انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حسین بن علی کا خروج حسین بن علی بن حسن مثلث بن حسن مثنیٰ بن علی بن ابی طالب اور حسن بن محمد بن عبداللہ بن حسن ان کے چچا یحییٰ بن عبداللہ بن حسن اور دوسرے آلِ ابی طالب نے مل کرحکومتِ عباسیہ کے خلاف خروج کی سازش کی تھی اور یہ بات قرار پائی تھی کہ سنہ۱۵۹ھ کے موسمِ حج میں خروج کرنا چاہیے؛ مگرایامِ حج سے پہلے ہی مدینہ کے عامل عمر بن عبدالعزیز بن عبداللہ سے ان لوگوں کی کچھ اَن بَن ہوگئی اور انھوں نے خروج کرکے عامل مدینہ کے مکان کا محاصرہ کرکے حسین بن علی بن حسن مثلث کے ہاتھ پربیعت کرنی شروع کی اور اہلِ مدینہ اس بیعت میں شامل ہونے لگے؛ اسی اثنا میں خالد یزیدی دوسوآدمیوں کی جمعیت سے آپہنچا، دوسری جانب سے عمر بن عبدالعزیز بھی محاصرہ سے نکل کراو رایک جماعت کوہمارہ لے کرمسجد کی طرف جہاں حسین بن علی کے ہاتھ پربیعت ہورہی تھی آپہنچا، جولوگ مسجد میں موجود تھے انھوں نے مقابلہ کیا اس لڑائی میں خالد یزیدی یحییٰ وادریس پرسان عبداللہ بن حسن کے ہاتھ سے مارا گیا، اُس کے مارے جاتے ہی سب کوشکست ہوئی اور حسین بن علی کی جماعت نے بیت المال کا دروازہ توڑ کرسرکاری خزانہ لوٹ لیا، اگلے دن بنوعباس کے حامیوں نے جمع ہوکر پھرمقابلہ کیا کئی روز تک مدینہ میں لڑائی کا یہ سلسلہ جاری رہا، آخرحسین بن علی نے سب کوخارج کرکے مدینہ پرمکمل قبضہ حاصل کیا، اکیس روز تک مدینہ میں قیام کرکے مکہ کی جانب کوچ کیا، مکہ معظمہ میں پہنچ کرمنادی کرادی کہ جوغلام ہمارے پاس آئے گا ہم اُس کوآزاد کردیں گے، یہ سن کرغلاموں کا ایک گروہ حسین بن علی کے گردفراہم ہوگیا؛ اسی سال سلیمان بن منصور، محمد بن سلیمان بن علی، عباس بن محمد بن علی، موسیٰ واسماعیل پسران عیسیٰ بن موسیٰ وغیرہ عباسیہ خاندان کے چند آدمی حج کے لیے آئے تھے ان لوگوں کے روانہ ہونے کے بعد ہادی کے پاس حسین بن علی کے خروج کی خبر پہنچی، ہادی نے فوراً محمد بن سلیمان کوایک خط لکھا کہ تم اپنے تمام ہمرالیوں کولےکر حسین بن علی کا مقابلہ کرو، محمدبن سلیمان اپنے ساتھ کچھ فوج بھی لایا تھا محمد بن سلیمان نے مقام ذی طویٰ میں سب کوفراہم کرکے لشکر کوباقاعدہ مرتب کیا اور مکہ معظمہ میں پہنچ کرعمرہ ادا کیا وہاں مختلف صوبوں اور ملکوں سے جوسردارانِ عباسیہ حج کے لیے آئے تھے، وہ سب محمد بن سلیمان کے ساتھ شامل ہوگئے، یوم الترویہ کومقام فخ میں صف آرائی وجنگ آزمائی کی نوبت پہنچی، بہت سے آدمی مارے گئے، آخر حسین بن علی کوشکست حاصل ہوئی اور ان کے ہمراہی فرار ہوگئے۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص حسین بن علی کا سر لے کرآیا، ان کے ہمراہیوں کے قریباً سوسرجمع کئے گئے، انھیں میں سلیمان برادر محمد مہدی کا سربھی تھا، ہزیمت یافتہ لوگ میدان سے بھاگ کرحجاج میں شامل ہوگئے، ادھر محمد بن سلیمان نے امان کی منادی کرادی تھی، حسن بن محمد بن عبداللہ امان کی منادی کے بعد گرفتار ہوا اُس کوموسیٰ بن عیسیٰ نے قتل کردیا، محمد بن سلیمان نے اس پراظہارِ ناراضگی کیا اور ہادی کوبھی جب یہ بات معلوم ہوئی توموسیٰ بن عیسیٰ کے مال واسباب کوضبط کرلیا، اس لڑائی میں ادریس بن عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب برادر محمد مہدی بھی بچ کرنکل گیا تھا، وہ وہاں سے فرار ہوکر مصر پہنچا، وہاں صالح بن منصور کا آزاد کردہ غلام واضح محکمہ ڈاک کا افسر تھا اُس کوآل ابی طالب کے ساتھ ہمدردی تھی، اُس نے ادریس کوتیز رفتار گھوڑے پرسوار کراکربلادِ مغرب کی طرف روانہ کردیا، وہاں ادریس شہر دلیلہ مضافات طنجہ میں پہنچا اور بربریوں کودعوت دینی شروع کی اس کی اولاد کا حال آئندہ جداگانہ بیان ہوگا، عند روز کے بعد خلیفہ ہادی کواس بات کی اطالع ہوئی کہ واضح نے ادریس کومغرب کی طرف بھگادیا ہے؛ چنانچہ ہادی نے واضح اور اُس کے ہمراہیوں کوگرفتار کراکرقتل کرادیا، ادریس بن عبداللہ کا دوسرا بھائی یحییٰ بن عبداللہ مقام فخ سے فرار ہوکر ویلم پہنچا۔