انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** قرامطہ سنہ۲۷۸ھ میں سرزمین کوفہ میں ایک شخص حمدان نامی عرف قرامطہ نے ایک نیامذۃب جاری کیا، یہ ایک غالی شیعہ تھا، اس کا عقیدہ تھا کہ امام صرف سات ہیں، اوّل حسین، دوّم علی زین العابدین، سوم باقر بن علی، چہارم جعفر صادق، پنجماسماعیل بن جعفر، ششم محمد بن اسماعیل اور ہفتہم عبیداللہ بن محمد، اپنے آپ کووہ عبیداللہ بن محمد کا نائب کہتا تھا؛ حالانکہ عبیداللہ نامی کوئی بیٹا محمد بن اسماعیل کا نہیں تھا، محمد بن الحنفیہ بن علی بن ابی طالب کووہ رسول کہتا تھا؛ چنانچہ اذان میں یہ الفاظ بڑھادیے تھے کہ اشہد ان محمد بن الحنفیۃ رسول اللہ، بیت المقدس کوقبلہ قرار دیا تھا، دن رات میں صرف دونمازیں رکھی تھیں، یعنی دورکعت قبل طلوع آفتاب اور دورکعت بعد غروب آفتاب، وہ کہتے تھا کہ بعض سورتیں محمد بن الحنفیہ پر نازل ہوئی ہیں، جمعہ کے بجائے دوشنبہ کے دن کوہفتہ میں وہ بابرکت سمجھتا تھا اور اس دن کوئی کام نہ کرتا تھا، سال بھر میں دوروزے فرض سمجھتا تھا، نبیذکوحرام اور شراب کوحلال کہتا تھا، غسل جنابت کوغیرضروری سمجھتا تھا، بعض جانوروں کواس نے حلال اور بعض کوحرام قرار دیا تھا، جوشخص قرامطہ کا مخالف ہوا، اس کاقتل کرنا واجب ٹھہرایا تھا، اپنا لقب اس نے قائم بالحق رکھا تھا۔ زنکیوں کے سردار غبیث اور بہبود سے بھی اس نے اپنے اس نئے مذہب کے متعلق گفتگو کی تھی اور ان کواپنا ہم خیال بناناچاہا تھا؛ مگرانہوں نے اس طرف کوئی التفات نہیں کیا، ان کی بربادی کے آٹھ برس کے بعد اس نے کوفہ میں اپنے عقائد کی اشاعت شروع کی اور بہت سے لوگ اس کے معتقد ہونے لگے، یہ رنگ دیکھ کرکوفہ کے عامل نے اس کوگرفتار کرکے جیل خانے بھیج دیا۔ اتفاقاً جیل خانے کے محافظوں نے غفلت کی اور قرامطہ وہاں سے نکل بھاگا، اس کے متبعین نے یہ مشہور کردیا کہ قرامطہ کوجیل خانے آنے جانے سے نہیں روک سکتا؛ غرض رفتہ رفتہ اس مذہب کا چرچا دُور دراز تک ہونے لگا اور لوگ اس میں شریک ہوتے گئے، آج کل ہم اپنے زمانے کے گور پسندوں، پیر پرستوں کودیکھ دیکھ کرتعجب کرتے ہیں کہ کس طرح وہ جاہل، بے نماز، چانڈوباز لوگوں کواللہ تعالیٰ کا برگزیدہ بندہ اور ولی کامل سمجھ کران کے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں اور ان کے ہرایک حکم کی تعمیل کوضروری سمجھتے ہیں؛ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے احمقوں کی ایک جماعت ہرایک زمانے میں موجود رہتی ہے، ہمارے شہر نجیب آباد میں ایک شخص رہتا ہے، شہر کی پیشہ ورفاحشہ عورتیں جوناچنے گانے کا پیشہ کرتی ہیں، ہرجمعرات کواس مکان میں آکر اپنا گانا سناتی ہیں اور آوارہ مزاج ناہموار نوجوانوں کووہاں اس حیاسوز واخلاق کش جلسہ میں بدچلنی کی تحریک کا موقع ملتا رہتا ہے، اللہ اوور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شان میں گستاخانہ الفاظ علانیہ وہ زبان سے نکالتا رہتا ہے، نماز، روزہ کا توبھلا ذکر ہی کہاں ہوسکتا ہے، اس شخص کوکثیر التعداد لوگوں نے معبود کا مرتبہ دے رکھا ہے، اس کی خدمت میں مؤدبانہ اپنی حاجات عرض کرتے ہیں اور قیمتی تحائف وہدایا سے اس کوخوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛ لذید کھانے اور نایاب چیزیں پیش کرتے رہتے ہیں۔ ان معتقدین کے زمرہ میں بڑے بڑے اہل کار، ڈاکٹر، تاجر اور تعلیم یافتہ لوگ بھی شامل ہوتے ہیں، ہرچند کوشش کی گئی کہ کوئی ایسی بات معلوم ہوجس کواس عقیدت کا سبب قرار دیا جاسکے؛ مگرکوئی بات ثابت نہ ہوئی؛ لہٰذا مجبوراً تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ انسانوں میں کچھ تعداد اللہ تعالیٰ ایسی بھی پیدا کرتا ہے کہ آنکھیں رکھتے ہوئے نابینائی کے شیدا اور دماغ ہوتے ہوئے تہی مغزی پرمفتون ہوتے ہیں؛ یہی لوگ جوآج کل بھی ہرجگہ موجود نظر آتے ہیں اور یہی لوگ تھے جنہوں نے قرامطہ (یہ باطنیوں کا ایک فرقہ تھا، جواس قدر شدت پسند، لڑاکے اور خبثاء تھے کہ ایک سال حج کے موقع پربیت اللہ شریف سے حجراسود کواُٹھا لائے تھے اور اسے کئی سال تک اپنے پاس رکھا؛ پھربڑی مشکل سے وقت کے خلیفہ نے اُن سے واپس لیا) کے نوایجاد مذہب کوقبول کیا اور انہیں لوگوں کی موجودگی نے ہمیشہ سایہ قلب لوگوں کواپنی اپنی دکانداریاں چلانے کی جرأت دلائی اور دینِ اسلام کے مقابلہ میں ہمیشہ مشکلات پیدا کرکے سچے مسلمانوں کے لیے جہاد سیفی ولسانی کا موقع بہم پہنچایا؛ لہٰذا ان لوگوں کے وجود کوبھی حکمتِ الہٰی کے خلاف ہرگز نہیں سمجھنا چاہیے؛ اگریہ لوگ نہ ہوتے توسچے مؤمنوں کووہ مراتب کس طرح میسر ہوتے جوان کے خلاف کوشش کرنے سے ان کومیسر ہوئے؛ اگرنفس امارہ اور شیطان رجیم نہ ہوتا توطاعت الہٰی پراجر کیسے مرتب ہوتا۔