انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اندلس میں اسلامی حکومت کا خاتمہ فردی نند کا حملہ ۱۲ جمادی الآخر۸۹۶ھ کو فردی نند شاہ قسطلہ مع ملک ازبیلا عظیم الشان قلعہ شکن توپ خانے اوربے شمار جرار لشکر لئے ہوئے غرناطہ کے متصل پہنچا،یہاں پہنچتے ہی اُس نے سر سبز وشاداب باغوں،کھیتوں اورآباد بستیوں کو تاراج وخاک سیاہ بنانا اورمسلمان باشندوں کے خون کی ندیاں بہانا شروع کردیا،غرناطہ کے سامنے پہنچ کر اس نے چھاؤنی ڈال دی اورشہر کا محاصرہ کرلیا ،اہل شہر نے محصور ہوکر اوراپنی زندگیوں سے مایوس ہوکر مدافعت میں پھر جان لڑانی شروع کردی شہر کا ایک حصہ چونکہ کوہ شلیر سے وابستہ تھا،لہذا عیسائی فوجیں شہر کا مکمل محاصرہ نہیں کرسکتی تھیں یہ محاصرہ قریباًآٹھ مہینے جاری رہا،جزیرہ نمائے اندلس میں اب سوائے اس محصور شہر کے اور کوئی اسلامی مقبوضہ باقی نہت ھا،جب موسم سرما شروع ہوا اورپہاڑ پر برف کی وجہ سے راستے بند ہوگئے تو شہر والوں کو جو رسد کوہ شلیر کی طرف سے پہنچتی تھی، موقوف ہوئی،لہذا ماہ صفر ۸۹۷ ھ میں اہل شہر نے سلطان ابو عبداللہ سے درخواست کی کہ جب تک ہمارے جسم میں جان باقی ہے دشمن کا مقابلہ کریں گے،اب بھوکے مرنے کے عوض ہم میدانِ جنگ میں تیر وتفنگ کھا کر جان دینا پسند کرتے ہیں،ہم کو امیر طارق ابن زیاد کا معرکہ یاد ہے کہ اس فاتح اوّل نے اپنی مٹھی بھر جمعیت سے ایک لاکھ عیسائی فوج کو شکستِ فاش دی تھی،ہماری تعداد جو اس وقت محصور ہے بیس ہزار سے کچھ کم ہے لیکن چونکہ ہم مسلمان ابو عبداللہ نے دیکھا کہ اہلِ شہر کا اضطراب دن بہ دن بڑھتا ہے،اگر فوراً جنگ یا صلح کا فیصلہ نہ ہوا تو لوگ باغی ہوکر کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھیں جس سے نقصانِ عظیم پہنچے،اُس نے وزراء وامراء کو طلب کرکے مجلس مشورہ قصر حمراء میں منعقد کی،شہر پر قبضہ نہ کرلیں گے محاصرہ سے باز نہ آئیں گے،ایسے نازک وقت میں کیا تدبیر کی جائے؟سلطان ابو عبداللہ کا حوصلہ اس قدر پست ہوگیا تھا کہ ان چند الفاظ کے سوائے اُس کی زبان سے اورکوئی جملہ نہ نکل سکا، اس کے جواب میں تمام حاضرین نے کہا: مناسب یہی ہے کہ شاہ قسطلہ سے صلح کرلی جائے، مگر بہادر سپہ سالار موسیٰ بن ابیل غسانی جوش میں آکر کھڑ ہوگیا، اُس نے کہا کہ ابھی تک کامیابی کی امید باقی ہے،ہم کو ہرگز ہمت نہ ہارنی چاہئے،ہم کو آخر تک مقابلہ کرنا چائیے مجھ کوا مید ہے کہ ہم عیسائیوں کو ضرور بھگادیں گے اور ان کا محاصرہ اپنے شہر سے اُٹھادیں گے،عام باشندگانِ غرناطہ کی یہی رائے تھی جو موسیٰ نے ظاہر کی مگر اس مجلس میں جو لوگ شریک تھے ان میں سے کسی نے موسیٰ کی تائید نہ کی،یہی قرار پایا کہ اگر ہم جنگ میں کامیاب نہ ہوئے تو عیسائی ایک مسلمانوں کو بھی زندہ نہ چھوڑیں گے،لہذ ایسے شرائط پر صلح کرلی جائے جس سے عام خلائق کے جان ومال کو نقصان نہ پہنچے؛چونکہ فوج اور رعایا جنگ پر آمادہ تھی اس لئے ابو عبداللہ نے اپنے وزیر ابو القاسم عبدالملک کو خفیہ طور پر فردی نند کے پاس بھیجا،عیسائی شہر وقلعہ کی حالت سے ناواقف تھے، اس وقت تک وہ مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے تھے لہذا بددل اور افسردہ ہورہے تھے،ابو القاسم وزیر کے پہنچنے اورپیغام صلح سننے سے بہت ہی خوش ہوئے،شاہ قسطلہ نے اس درخواست کو فوراً منظور کرلیا، اس راز کو رعایا سے پوشیدہ رکھنے کی غرض سے ابوالقاسم رات کو قلعہ سے باہر جاکر عیسائیوں سے ملاقات کرتا اورصلح نامہ کے شرائط طے کیا کرتا تھا،بڑی ردّوکد کے بعد شرائط طے ہوئے اورصلح نامہ پر ابو عبداللہ اورفردی نند شاہ قسطلہ کے دستخط ہوگئے۔