمائیں گے جیسا کہ آپ اس کتاب میں پڑھیں گے۔ تلاوت کرنے والے غیرحافظ کے درجات: حدیث:فضالہ بن عبیدؓ اور تمیم داریؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: من قرأ عشر آيات في کل ليلة كتب له قنطار والقنطار خير من الدنيا ومافيها فإذا كان يوم القيامة يقول ربك عزوجل: اقرأ وارق بكل آية درجة حتى ينتهي إلى آخر آية معه يقول ربك عزوجل للعبد: اقبض فیقبض العبد بيده: يارب أنت أعلم، فيقول: بهذه الخلد ولهذه النعيم۔ ترجمہ:جوشخص ہررات دس آیات تلاوت کرے گا اس کے لیے ایک قطار (ثواب کا) لکھا جائے گا اور ایک قطار (کا ثواب) دنیا اور جوکچھ اس میں ہے سب سے بہتر ہے، جب قیامت کا دن ہوگا توتیرا رب فرمائے گا پڑھ اور چڑھ ہرآیت کے بدلہ میں ایک درجہ ہے؛ حتی کہ وہ اپنی حفظ شدہ آخری آیت تک پہنچ جائے گا توتیرا رب بندہ سے فرمائے گا لے توبندہ رب تعالیٰ کے ہاتھ سے پکڑ لے گا اور کہے گا یارب آپ ہی خوب جانتے ہیں (کہ میں کیالوں) تواللہ تعالیٰ فرمائیں گے یہ دائمی جنت اور یہ (دائمی) نعمتیں لے۔ ہرآیت جنت کا ایک درجہ ہے: حدیث:حضرت ابن عمررضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کی ہرآیت جنت کا ایک درجہ ہے اور تمہارے (دنیاوی) گھروں کے لیے چراغ ہے (البدورالسافرہ:۱۷۰۶، ابحوالہ ابن المبارک) یہ موقوف حدیث مرفوع کے حکم میں ہے؛ کیونکہ غیرمدرک بالقیاس ہے۔ عددآیات سے اوپر کوئی درجہ نہیں: حدیث: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے فرمایا: عدد درج الجنۃ علی عدد آی القرآن لیس فوقہ درجۃ۔ (شعب الایمان بیہقی، البدورالسافرہ:۱۷۹۸) جنت کے درجات کی تعداد قرآن پاک کی آیات کی تعداد کے برابر ہے اس سے زائد کوئی درجہ نہیں ہے۔ فائدہ:علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں جس شخص نے تمام قرآن پاک ازبر کرلیا اس نے آخر کے تمام درجات کوحاصل کرلیا اور جس نے اس سے تھوڑا ساپڑھا تووہ جنت کے درجات میں بھی اسی قدر بلند ہوسکے گا۔ (التذکار فی فضل الاذکار۔ البدورالسافرہ:۴۸۸، محقق) دوستوں میں افضل والے کا درجہ: ترجمہ:حضرت ابوالمتوکل ناجی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: إن الدرجة في الجنة فوق الدرجة كما بين السماء والأرض، وإن العبد ليرفع بصره فليلمع له برق يكاد يخطف بصره، فيفزع لذلك فيقول: ماهذا؟ فيقال له: هذا نور أخيك فلان، فيقول: أخي فلان كنا نعمل في الدنيا جميعاً، وقد فضل علي هكذا، فيقال له: إنه كان أفضل منك عملاً ثم يجعل في قلبه الرضا حتى يرضى۔ (کتاب الزہد ابن المبارک، البدورالسافرہ:۱۷۰۹) ترجمہ:جنت کا ہردرجہ دوسرے درجہ سے اوپر جیسے آسمان وزمین کے درمیان (کی صورت) ہے انسان کبھی اپنی نظر بلند کریگا تواس کوایک بجلی چندھیادے گی قریب ہوگا کہ اس کی نظر کواچک لے تووہ اس سے گھبراکرپوچھے گا یہ کیا ہے؟ تو (اس کو) کہا جائے گا یہ تمہارے فلاں بھائی کا نور ہے، وہ کہے گا میرا فلاں بھائی! ہم دونوں دنیا میں اکٹھے (نیک) عمل کرتے تھے پھر اس کواتنا فضیلت بخشی گئی؟ تواس کوکہا جائے گا کہ وہ عمل کے اعتبار سے تجھ سے افضل تھا پھراس جنتی کے دل میں بھی رضا ڈال دی جائے گی حتی کہ یہ راضی ہوجائے گا۔ فائدہ:حضرت عوف بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالی ٰنے جنت کے لیے ایک مخلوق پیدا کی ہے (انسانوں میں سے) ان کواتنی عطائیں کریں گے کہ وہ سیر ہوجائیں گے، ان کے اوپراعلیٰ درجات میں بھی لوگ ہوں گے جب یہ ان کودیکھیں گے توان کوپہچان لیں گے اور عرض کریں گے، اے ہمارے پروردگار! یہ توہمارے بھائی ہیں ہم ان کے ساتھ رہتے تھے ان کوآپ نے (کیوں) فضیلت عطاء فرمائی ہے؟ توان سے کہا جائے گا ہرگز نہیں ہرگز نہیں یہ لوگ بھوکے ہوتے تھے، جب تم رجے ہوتے تھے اور یہ پیاسے ہوتے تھے جب تم سیراب ہوتے تھے، یہ کھڑے ہوکر (راتوں کو) عبادت کرتے تھے جب تم سوئے ہوئے ہوتے تھے اور یہ بے گھر ہوتے تھے جب کہ تم گھروں میں محفوظ ہوتے تھے۔ (البدورالسافرہ:۱۷۱۰، بحوالہ ابن مبارک وابونعیم۔ صحیح ابن حبان:۶۹۲) دنیاوی تکالیف سے درجے بلند ہوتے ہیں: حدیث:حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ان الرجل لیکون لہ عنداللہ المنزلۃ الرفیعۃ فما یبلغہا یعمل فمایزال اللہ تعالیٰ یبتلیہ بمایکرہ حتی یبلغہا۔ (البدورالسافرہ:۱۷۱۱، بحوالہ ابویعلی۔ ابن حبان:۴/۲۴۸) ترجمہ:کسی شخص کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی قدرومنزلت ہوتی ہے لیکن وہ اس مرتبہ کو(اپنے) عمل سے نہیں پہنچ پاتا تواللہ تعالیٰ اس کواس کی ناپسندیدہ تکلیف میں مبتلا کردیتے ہیں؛ حتی کہ وہ اس مرتبہ پرفائز ہوجاتا ہے۔ غمگینوں کا خاص درجہ: حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: إنّ في الجَنّةِ دَرَجَةً لايَنالُها إلاّأصْحابُ الهُمُومِ۔ (البدورالسافرہ:۱۷۱۲، بحوالہ دیلمی) ترجمہ:جنت میں ایک درجہ ایسا ہے جس کوغم واندوہ والے حضرات کے سوا کوئی نہیں پاسکے گا۔ جنت کا ایک خاص درجہ: حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: إن في الجنة درجة لاينالها إلاثلاثة: إمامٌ عادلٌ، وذو رحم وصول، وذوعيال صبور۔ (البدورالسافرہ:۱۷۱۲، بحوالہ اصبہانی) ترجمہ:جنت میں ایک درجہ ایسا ہے جس کوتین قسم کے لوگوں کے سوا کوئی حاصل نہیں کرسکے گا (۱)عادل حکمران (۲)صلہ رحمی کرنے والا (۳)صابر عیال دار۔ جمعہ کی برکت سے درجات میں ترقی: حدیث:حضرت سمرہ بن جندبؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: احْضُرُوا الْجُمْعَۃَ وَادْنُوا مِنْ الْإِمَامِ فَإِنَّ الرَّجُلَ لَا يَزَالُ يَتَبَاعَدُ حَتَّى يُؤَخَّرَ فِي الْجَنَّةِ وَإِنْ دَخَلَهَا (مسنداحمد:۵/۱۰۔ ابوداؤد:۱۱۹۸) ترجمہ:نماز جمعہ میں حاضری دیا کرو اور امام کے قریب بیٹھا کرو؛ کیونکہ آدمی دور ہوتا جاتا ہے؛ حتی کہ جنت میں بھی مؤخرکردیا جائے گا اگرچہ اس میں داخل ہوچکے گا۔ دنیاوی درجات کی بلندی سے درجات جنت میں انحطاط: حدیث:حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مامن عبد يحب أن يرفع في الدنيا درجة فارتفع إلاوضعه الله في الآخرة درجة أكبر منها وأطول ثم قال وَلَلْآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلًا۔ (حلیۃ الاولیاء:۴/۲۰۴۔ البدورالسافرہ:۱۷۱۹) ترجمہ:جوبندہ یہ پسند کرتا ہے کہ دنیا میں اس کا درجہ بلند کردیا جائے تواس کواس درجہ پرفائز کردیا جاتا ہے؛ مگراللہ تعالیٰ اس کوآخرت کے بڑے اور لمبے (چوڑے) درجہ سے گرادیتے ہیں؛ پھرجناب نبی اکرمﷺ نے یہ آیت تلاوت کی (ترجمہ) اور آخرت کے بڑے درجات ہیں اور بڑی فضیلت ہے۔ فائدہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ کوئی بندہ بھی جودنیا کی کوئی چیز پالیتا ہے اللہ کے نزدیک اس کے درجات میں کمی آجاتی ہے؛ اگرچہ اللہ تعالیٰ اس پرکرم نواز ہوتا ہے۔ (البدورالسافرہ:۱۷۲۰، بحوالہ سعید بن منصوردابن ابی الدنیا بسند صحیح) غلام اور آقا کے درجات کا فرق: حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ آدمی اور اس کا غلام (بعض دفعہ اکٹھے) جنت میں داخل ہوں گے؛ لیکن اس کا غلام اس سے بڑے درجہ پرفائز ہوگا تووہ آدمی کہے گا یارب یہ تودنیا میں میرا غلام تھا (پھر اس کومجھ سے بڑا درجہ کیوں عطاء کیا؟) تواس سے کہا جائے گا یہ تم سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتاتھا۔ (البدورالسافرہ:۱۷۲۱، بحوالہ کتاب الزہد امام احمد۔ مسنداحمد:۴/۲۳۵) (لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہردفعہ غلام ہی بازی لے جائے؛ کبھی آقا آگے کبھی غلام)۔ دل پسند کھانے پرجنت کے درجات کی کمی: حضرت ابراہیم تیمیؒ فرماتے ہیں جوشخص کوئی ایسا لقمہ کھائے جواس کوخوش کردے اور یاکوئی ایک ایسا گھونٹ (کسی چیز کا) پی لے جواس کوخوش کردے اس کی وجہ سے اس کا آخرت کا حصہ کم ہوجاتا ہے۔ (البدورالسافرہ:۱۷۲۲، بحوالہ ابونعیم) فائدہ:اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی نعمتوں کی لذت آخرت کی نعمتوں کوکم کرنے والی ہے؛ اسی لیے بہت سے اکابر اولیاء دنیاوی لذتوں سے کنارہ کش رہ کراللہ کی عبادت ہی میں مشغول رہتےتھے اور گذارے کی روزی پرقناعت کرتے تھے۔ تین لوگ اعلیٰ درجات نہیں پاسکتے: حدیث:حضرت ابوالدرداءؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ثلاث من فعلهن لم يسكن الدرجات العلى ولاأقول الجنة من تكهن أواستسقم أوردۃ عن سفر طيرۃ۔ (البدورالسافرہ:۱۷۲۳، بحوالہ طبرانی) ترجمہ:تین چیزیں جس میں ہوں گی وہ بلند درجات تک نہیں پہنچ سکتا (۱)جس نے کہانت (نجومی کا پیشہ کیا یاعمل کیا یا اس پراعتقاد) کیا (۲)یاتیر نکالنے کے ذریعہ سے اپنے لیے خیریاشر کا فیصلہ کیا (۳)یاقرعہ اندازی کرکے یاکوئی پرندہ اڑاکر اپنے سفر کے لیے فال لیا۔ فائدہ:آج کل نجومیوں اور پامسٹوں کا دھندا بڑے زور سے چل رہا ہے اور بعض اخبارات میں ایک مستقل مضمون بنام آپ کا یہ ہفتہ کیسا گذرے گا چھپتا ہے اس کا پڑھنا ٹھیک نہیں ہے اور اس پریقین کرنا حرام؛ بلکہ کفر ہے؛ لہٰذا آپ بھی غور کریں کہیں آپ تواس میں مبتلا نہیں؟۔ مجاہد کا بلند درجہ: حدیث:حضرت کعب بن مرہؓ فرماتے ہیں میں جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے ارشاد فرمایا: مَنْ بَلَغَ الْعَدُوَّ بِسَهْمٍ رَفَعَهُ اللَّهُ لَہ دَرَجَةً قَالَ فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي النَّحَّامِ يَارَسُولَ اللَّهِ وَمَاالدَّرَجَةُ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ أَمَاإِنَّهَا لَيْسَتْ بِعَتَبَةِ أُمِّكَ وَلَكِنَّهَا بَيْنَ الدَّرَجَتَيْنِ مِائَةُ عَامٍ۔ (البدورالسافرہ:۱۷۲۳، بحوالہ طبرانی۔ تاریخ بغداد:۵/۲۰۱) ترجمہ:جس نے دشمن خدا کا مقابلہ کیا اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کریں گے سن لویہ تیری ماں کا (بنایا ہوا) قبہ نہیں ہے (بلکہ اس کے) دودرجوں کے درمیان سوسال کا فاصلہ ہے۔ درجات بلند کرانے کے اعمال: حدیث:حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: من سره أن يشرف له البنيان وترفع له الدرجات فليعف عمن ظلمه ويعط من حرمه ويصل من قطعه (البدورالسافرہ:۱۷۲۶، بحوالہ حاکم۔ ترغیب:۳/۳۰۷) ترجمہ:جس شخص کویہ بات اچھی لگتی ہے کہ اس کے لیے جنت کی عظمت کودوبالا کیا جائے اور اس کے لیے درجات کوبلند کیا جائے تواسے چاہئے کہ اپنے ظلم کرنے والے کومعاف کرے اور جومحروم کرے اس کودے اور جوقطع رحمی کرے اس سے جوڑے۔ فائدہ:اس طرح کی ایک روایت طبرانی اور بزار میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے۔ (البدورالسافرہ:۱۷۲۷) اولاد کے استغفار سے ترقی درجات: حدیث:حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں (مردہ) انسان کا ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے تووہ عرض کرتا ہے رب! یہ میرا درجہ کہاں سے بلند ہوگیا؟ تواس کوکہا جاتا ہے تیری اولاد کے استغفار کی وجہ سے۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۱۸۵) مجاہدین ستردرجہ بلند درجات میں: حضرت محیریزؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کوگھر بیٹھنے (والے جہاد نہ کرنے) والوں پراپنی طرف سے بڑے اجرعظیم کے درجات سے نوازتا ہے، فرمایا یہ (درجات) ستردرجہ (بلند) ہیں ہردودرجوں کے درمیان تیز ترین رفتار سے دوڑنے والے گھوڑے کے سترسال کی مسافت جتنا فاصلہ ہے۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۱۸۹) عالم کی عابد پرفضیلت کے درجات: حدیث:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: فضل العالم علی العابد سبعون درجۃ بین کل درجۃ حضر الدرس سبعین عاما۔ (المتجرالربح فی ثواب العمل الصالح:۱۷، بحوالہ اصبہانی۔ مجمع الزوائد:۱/۱۲۲) ترجمہ:عالم کی عابد پرستردرجہ فضیلت ہے (اور) ہردرجہ کے درمیان گھوڑے کے سترسال تک تیز دوڑنے کا فاصلہ ہے۔ جنت کے زیادہ درجات کیوں؟ علامہ نیشاپوریؒ فرماتے ہیں جنت کے درجات آٹھ اور دوزح کے ساتھ اس لیے ہیں کہ جنت اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور دوزخ اللہ تعالیٰ کا انصاف ہے اور فضل ہمیشہ انصاف سے زیادہ ہی ہوا کرتا ہے او ریہ وجہ بھی ہے کہ دوزخ سزا ہے اور سزا میں اضافہ کرنا ظلم ہے اور ثواب میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور ایک وجہ سے بھی ہے کہ خیر کے درجات آٹھ ہیں اور شرکے سات۔ (کنزالمدفون:۱۳۴)