انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عبداللہ بن طارق نام ونسب عبداللہ نام تھا،قبیلۂ بلی سے تھے اورانصار میں قبیلۂ ظفر کے حلیف تھے،سلسلۂ نسب یہ ہے،عبداللہ بن طارق بن عمرو بن مالک مصنفین رجال کو ان کی نسبت میں اختلاف ہے ؛چنانچہ بعض لوگ ان کو ٖظفری کہتے ہیں، ابن سعد کے نزدیک ٖظفری اور بلوی دوجداگانہ اشخاص ہیں؛ لیکن ہمارے نزدیک ٖظفری اوربلوی دو الگ الگ شخص نہیں ؛بلکہ ایک ہی مسمیٰ کے دو نام ہیں، بلوی اپنے قبیلہ کی نسبت سے اور ظفری حلف کی نسبت سے مشہور تھے اور یہ عرب میں عام طور پر رائج تھا اوپر اس کے متعدد مثالیں گذرچکی ہیں۔ والدہ کے نام معلوم نہیں،اتنا پتہ چلتا ہے کہ معتب بن عبید اور یہ دونوں اخیافی بھائی تھے۔ اسلام ہجرت کے بعد مشرف بہ اسلام ہوئے۔ غزوات بدر اور احد میں شرکت کی۔ ۳ھ کے آخر میں آنحضرتﷺ نے جن ۶ آدمیوں کو قبیلہ عضل و قارہ میں اشاعتِ اسلام کے لئے روانہ کیا تھا ان میں ایک عبداللہ ؓ بن طارق بھی تھے یہ لوگ مقام رجیع پہونچے تو قبیلۂ ہذیل نے سرکشی کرکے ان کا محاصرہ کرلیا، مرثد بنؓ ابی مرثد، خالدؓ بن بکیر اور عاصم ؓ بن ثابت تین بزرگ وہیں لڑکر قتل ہوئے ،خبیب بن عدی ،عبداللہ بن طارق اور زیدؓ بن وثنہ کفار کے ہاتھ آگئے اور قید ہوگئے، کفار ان کو لے کر مکہ چلے تو ظہران نام ایک مقام پر پہونچ کر حضرت عبداللہؓ نے اپنے کو قید و بند سے چھڑالیا اورتلوار کھینچ کر پیچھے ہٹے ،کفار نے یہ دیکھ کر ان کو پتھر مارنا شروع کیا، جس سے وہ جان بحق تسلیم ہوگئے۔ بارگاہ نبوت کے مشہور شاعر حضرت حسان بن ثابتؓ نے اس واقعہ کو نظم کردیا ہے،اوران بزرگوں کے نام گنائے ہیں جس شہر میں حضرت عبداللہؓ کا نام نامی ہے وہ یہ ہے: وابن الدثنہ وابن طارق منھم واناہ ثم حمامۃ المکتوب حضرت عبداللہؓ کی قبر ظہران میں موجود ہے اورآج تک اس واقعۂ ہائلہ کی یاد کو تازہ کرتی ہے۔ فضل وکمال قرآن وحدیث میں حضرت عبداللہؓ کو جو دستگاہ تھی وہ اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرتﷺ نے ان کو اشاعت اسلام کا کام سپرد فرمایا تھا وہ اشاعت اسلام کے ساتھ ساتھ نو مسلموں کو قرآن، مسائل دین اورارکان اسلام کی باقاعدہ تعلیم بھی دیتے تھے، صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں: بعثھم رسول اللہ لیفقھوھم فی الدین ویعلمو ھم القرآں وشرائع الاسلام یعنی ان کو رسول اللہ ﷺ نے اس لئے بھیجا تھا کہ مسائل دین کی تعلیم دیں ،قرآن پڑھائیں اوراسلام کی ضروری باتیں سکھائیں۔