انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ابوابُ الجہاد شوقِ شہادت عہد نبوت میں شہادت ایک ابدی زندگی خیال کی جاتی تھی اس لیے ہرشخص اس آب حیات کا پیاسا رہتا تھا حضرت ام ورقہ بنت نوفل رضی اللہ عنہاایک صحابیہ تھیں، جب غزوۂ بدر پیش آیا توانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ مجھ کوشریک جہاد ہونے کی اجازت عطا فرمائی جائے میں مریضوں کی تیمارداری کروں گی شائد مجھے بھی درجۂ شہادت حاصل ہوجائے آپ نے فرمایا گھر ہی میں رہو، خدا تمہیں اسی میں شہادت دے گا یہ معجزانہ پیش گوئی کیونکر غلط ہوسکتی تھی؛ انہوں نے دوغلام مدبر کئے تھے (یعنی وہ غلام جن سے آقا کہتا ہے کہ وہ ان کی موت کے بعد آزاد ہو جائیں گے اس لیے قدرتی طور پریہ لوگ آقا کی موت کے متمنی ہوتے ہیں) دونوں نے ان کوشہید کردیا کہ جلد آزاد ہوجائیں۔ (ابوداؤد، كِتَاب الصَّلَاةِ ،بَاب إِمَامَةِ النِّسَاءِ) عمل بالقرآن صحابیات رضی اللہ عنھن پرقرآن مجید کا شدت سے اثرپڑتا تھا ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ قرآن مجید کی یہ آیت: مَن يَعْمَلْ سُوءا يُجْزَ بِهِ ۔ (النساء:۱۲۳) ترجمہ: جوشخص کوئی بھی برائی کرے گا اس کو اس کا بدلہ دیا جائے گا۔ نہایت سخت ہے ارشاد ہوا کہ عائشہ تم کوخبر نہیں کہ مسلمان کے پاؤں میں اگرایک کانٹا بھی چبھ جاتا ہے تووہ اس کے اعمالِ بدکا معاوضہ ہوجاتا ہے، بولیں لیکن خدا توکہتا ہے: فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا۔ (الإنشقاق:۷) ترجمہ:اُس سے تو آسان حساب لیاجائے گا۔ فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہرعمل خدا کی بارگاہ میں پیش ہوگا، عذاب اسی کودیا جائے گا جس کے حساب میں ردوقدح ہوگی (ابوداؤد،كِتَاب الْجَنَائِزِ،بَاب الْأَمْرَاضِ الْمُكَفِّرَةِ لِلذُّنُوبِ) اس اثرپذیری کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابیات نہایت سرعت کے ساتھ قرآن مجید کے احکام پرعمل کرنے کوتیار ہوجاتی تھیں، حضرت ابوحذیفہؓ بن عتبہ نے حضرت سالم رضی اللہ عنہ کواپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا اس لیے زمانۂ جاہلیت کے رسم ورواج کے مطابق ان کوحقیقی بیٹے کے حقوق حاصل ہوگئے تھے؛ لیکن جب قرآن مجید کی یہ آیت: ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ (الأحزاب:۵) ترجمہ: ان کوان کے حقیقی باپوں کے بیٹے کہہ کرپکارو۔ نازل ہوئی توان کی بی بی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ سالم پہلے ہمارے ساتھ گھر میں رہتے تھے اور ان سے کوئی پردہ نہ تھا، اب آپ کا کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ دودھ پلادو وہ تمہارے رضاعی بیٹے ہوجائیں گے۔(یہ مسئلہ صرف اس واقعہ کےساتھ خاص ہے) (ابوداؤد،كِتَاب النِّكَاحِ، بَاب فِيمَنْ حَرَّمَ بِهِ) زمانہ جاہلیت میں عرب کی عورتیں نہایت بے پروائی کے ساتھ ڈوپٹہ اوڑھتی تھیں اس لیے سینہ اور سروغیرہ کھلا رہتا تھا، اس پریہ آیت نازل ہوئی: وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ (النور:۳۱) ترجمہ: عورتوں کوچاہیے کہ اپنے ڈوپٹوں کواپنے سینوں پرڈال لیں۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ عورتوں نے اپنے تہ بند اور متفرق کپڑوں کوپھاڑ کرڈوپٹے بنائے اور اپنے آپ کوسیاہ چادروں سے اس طرح ڈھانپ توپ لیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کے مطابق یہ معلوم ہوتا تھا کہ ان کے سرکوؤں کے آشیانے بن گئے ہیں۔ (ابوداؤد، كِتَاب اللِّبَاسِ،بَاب فِي قَوْلِهِ ﴿ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ﴾ )