انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت شمعون نام ونسب شمعون نام، ابوریحانہ کنیت، پورا سلسلہ نسب یہ ہے، شمعون بن یزید بن خنافتہ القرظی (استیعاب:۲/۶۰۳) ام المؤمنین حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا کے والد تھے (ابن سعد نے حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ یہ نسبا بنوقریظہ سے تھیں؛ لیکن شادی بنونضیر کے ایک شخص کے ساتھ ہوئی تھی، اس بناپر حضرت شمعون رضی اللہ عنہ کوبھی نضری سمجھنا چاہیے؛ لیکن یہ بھی متیقن کے ساتھ تمام ارباب رجال لکھتے ہیں کہ حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا بنوقریظہ کی جنگ میں گرفتار ہوئی تھیں، اس بناپر وہ قرظی ہوئیں اور بنونضیر کی جلاوطنی تواس سے ایک سال پہلے ہوچکی تھی، ان دونوں روایتوں میں کوئی تعارض نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ حضرت شمعون رضی اللہ عنہ نضری ہو اور حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا کی شادی بنوقریظہ میں کردی ہو اور دوسرے تعلقات کی بناپر وہ ان ہی کے ساتھ رہنے لگے ہوں)۔ اسلام یہ تونہیں معلوم ہوسکا کہ کب اسلام لائے؛ مگرحافظ ابن عبدالبر نے یہ تصریح کی ہے: لَهُ صحبة وسماع ورواية۔ (الإستيعاب في معرفة الأصحاب:۱/۲۱۴، شاملہ، موقع الوراق) ترجمہ:صحابی ہیں، سماع اور روایت کا شرف بھی حاصل ہے۔ غزوات نسائی اور طبرانی کی ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوہ میں بھی شریک ہوئے تھے: کَانَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَزْوَةِ۔ (اصابہ:۲/۱۵۶) ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوہ میں شریک تھے۔ اگرچہ اس کی تصریح نہیں ملتی کہ کس غزوہ میں شریک ہوئے تھے۔ عہد فاروقی عہد صدیقی میں توآپ کا ذکر کہیں نہیں آتا؛ مگرعہد فاروقی میں جب دمشق فتح ہوا توآپ بھی اس شرفِ جہاد میں شریک رہے۔ (اصابہ:۲/۱۵۶) شام کا قیام آپ مستقل طور سے شام میں رہتے تھے؛ لیکن کچھ دنوں کے لیے مصر میں چلے آئے تھے؛ مگروہاں تھوڑے روز رہ کرپھرواپس شام چلے آئے۔ (اسدالغابہ:۳/۴) وفات سنہ وفات معلوم نہیں ہے۔ فضل وکمال آپ کا شمار عباد اور زہاد صحابہ میں تھا، حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: من الفضلاء الأخيار النجباء الزَّاهِدِيْنَ فِي الدُّنْيَا الرَّاجِيْنَ مَاعِنْدَ اللّٰهِ۔ (الإستيعاب في معرفة الأصحاب:۱/۲۱۴، شاملہ، موقع الوراق) ترجمہ:اخیار علماء میں تھے، دنیا سے بالکل بے تعلق اور اللہ پرمتوکل تھے۔ اُسدالغابہ میں ہے: وَكَانَ مِنْ صَالِحِي الصَّحَابَةِ وَعِبَادِهِمْ۔ (اسدالغابہ:۲/۹، شاملہ، موقع الوراق) ترجمہ:صالح، نیک اور عبادت گذار صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں ان کا شمار تھا۔ اصابہ میں ہے: وَكَانَ يَكْثر السُّجُوْد۔ (الإصابة في معرفة الصحابة:۲/۱۹، شاملہ، موقع الوراق) ترجمہ:نمازیں بہت پڑھتے تھے۔ قرآن سے شغف قرآن مجید سے بحد شغف تھا، بسااوقات آپ قرآن پاک پڑھنے میں ایسا منہمک ہوجاتے تھے کہ آرام کرنے کا بھی خیال نہ رہتا تھا، ایک مرتبہ آپ کسی غزوہ سے واپس ہوئے، کھانا کھایا اور وضو کرکے اپنے پروردگار کے سامنے سجدہ شکر ادا کرنے کے لیے مسجد میں حاضر ہوئے، کوئی سورت پڑھنی شروع کی اور رات بھر اسی کوپڑھتے رہے، صبح کی نماز پڑھ کرجب گھر تشریف لائے توبیوی نے کہا کہ غزوہ سے تھکے ماندے واپس آئے تھے کچھ آرام کرلینا چاہیے تھا، آپ نے فرمایا، ہاں! یہ توٹھیک ہے: ان ذکرتک لکان علی حق۔ ترجمہ: اگرتم یاد آگئی ہوتیں توضرور مجھ پرتمہارا حق ہوتا؛ مگریادِ الہٰی میں دوسری یاد آتی ہی نہیں۔ بیوی نے پوچھا، آخر کس چیز نے آپ کواس قدر مشغول کرلیا تھا؟ آپ نے فرمایا: التفكير فيما وصف الله في جنته ولذاتها حتى سمعت المؤذن۔ (الإصابة في معرفة الصحابة:۲/۲۰، شاملہ، موقع الوراق) ترجمہ:اللہ تعالی ٰنے جوجنت اور اس کی لذات کی تعریف کی ہے اسی میں غوروفکر کرتا رہا؛ یہاں تک کہ صبح کی اذان ہوگئی۔ آپ قرآن مجید یاد کرنے کے بحد کوشش کرتے تھے؛ مگروہ زیادہ یاد نہیں رہتا تھا، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف لائے اور قرآن جید کے بار بار بھول جانے اور اپنے یاد کرنے کی محنت کا ذکر کیا توآپ نے فرمایا کہ: لاتحمل عليك مالاتطيق عليك بالسجود۔ (تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل:۲۳/۲۰۱، شاملہ، تحقيق:محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، الناشر: دارالفكر) ترجمہ:اپنی یادداشت بھریاد کرو، نماز کی زیادہ پابندی رکھو (یعنی جب نماز زیادہ پڑھوگے توقرآن بھی بار بار پڑھوگے، اس طرح وہ یاد رہے گا)۔